پاکستان

صارفین سے بجلی کے نقصانات کی مد میں اربوں روپے وصول کیے جانے کا امکان

Share

اسلام آباد: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مل کر طے کیے گئے اہداف کو پورا کرنے کے لیے حکومت بجلی کے نقصان کی اضافی لاگت بھی صارفین سے لینے کے لیے نئے سرچارجز لگاتے ہوئے 250 ارب روپے کا سالانہ ریونیو اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔

 رپورٹ کے مطابق اسی سلسلے میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ 1997 میں ترامیم کی پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے آج (پیر) کو اجلاس طلب کرلیا تاکہ دسمبر 2019 تک بڑھنے والے 17 کھرب سے زائد کے گردشی قرضوں کا مسئلہ حل کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے مالی سال 2019 کے لیے گردشی قرضوں کا تخمینہ 465 ارب روپے لگایا تھا۔

ای سی سی اجلاس میں 5 ایجنڈوں پر بات کی جائے گی جس میں سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) کے پاکستان اسٹیل ملز پر قابل ادا بلوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز کا اجرا، یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے 5 ارب روپے کا قرضہ اور دیگر گرانٹس شامل ہیں۔

اس کے علاوہ حکومت بینکوں سے بھی 200 ارب روپے کے قرض لینے کے حتمی مراحل میں ہے، جس سے وہ گردشی قرضوں کا بڑا حصہ عوامی قرضوں میں منتقل کرے گی۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی حال ہی میں ہونے والی پہلی نظر ثانی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے نظرثانی شدہ ساختی معیار کا عزم کیا تاکہ موجودہ مہینے میں ادائیگی کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی اجازت دی جائے۔

ان دونوں محکموں نے تحریری طور پر معاہدہ کیا تھا کہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں تاخیر کو ختم کیا جائے گا اور نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) ایکٹ میں ترمیم کرکے ٹیرف سرچارجز لگانے کے حکومت کے اختیارات کو دوبارہ متعارف کرایا جائے گا تاکہ ریگولیٹر خود فیصلہ کرکے سہ ماہی ٹیرف کو تازہ بینچ مارک کے تحت نوٹی فائی کرسکے۔

معاہدے کے تحت ان ترامیم کو دسمبر کے آخر تک پارلیمنٹ میں پیش کرنا تھا تاہم حکومت نے حلف نامہ جمع کرایا کہ سہ ماہی ٹیرف کی ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ کار جب تک خوکار نہیں ہوجاتا تب تک وہ سہہ ماہی بنیاد پر ٹیرف کو نوٹی فائی کرتے رہیں گے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ طے کیے گئے پلان آف ایکشن کے تحت حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ڈیفالٹرز کے خلاف کنزیومر سروس مینوئل کے تحت قانونی کارروائی کا آغاز کرے گی، اس کے علاوہ حکومت تاخیر سے ادائیگی پر چارجز بھی لگائے گی تاکہ ریکوری ہوسکے۔

علاوہ ازیں مارچ 2020 تک حکومت نے یہ بھی وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ تمام سرکاری دفاتر کو ملنے والی سبسڈیز پر نظرثانی کرے گی۔