نقطہ نظر

طلبہ او ر سیاست ۔۔۔ قائدِ اعظم کی نظر میں

Share

قائد اعظم کی دور رس نگاہوں نے جان لیا تھا کہ مستقبل میں کس طرح کے حالات ہوں گے اور نوجوانوں کو کس طرح کے اوصاف سے متصف ہونا پڑے گا۔ نیز ان کی دور رس نگاہیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ آزاد مملکت میں نوجوانوں کی کس قدر ضرورت ہوگی۔ اسی لیے انہوں نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے پر زور دیااور انہیں اپنی جوانی غیر ضروری امور میں ضائع کرنے سے منع کیا ۔ان کا زور اسی بات پر ہوتا تھا کہ طلبہ تعلیم کا بالکل نقصان نہ کریں، اپنا وقت بلاوجہ ضائع نہ کریں اور تعلیمی زندگی کے تقاضوں کو پورا کریں۔قائد اعظم اپنی تقاریر میں نوجوانوں کوتعلیم کی اہمیت سے آشنا کراتے رہتے تھے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ قائداعظم نے نوجوانوں کو عملی سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی۔ قائد اعظم سیاسی امور جاننے کی نصیحت تو کرتے تھے لیکن وہ طلبہ کے عملی سیاست میں حصہ لینے کے بالکل حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے 10نومبر 1942ء کوآل انڈیا مسلم  اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چھٹے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا: میں جب آپ سے کہتا ہوں کہ آپ سیاست میں کوئی حصہ نہ لیں تو میرا مطلب سمجھنے میں غلطی نہ کریں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ خود کو تیار کریں۔ اپنے میں اہلیت، صلاحیت اور قابلیت پیدا کریں۔
قائد اعظم تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ یہ توقع بھی کرتے تھے کہ نوجوان نہ صرف اپنے ملک بلکہ ساری دنیا کے سیاسی مسائل میں ضرور دلچسپی لیں لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ اس دلچسپی کی خاطر نوجوان تعلیم چھوڑدیں یا سیاست کو مقدم اور مطالعہ کو مؤخر سمجھیں یا اس عمر میںاپنا قیمتی وقت ضائع کردیں۔ 18اکتوبر1945ء کو بلوچستان کوئٹہ میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں کہا: طلبہ سیاست کا مطالعہ ضرور کریں لیکن وہ سیاست کو اپنی تعلیم کا حصہ نہ بنائیں۔ 1941ء میں ناگپور میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاس میں کہا:میں آپ سے باربار کہہ چکاہوں کہ آج کل سیاسی حالات میں جو آئے دن نت نئی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور جو نئی نئی صورتیں پیدا ہورہی ہیں، آپ ان میں ہرگز کوئی عملی حصہ نہ لیں۔  15نومبر 1942ء کوآل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاس کے موقع پر فرمایا: جب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ عملی سیاست میں حصہ نہ لیں تو اس سے میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنے اند روہ اوصاف پیدا کریں جن کے وسیلے سے آپ طالب علمی کی زندگی ختم کرنے کے بعد عملی سیاست کی جدوجہد میں کامیاب ہوں۔ آپ اس وقت اپنے آپ کو ضروری سازو سامان یعنی علم و آگہی اور توفیق عمل سے آراستہ کریں۔ آپ کی اولین اور اہم ترین ضرورت ہے: مطالعہ، مطالعہ اور مطالعہ ۔26ستمبر 1947ء کو کراچی میں منعقد ہونے والی ولیکا ٹیکسٹائل ملز کی افتتاحی تقریب کے موقع پر نوجوانوں سے فرمایا: آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں۔ یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ ۔۔۔ آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو باخبر رکھنے کی غرص سے آپ دورِ حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کے ارد گرد دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ 3 جون 1944ء کو جالندھر کے ایک طالب علم کو ایک خط میں واضح طور پر کہا کہ اگرچہ پنجاب کے طلبہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لے رہے ہیں لیکن میں آپ کو سختی سے تنبیہ کرتاہوں کہ آپ اپنی تعلیم سے بے اعتنائی نہ برتیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی اکثر تقریروں میں کہا ہے کہ آپ اپنی طالبعلمی کے زمانے میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ یہ زمانہ آپ کے علم حاصل کرنے کا ہے اور اس کام میں آپ کو سخت محنت کرنی چاہیے۔ آپ کی تعلیمی زندگی کے یہ چند سال اگر ضائع ہوگئے تو پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ( بحوالہ قائد اعظم کے تعلیمی افکار، ص ۱۸ تا ۲۶)
قائد اعظم کے ارشادات اس بات کی واضح عکاسی کرتے ہیں کہ طلبہ کے لیے سیاست کا علم حاصل کرنا تو ضروری ہے لیکن عملاً سیاست کا حصہ بننے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ طالب علم کو لازمی طور پر دورانِ تعلیم سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ قائد اعظم نے اپنے دور کی سیاست کو دیکھ کر اپنے طلبہ کو سختی سے سیاست میں حصہ لینے سے منع کیا ہے، اگر وہ آج کی سیاست د یکھ لیتے تو طلبہ کو نہ صرف زمانۂ طالب علمی میں بلکہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے دور رہنے کی تلقین کرتے۔ موجودہ دور میں تعلیمی اداروں بالخصوص کالجز اور یونیورسٹیوں پر نظر دوڑائیں تو سب سے زیادہ سیاست وہیں نظر آتی ہے۔ یہ بات کوئی اٹکل پچو سے نہیں کہی جارہی بلکہ آپ خو د دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ سالوں میں کتنے کالجز اور یونیورسٹیوں میں سیاسی گروپوں کے درمیان جھگڑے ہوئے۔ کسی بھی کالج میں چلے جائیں، کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ نئے داخل ہونے والے طلبہ کو ان سیاسی جماعتوں کی رکنیت لازمی قراردی جاتی ہے۔ ان کے قوانین پر چلنا پڑتا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی ’’دھلائی‘‘ کے لیے باقاعدہ ٹارچر سیل بھی بنے ہوتے ہیں۔ یہ حال ابھی کا ہے کہ یونین سازی پر پابندی ہے۔ حال ہی میں طلبہ کا آزادی مارچ ہوا کہ طلبہ یونین بنانے کی اجازت دی جائے۔ ذرا غور کریں کہ جب طلبہ یونین پر پابندی کے باوجود تعلیمی اداروں میں سیاست کا یہ حال ہے تو حکومتی سطح پر یونین سازی اور سیاست کی اجازت دے دی جائے گی تو تعلیمی اداروں کا کیا حال ہوگا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی جان اور عزت دونوں غیر محفوظ ہیں۔ نہیں معلوم کہ کب ان کے طلبہ ان پر چڑھائی کردیں۔ بدقسمتی سے میرٹ کا قتل بھی گندی سیاست کی تلوار سے ہورہاہے۔ اگر کسی سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے طالب علم کو فیل کردیا جائے تو فیل کرنے والے استاد کا کیا حال ہوتا ہے؟ سب کو معلوم ہے۔ تعلیم کا بیڑا غرق سیاسی غنڈوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ امتحانات میں نقل کی سب سے بڑی وجہ سیاسی اثر و رسوخ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ یونین کے فوائد بھی ہیں لیکن وہ ان ممالک میں ہیں جہاں سیاست سیاسی اصولوں کے مطابق ہو۔ قواعد و ضوابط کے مطابق سیاست کی جاتی ہو۔ سیاست کی کچھ حدود و قیود بھی ہوں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاست ایک بے لگام گھوڑے کی مانند ہے تو وہاں تعلیمی اداروں کو بدرجۂ اولیٰ اس گندگی سے پاک ہونا چاہیے ۔جب تک تعلیمی ادارے اس گندگی سے پاک نہیں ہوں گے، تعلیمی میدان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکتی۔ قائدِ اعظم اس بات کو بخوبی جانتے تھے، اسی لیے انہوں نے طلبہ کو سیاست سے دو ررہنے کامشورہ دیا۔