فیچرز

طلوع اور غروبِ آفتاب کے وقت سورج کبھی کبھار سُرخ کیوں ہو جاتا ہے؟

Share

عقل کو حیران کر دینے والی اس قدرتی حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں، لیکن کیا سب جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آپ میں سے اکثر اس کا مشاہدہ غروبِ آفتاب یا طلوعِ سحر کے وقت کرتے ہیں۔

سورج سُرخ ہو جاتا ہے اور آسمان گہرے سُرخ یا نارنجی رنگ میں نہا جاتا ہے اور بعض اوقات جامنی رنگت بھی اوڑھے نظر آتا ہے۔

یہ رنگین منظر بالکل ایک شاعرانہ تخیل کی عکاسی کرتا ہے، اس میں رومانویت جھلکتی ہے، یہ دل میں جذبات پیدا کرتا ہے، لیکن ان سب سے بڑھ کے یہ ایک خالص سائنسی حقیقت ہے۔

آپ خود ہی اس کا مشاہدہ کریں، ہاں لیکن ایک بات یاد رکھیے گا کہ براہِ راست سورج کی جانب مت دیکھیے گا! اور نہ اسے عام سی دوربین یا پیشہ ورانہ دوربین سے دیکھنے کی کوشش کیجیے گا۔۔۔ ایسا کرنے سے آپ کی نظر متاثر ہو سکتی اور شاید یہ آپ کو مستقل طور پر اندھا بھی کر دے۔

شہر کا سب سے بہترین شو

سورج اور سرخ بادل
،تصویر کا کیپشنپہلے ہمیں سورج کی شعاعوں کو سمجھنا ہو گا جو کہ مختلف رنگین دھاریوں کے سلسلے سے بنی ہوتی ہے، جن میں سُرخ، نارنجی ، زرد ، سبز، اودہ، نیلا اور بنفشی رنگوں کا امتزاج ہوتا ہے

یہ قدرتی منظر دیکھنے کے بعد اِسے بیان کرنے کے لیے شاید آپ اپنے ذہن میں الفاظ ڈھونڈتے رہ جائیں، لیکن دو الفاط کلیدی حیثیت رکھتے ہیں: ’ریلے اِنگ لائٹ‘ یا بقعِ نور۔

آپ کے تخیل میں مداخلت کرنے پر معذرت، لیکن روایتی قسم کا طبعیاتی منظر ہے اور رائل میوزیم گرینچ سے وابستہ ماہرِ فلکیات، ایڈورڈ بلومر کے بقول یہ ’سورج کی شعاعوں کے زمین کے مدار میں داخل ہوتے وقت اس میں تبدیلیوں کا مظہر ہے۔‘

پہلے ہمیں سورج کی شعاعوں کو سمجھنا ہو گا جو کہ مختلف رنگین دھاریوں کے سلسلے سے بنی ہوتی ہے، جن میں سُرخ، نارنجی، زرد، سبز، اودا، نیلا اور بنفشی رنگوں کا امتزاج ہوتا ہے۔

بلومر کہتے ہیں کہ ’یہ سب سورج کی شعاعوں کے پھیلنے یا ٹوٹنے کا ایک نتیجہ ہوتا ہے۔۔۔ اور شعاعوں کا یہ پھیلاؤ ہر رنگ کو برابری کے ساتھ نہیں پھیلاتا ہے۔‘

ہر رنگ کی اپنی ایک ’ویو لینتھ‘ (طولِ موج) ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے ہمیں ہر رنگ اپنے مخصوص انداز میں بکھرتا ہوا یا ٹوٹ کر علیحدہ علیحدہ نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر بنفشی رنگ کی طولِ موج سب سے مختصر سائز کی ہوتی ہے جبکہ سُرخ رنگ کی طولِ موج سب سے زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ اس کے بعد جس ماحول میں ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کی کیفیت کو سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے، گیسوں کی سطحیں، وہ آکسیجن بھی جس کا ہم سانس کے ذریعے اخراج کرتے ہیں، جو ہمارے کرّہِ ارض کے ارد گرد موجود ہوتی ہیں، جن کو بدولت ہم زندہ رہ پاتے ہیں۔

روشنی کا پھیلاؤ

سورج
،تصویر کا کیپشنجیسے ہی سورج کی شعاعیں ماحول کی ان سطحوں سے گزرنا شروع ہوتی ہیں، نیلے رنگ کی طولِ موج ٹوٹتی ہے اور اپنے رنگ کو جذب کرنے کے بجائے اس کا انعکاس کرتی ہے

جب روشنی مختلف سطحوں سے گزرتی ہے، جن میں ہر واسطے کی اپنی اپنی گیسوں کی نوعیت ہوتی ہے، تو یہ شعاعیں مُڑتی ہیں اور پھر یہ بکھرتی ہیں، یا یہ ایک شعاع سے ٹوٹتی ہیں جیسے جب روشنی کسی مخروطی شیشے سے گزرتے ہوئے بکھرتی ہے (اور ان کے اندر کے رنگ الگ الگ نظر آنے لگتے ہیں)۔

اس کے علاوہ جس ماحول میں ہم یہ سب دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کے اندر بھی مہین مہین ذرات معلق ہوتے ہیں، اور مختلف کثافتوں والی گیسیں موجود ہوتی ہیں، جو ان ٹوٹتی اور بکھرتی ہوئی شعاعوں کو منعکس کرتے ہیں۔

جب سورج غروب یا طلوع ہوتا ہے، اس کی شعاعیں کرہِ ارض کے ماحول کی سب سے اونچی سطح سے ایک مخصوص زاویے سے ٹکراتی ہیں اور پھر یہاں سے رنگوں کا یہ ’جادو‘ بکھرنا شروع ہوتا ہے۔

جیسے ہی سورج کی شعاعیں ماحول کی ان سطحوں سے گزرنا شروع ہوتی ہیں، نیلے رنگ کی طولِ موج ٹوٹتی ہے اور اپنے رنگ کو جذب کرنے کے بجائے اس کا انعکاس کرتی ہے۔

بلومر کہتے ہیں کہ ’جب سورج افق کی نچلی سطح پر آتا ہے، اس وقت نیلے اور ہرے رنگ بکھر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں نارنجی اور سرخ رنگ کے جلوے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔‘

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ چھوٹے سائز رکھنے والے رنگوں کی طول موج (بنفشہ رنگ اور نیلا رنگ) بڑے سائز والے طولِ موج کے رنگوں (نارنجی رنگ اور سرخ رنگ) کی نسبت زیادہ بکھرتی ہے، اور اس کے نتیجے میں آسمان پر آنکھوں کو حیران کر دینے والے رنگوں کا رقص نظر آنے لگتا ہے۔

لیکن آسمان سرخ کیوں نظر آتا ہے؟

مصر کے اہرام کے گرد سرخ آسمان
،تصویر کا کیپشناس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ یہ منظر دنیا کے کس حصے سے دیکھ رہے ہیں، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ شاید آپ کا آسمان آپ کی مقامی فضا کے حالات کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ حیران کُن منظر پیش کرے

ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ آسمان سُرخ نظر آئے، لیکن یہ صرف ظاہری کیفیت ہوتی ہے۔ جہاں تک سورج کی اپنی حالت کی بات ہے اُس میں رتّی بھر بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔

اس کا اس بات پر انحصار ہوتا ہے کہ آپ یہ منظر دنیا کے کس حصے سے دیکھ رہے ہیں، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ شاید آپ کا آسمان آپ کی مقامی فضا کے حالات کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ حیران کُن منظر پیش کرے۔

بلومر کہتے ہیں کہ ’گرد آلود فضا، بادل، دھواں اور اسی طری کی دیگر کیفیتیں اس منظر کے دیکھنے کے عمل کو متاثر کر سکتی ہیں۔‘

اس لیے اگر آپ انڈیا، کیلیفورنیا، چلی، آسٹریلیا یا افریقہ کے کسی خطے میں رہتے ہیں، یا کسی ایسی جگہ جو سرخ ریت کے قریب ہو تو موسمی حالت کی وجہ سے آپ کے ارد گرد کی فضا شاید ایسے ذرات سے زیادہ بھری ہوئی ہو جو روشنی کو منعکس کرتے ہیں۔

بلومر کہتے ہیں کہ ’یہ تقریباً اُسی طرح ہو گا جیسا کے مریخ پر ہوتا ہے، جب فصا میں سُرخ آندھیوں کی وجہ سے سرخ ذرات کثرت کے ساتھ آ جاتے ہیں، تو اس سے تاثر یہ بنتا ہے کہ آسمان سرخی مائل گلابی ہے۔‘

اور اگرچہ آپ کسی صحرائی علاقے یا مریخ سے بہت دور رہتے ہیں تب بھی آپ آسمان پر یہ رنگین منظر دیکھ سکتے ہیں۔ صحارا کی ریت کرہِ ارض کی فضا کی اونچی ترین سطح میں معلق ہو جاتی ہے اور پھر یہ پورے یورپ کے افق پر سفر کرتی ہے اور سائبیریا اور یہاں تک کہ امریکہ کے دونوں براعظموں کے افقوں تک پہنچ جاتی ہے۔

یہ اب کیوں ہو رہا ہے؟

بالکونی سے غروبِ آفتاب کے مناظر
،تصویر کا کیپشناس وقت جو ہو رہا ہے شاید یہ کوئی منفرد بات نہیں ہے، لیکن جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ کہ اب ہم اس قدرتی منظر کو ایک مختلف اندز سے دیکھ رہے ہیں

اس وقت جو ہورہا ہے شائد یہ کوئی منفرد بات نہیں ہے، لیکن جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ کہ اب ہم اس قدرتی منظر کو ایک مختلف اندز سے دیکھ رہے ہیں۔

ایڈورڈ بلومر مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس لاک ڈاؤن کے پورے عرصے میں لوگ آسمان کی جانب کچھ زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ شاید اب ان کے پاس اور کچھ کرنے کے لیے ہے نہیں۔‘

سینما، تھیٹروں اور رات کی سرگرمیوں کے بند ہو جانے کی وجہ سے ہم اپنا زیادہ وقت گھروں پر بسر کر رہے ہیں اور کھڑکیوں سے آسمان کی طرف گھورتے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ آسمان میں ہوائی جہازوں کی کم پروازوں اور فضا میں کم آلودگی کی وجہ سے لوگوں میں آسمان پر ستارہ بینی کا رجحان پھر سے پیدا ہوا ہے۔

رنگ اور قوسِ قزح

رنگ اور قوسِ قضا
،تصویر کا کیپشنجب سورج آسمان میں طلوع ہو چکا ہوتا ہے، اس کی روشنی کی شعاعیں بغیر بکھرے یا ٹوٹے اس واسطے سے گزرتی ہیں، جب یہ وہاں سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہیں تو یہ جذب ہوتی جاتی ہیں، اور ان میں غالب ہونے والا رنگ نیلا ہے، جسے ہم دیکھتے ہیں

اتفاق کی بات ہے کہ رنگوں کے بکھرنے کا یہ قدرتی منظر اس بات کی بھی ایک وضاحت پیش کرتا ہے کہ آسمان دن کے زیادہ تر حصے میں نیلے رنگ کا کیوں نظر آتا ہے۔

جب سورج آسمان میں طلوع ہو چکا ہوتا ہے، اس کی روشنی کی شعاعیں بغیر بکھرے یا ٹوٹے اس واسطے سے گزرتی ہیں، جب یہ وہاں سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہیں تو یہ جذب ہوتی جاتی ہیں، اور ان میں غالب ہونے والا رنگ نیلا ہے، جسے ہم دیکھتے ہیں۔

تاہم موسمی حالات کے بدلنے کی وجہ سے ہمیں کچھ اور رنگ بھی دِکھائی دے سکتے ہیں۔

جب سورج دن میں آسمان میں ہوتا ہے اُس وقت اگر بارش ہو رہی ہو تو اُس وقت اُس کی شعاعوں کی مختلف طولِ موج بارش کے قطروں میں سے گزرنے کی وجہ سے بکھرتی ہیں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انعطاف کی وجہ سے فضا میں رنگ بکھر جاتے ہیں۔

ہم ان تمام باتوں کو اس لیے جانتے ہیں کیونکہ 19ویں صدی کے ایک ماہرِ طبعیات لارڈ رے لی نے اپنا بہت سارا وقت سورج کی شعاعوں اور فضا کے مطالعے میں صرف کیا، اور وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے یہ وضاحت دی تھی کہ آسمان نیلا کیوں نظر آتا ہے۔