منتخب تحریریں

قومی اسمبلی کا آن اجلاس ناممکن!

Share

بخدا 2018کے انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی قومی اسمبلی جب بھی خود کو ملکی حالات کے حوالے سے حتمی فیصلہ ساز ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تو میرا پنجابی محاورے والا ”ہاسا“ چھوٹ جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس ادارے نے سپریم کورٹ کے احکامات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک اہم ترین قانون فقط بارہ منٹ کی تاریخی عجلت کے ساتھ منظور کیا تھا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ نے مذکورہ قانون کا مسودہ دیکھے بغیر ہی اس کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کردیا تھا۔بلاول بھٹو زرداری اس اعلان سے بہت پریشان ہوئے۔ مجوزہ قانون میں چند معصومانہ ترامیم متعارف کروانے کا عندیہ دیا۔ ان کے والد آصف علی زرداری صاحب سے مگر ہنگامی رابطے استوار ہوئے اور پیپلز پارٹی نے بالآخر ہاتھی کے پاﺅں میں اپنا پاﺅں رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ ”قومی اتفاقِ رائے“ کے حوالے سے ایسا تاریخ ساز منظر کبھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔عمران حکومت کے تجویز کردہ قانون پر نہایت عاجزی سے راضی ہوجانے والی اپوزیشن ان دنوں اصرار کررہی ہے کہ وباءکے موسم میں کرونا سے نبردآزما ہونے کی حکمت عملی تشکیل دینے اور ابھی تک لئے اقدامات کی نگہبانی کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس فی الفور طلب کیا جائے۔ حکومت اس ضمن میں صاف انکار نہیں کررہی۔سپیکر اسد قیصر کو اپنی اہمیت جتانے کا موقعہ نصیب ہوگیا ہے۔یہ مگر طے نہیں ہوپارہا کہ فی الفور قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کی جرا¿ت دکھائی جائے یا نہیں۔سماجی دوری پر اصرار کے دنوں میں یہ کالم لکھنے تک تجویز یہ بھی گردش میں تھی کہ ”سب پر بالادست“ ادارے کا Virtual”اجلاس“ بلالیا جائے۔ اسلام آباد پہنچ کر قومی اسمبلی کے ایوان میں بیٹھنے کے بجائے اس کے اراکین اپنے گھروں ہی میں بیٹھے رہیں۔SkypeیاZoomجیسی Appsکے ذریعے اجلاس ”منعقد“ کرلیں۔دُنیا بھر میں ان دنوں Work from Homeکا طریقہ اپنایا جارہا ہے۔میں خود کئی برس سے اسے اپنائے ہوئے ہوں۔ صبح اُٹھ کر ہاتھ سے کالم لکھتا ہوں اور Whatsappکے ذریعے ٹائپ کے لئے بھجواتا ہوں۔ٹائپ شدہ مسودے کو Whatsappسے وصول کرکے پروف پڑھتا ہوں۔فون پر غلطیوں کی نشاندہی کردیتا ہوں۔ان غلطیوں کو درست کرکے Whatsapp کے ذریعے دفتر بھجوادیا جاتا ہے۔1992سے انگریزی کالم لکھنے کے لئے کمپیوٹر استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ دفتر جانے کی ضرورت ہی کبھی محسوس نہیں ہوئی۔

صحافت کے علاوہ بے شمار ایسے شعبے ہیں جہاں گھر بیٹھے ہی کام کیاجاسکتا ہے۔اہم اداروں کے فیصلہ ساز Skypeاور Zoomکے ذریعے ایک دوسرے سے صلاح مشورہ بھی کرلیتے ہیں۔قومی اسمبلی جیسے ادارے کا مگر Virtualہونا ناممکن ہے۔اس کے 342اراکین ہیں۔ان میں سے اگر 20افراد بھی بیک وقت اپنی ذہن میں آئی کوئی بات کہنے کے لئے سپیکرکی توجہ کے طلب گار ہوں تو Skypeاور Zoomکی وجہ سے اس کا اندازہ تک نہیں ہوپائے گا۔Virtualاجلاس کا تمام تر کنٹرول سپیکر کے پاس رہے گا۔ان کے تکنیکی معاون ہی یہ فیصلہ کریں گے کہ کس کا مائیک کھولا جائے۔ کیمرہ کس رکن پر توجہ مرکوز رکھے۔کسی بھی معاملے پر بھرپور گفتگو لہذا ہو نہیں پائے گی۔ محض دکھاوے کو ایک ”اجلاس“ ہوجائے گا جس کی کارروائی کو Regulateکرنا ممکن ہی نہیں۔تکنیکی دشواریوں کو فی الوقت نظرانداز کردیتے ہیں۔انہیں نظرانداز کرتے ہوئے اگرچہ میرے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا رہے گا کہ امریکہ جس نے دُنیا کو انٹرنیٹ دیا ابھی تک اپنی کانگریس یا سینٹ کا اجلاس جدید ترین آلات کے ہوتے ہوئے بھی Virtualانداز میں منعقد کیوں نہیں کرپایا۔ امریکہ میں کرونا جب نقطہ عروج کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا تب بھی امریکی کانگریس کا ایک باقاعدہ اجلاس منعقد ہوا۔اس کانفرنس نے کھربوں ڈالر پر مشتمل اس رقم کی منظوری دی جو بے روزگاروں کو مالیاتی امداد دینے کے لئے خرچ ہوگی۔ اس کے علاوہ Stimulusکے نام پر بے تحاشہ کاروبار بچانے کی کوشش بھی ہوئی۔جنوبی ایشیاءکے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی خدا کے فضل سے ابھی تک کرونا کے حوالے سے اس نقطہ عروج کی جانب تیزی سے نہیں بڑھ رہا جس نے اٹلی، فرانس،سپین اور امریکہ جیسے ممالک میں قیامت برپا کردی ہے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران حکومت بتدریج لاک ڈاﺅن میں نرمی اختیار کرنے پر اصرارکررہی ہے۔ صرف سندھ حکومت اس ضمن میں مزاحمت دکھارہی ہے۔دیہاڑی داروں کے غم میں لیکن کراچی کے کاروباری حضرات نے اسے اپنے رویے میں نرمی لانے پر مجبور کیا۔دیہاڑی داروں کے غم میں مبتلا نظر آنے والوں کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ قومی اسمبلی کا Virtualاجلاس بلانے پر زور دیں۔ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔ ایک جانب آپ اصرار کئے چلے جارہے ہیں کہ کرونا ”نزلہ زکام“ ہی کی ایک قسم ہے۔اس کی زد میں آیا شخص فطری مدافعتی نظام کی بدولت 14دنوں میں ازخود شفایات ہوجاتا ہے۔صرف 60سال سے زائد عمر کے افراد اس کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔اگرچہ ان کی تعداد بھی انتہائی قلیل نظر آتی ہے۔کرونا کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کی کثیر تعداد پہلے سے ویسے بھی بلڈپریشر،شوگریا دل کی بیماری کے ساتھ زندہ تھی۔ کرونا نے ان کی بیماریوں کو مزید خطرناک بنادیا۔ ہمیں سماجی دوری پرکسی نہ کسی طرح کار بند رہتے ہوئے لاک ڈاﺅن کو سمارٹ طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔

یہ بات ایمان داری سے کوئی کہنے کی جرا¿ت نہیں دکھارہا کہ پاکستان جیسے ملک کو اپنے مخصوص حالات کے تحت زندگی رواں رکھنے کے لئے Herd Immunityکا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔یہ اصطلاح استعمال کئے بغیر مگر ہم اس پر کاربند ہوئے نظر آرہے ہیں۔مختلف کاروبار کھول دئیے گئے ہیں۔اس ضمن میں تعمیراتی سرگرمیوں کو ترجیح دی گئی ہے۔میرے گھر کے پچھواڑے میں میری بیوی کے بھائی کا گھر زیر تعمیر ہے۔گزشتہ ایک ماہ سے وہاں کام رکا ہوا تھا۔اتوار کے دن تین مزدورآگئے۔ پیر کی شام تک ان کی تعداد دس سے تجاوزکرچکی تھی۔ منگل کی صبح سے وہ چھت ڈالنے کے لئے سریے کا جال بچھانے میں مصروف ہیں۔ بہت تندی سے ”لیٹ نکال“ رہے ہیں۔یہ کالم لکھنے سے قبل میں نے کافی دیر تک ان کا مشاہدہ کیا۔ رزق کمانے کی مجبوری نے ان مزدوروں کو اپنے آبائی قصبات سے اسلام آباد لوٹ کر کام کرنے کو مجبور کیا۔ ایسے ہی کئی مزدور اسلام آباد کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی صرف تعمیرات ہی نہیں دیگرشعبوں میں بھی مشقت کرناشروع ہوگئے ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے اراکین خود کو عوام کے ”حقیقی نمائندے“ کہلوانے پر اصرار کرتے ہیں۔سوال اُٹھتا ہے کہ جب لاکھوں کی تعداد میں ہمارے عوام اپنے گھروں سے نکل کر رزق کمانے کی مشقت میں مصروف ہوجائیں۔زندگی بحال ہونے کا تاثر دیں تو ان کے ”حقیقی نمائندے“ کس منہ سے اپنے گھروں تک محدود ہوئے قومی اسمبلی کا ”اجلاس“ منعقد کرنے کا ڈھونگ رچائیں گے۔”ہمارے نمائندوں“ کی بے پناہ اکثریت خوش حال طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔وہ اپنی صحت کا باقاعدہ خیال بھی رکھتے ہیں۔ان کے پاس یقینا یہ سکت موجود ہے کہ جدید ترین ماسک اور حفاظتی لباس خرید سکیں۔”دیہاڑی دار“بدنصیبوں کو کاروبار بحال کرنے کے نام پر Herd Immunityکی جانب دھکیلا جارہا ہے تو ان کے ”نمائندے“ زندگی کو ”معمول“ پر لانے میں کیوں گھبرارہے ہیں۔خود کو واقعتا وطن عزیز کا حتمی فیصلہ ساز ادارہ ثابت کرنا مقصود ہے تو ربّ کریم پربھروسہ کریں۔اسلام آباد آئیں اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوں۔ اس اجلاس میں شرکت سے قبل تمام اراکین کے ہنگامی بنیادوں پر ٹیسٹ ہوسکتے ہیں۔ان میں سے جو افراد خدانخواستہ کرونا کی زد میں آئے نظر آئیں وہ اپنے گھروں تک ہی محدود رہیں۔صحت مندافراد قومی اسمبلی کے وسیع وعریض ہال میں تشریف لائیں جسے روزانہ کی بنیاد پر جدید ترین آلات اور ادویات کے ذریعے Disinfectکیا جاسکتا ہے۔یہ اجلاس ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھایا جائے۔ اس میں ہوئی گفتگو کو Muteکرنے یا سکرین سے غائب کرنے کی حماقت سے گریز ہو۔ قومی اسمبلی میں متحرک ہوئے ”اپنے نمائندوں“ کو دیکھ کر خوفزدہ عوام کی اکثریت کو یقین آجائے گا کہ گھبرانا نہیں۔ زندگی کو رواں رکھنا ہے۔اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے میرے یا آپ کے ”نمائندوں“ کو ہر اعتبار سے محفوظ ترین شمار ہوتی قومی اسمبلی کی عمارت میں آنے کا حوصلہ نہیں تو ہماری اشرافیہ اپنے دھندے رواں رکھنے کے لئے غریب عوام کو Herd Immunity کے دریا میں کودنے کو کیوں مجبور کررہی ہے؟