منتخب تحریریں

مائنس ون: بجھی چنگاری سے شعلوں کی اُمید

Share

اتوار کی صبح اُٹھ کر جو کالم روانی میں لکھا تھا پیر کی صبح چھپ گیا تو اس کے ردعمل میں جو پیغامات ملے انہوں نے بہت کچھ سوچنے کو مجبور کردیا۔غوروفکر کی مشق سے گزرتے ہوئے احساس یہ بھی ہوا کہ میڈیا کے ذریعے ایسے ’’اصول‘‘ بھی فروغ پاتے ہیں جو سیاست میں کامیابی کے لئے ’’کلیدی‘‘ تصور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔عملی زندگی میں اگرچہ وہ قطعاََ لایعنی اور غیر متعلق نظر آتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حال ہی میں ختم ہوئے اجلاس کے دوران عمران حکومت کو آئندہ مالی سال کا بجٹ منظور کروانا تھا۔ بجٹ تجاویز ایوان کے روبرو رکھ دی گئیں تو ان پر عام بحث کا آغاز ہوا۔اس بحث کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل نے ایک دن اپنی نشست سے کھڑے ہوکر ایک طویل اور جذباتی خطاب کیا۔اس کے اختتام پر انہوں نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ وہ تقریر ختم ہوگئی تو ہمارے ٹی وی چینل بینڈ باجہ بارات والی ’’بریکنگ نیوز‘‘ دینے کے بعد سیاسی امور کے نبض شناس مشہور ہوئے ’’سینئر صحافیوں‘‘ سے گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ انتہائی تجسس سے اس سوال پر غور شروع ہوگیا کہ عمران حکومت اپنا بجٹ منظور کرواپائے گی یا نہیں۔ 342اراکین پر مشتمل ایوان میں تحریک انصاف اپنے تئیں اکثریتی جماعت نہیں ہے۔ عمران خان صاحب کو وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رہنے کے لئے ’’اتحادیوں‘‘ کی ضرورت ہے۔مینگل صاحب بھی چاراراکین کی تعداد والے ’’اتحادی‘ ‘ تھے۔ ان کا مزاج تبدیل ہونے کے بعد فوری سوال یہ اٹھاکہ گجرات کے چودھریوں کی قاف لیگ اب کیا رویہ اختیار کرے گی۔بجٹ پر عام بحث کے لئے مختص ہوئے ایام کے دوران حکومتی بنچوں سے ریاض مزاری جیسے اراکین نے ’’حکومتی رٹ‘‘ نہ ہونے کی دہائی مچائی۔ فیصل آباد کے راجہ ریاض نے پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے متعدد بار سپیکر سے پیٹرول کی عدم دست یابی جیسے موضوعات پر گفتگو کی کوشش کی۔انہیں اجازت نہ ملتی تو بلند آواز میں غصے سے بڑبڑاتے ہوئے ایوان سے احتجاجاََ واک آئوٹ کرجاتے۔ایسے کئی واقعات نے سیاسی مبصرین کی مؤثر تعداد کو اس گماں میں مبتلا کرنا شروع کردیا کہ ’’مائنس ون‘‘ والی افواہیں بے سروپا نہیں۔میرا جھکی ذہن ایک لمحے کو بھی لیکن اس کہانی کو سنجیدگی سے لینے کو آمادہ نہیں ہوا۔اس کالم میں اصرار کرتا رہا کہ عمران حکومت اپنا بجٹ بآسانی منظور کروالے گی۔ بالآخر بجٹ منظوری کے آخری مراحل کے دوران ایک مقام پر حزب اختلاف نے نشستوں سے کھڑے ہوکر شمار ہوئی گنتی پر اصرار کیا تو عمران حکومت کی حمایت میں 160اراکین موجود نظر آئے۔حزب اختلاف کی جماعتیں ان کے مقابلے میں 119کا عدد دکھاسکیں۔’’مائنس ون‘‘ والی داستان اس گنتی کے بعد ختم ہوجانا چاہیے تھی۔ میڈیا میں اس کا تذکرہ مگراب بھی رونق لگارہاہے۔اس تھیوری کے متوازی بلکہ’’ مائنس تھری‘‘والی کہانی بھی آچکی ہے۔ناظرین وقارئین سے یہ توقع باندھی جارہی ہے کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے منظر عام پر آنے کے منتظر رہیں۔ مختصر گوئی ہمارا شیوہ نہیں۔لمبی تمہید باندھنے کے عادی ہیں۔غزل جیسی صنف میں بھی موضوعات کا طومار نظر آتا ہے۔ کالم نگاری تو قارئین کو دلائل کا انبار دکھانے کے جواز فراہم کرتی ہے۔سعادت حسن منٹو کو زندہ رہنے کے لئے روزانہ ہی کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری تھا۔موت سے کچھ عرصہ قبل مگر ان کے بے پناہ تخلیقی ذہن نے مختصر نویسی کی اہمیت دریافت کرلی۔’’سیاہ حاشیے‘‘ اس ہنر کا بہترین اظہار ہے۔ان دنوں کبھی کبھار ان سے رجوع کرتا ہوں تو گماں ہوتا ہے کہ جدید دور کے تناظر میں چونکادینے والا ’’ٹویٹ‘‘ لکھا گیا ہے۔کاش انہیں زندہ رہنے کے لئے چند برس مزید مل جاتے۔ وہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے لئے اختیار کردہ ہنر کو ٹھوس روایت بنادیتے۔مختصر نویسی کا چرچہ کرتے ہوئے خود بھی اصل موضوع سے ہٹ گیا۔دوسروں کو نصیحت کرنے والا ’’میاں فضیحت‘‘۔ توجہ اس دعویٰ پر مرکوز رکھنا تھی کہ میڈیا اپنے تئیں کوئی ’’وکھری‘‘ بات ایجاد کرتا ہے۔اسے تواتر سے دہراتے ہوئے ’’اصولی اور بنیادی‘‘ وغیرہ بنادیتا ہے۔میری دانست میں ’’مائنس ون‘‘ ایسی ہی ایک کہانی تھی۔ 160اراکین کی حمایت Showہوجانے کے بعد اسے ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ مجھ جیسے ڈنگ ٹپائو لکھاریو ں کو لیکن اپنی یاوہ گوئی کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہی محسو س نہیں ہوتی۔ہماری جانب سے پھیلایا تاثر حقائق کی دُنیا میں عمل پیرا ہوتا نظر نہ آئے تو ہم جواز تراشنا شروع ہوجاتے ہیں۔اسی رویے کی بنیاد پر اب دعویٰ یہ ہورہا ہے کہ ’’مائنس ون‘‘ والی کہانی بے بنیاد نہیں تھی۔عمران خان صاحب نے مگر اسے بروقت بھانپ لیا۔ اس کہانی کو ناکام بنانے کے لئے قومی اسمبلی میں باقاعدگی سے آنا شروع ہوگئے۔اپنی جماعت کے اراکین کو وزیر اعظم کے چیمبر میں بلاکر ان کے دلوں میں جمع ہوئے شکوے سننا شروع کردئیے۔ خان صاحب اپنے ملاقاتیوں کو چائے بھی ’’بیزاری‘‘ سے پلانے کے عادی رہے ہیں۔ان پر ’’مہمان نواز‘‘ ہونے کا الزام آج تک نہیں لگا۔ بجٹ منظوری کے آخری مراحل کے دوران مگر انہوں نے اپنے حامیوں کے لئے عشائیے کا اہتمام کرکے سب کو حیران کردیا۔ سیاست کے نبض شناس مشہور ہوئے ’’ماہرین‘‘ اب اپنے کالموں اور مضامین کے ذریعے عمران خان صاحب کو یہ مشورے دے رہے ہیں کہ وہ اپنی جماعت سے وابستہ اراکین پارلیمان سے باقاعدگی سے ملاکریں۔ ان کی دلجوئی ہی عمران حکومت کے استحکام کو یقینی بناسکتی ہے۔ سیاست دان قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت کی بنیاد پر ہی پہلے ’’قائد ایوان‘‘ اور بعدازاں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ اراکین اسمبلی لہذا کسی وزیر اعظم کی حقیقی Baseہوا کرتے ہیں۔اس ’’کلے‘‘ کو ہمہ وقت مضبوط رکھنا چاہیے۔ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ میں ذاتی طورپر15سے زیادہ برس خود بھی اسی گماں میں مبتلا رہا۔ کرونا کے دنوں میں گھر میں محصور ہوجانے کے بعد اگرچہ ’’غم جہاں کاحساب‘‘ کرنا شروع ہوگیا ہوں۔سیاسی امور پر میری رپورٹنگ کا اصل آغاز 1985ء میں ہوا تھا۔اس برس ہوئے غیر جماعتی انتخابات کے لئے چلائی مہم کو میں نے عام بسوں میں دھکے کھاتے ہوئے ملک کے کئی شہروں اور قصبات میں جاکر دیکھا۔قومی اسمبلی قائم ہوگئی تو اس کے پہلے اجلاس کے روز سے انگریزی میں View from the Galleryوالا کالم لکھنا شروع کیا۔یہ عادت ان دنوں بھی برقرار رکھی ہوئی ہے۔

1985ء سے 2018ء تک کے انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی ہر اسمبلی کی کارروائی کو میں نے روزانہ کی بنیاد پر دیکھا ہے۔میرے تجربے کے مطابق قومی اسمبلی کے اراکین کو سب سے زیادہ عزت اور وقت مرحوم محمد خان جونیجو نے دیا۔ انہیں جنرل ضیاء نے وزیر اعظم کے عہدے پر ’’نامزد‘‘ کیا تھا۔ 1985ء سے 1988ء تک قائم رہی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کو جونیجو صاحب نے نہایت خلوص سے ’’مقتدر اور باوقار‘‘ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بالآخر اتنے ’’خودمختار‘‘ ہوگئے کہ جنرل ضیاء نے اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم کو مئی 1988میں اس وقت کی قومی اسمبلی سمیت فارغ کردیا۔

جو نیجو مرحوم کے بعد پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی صاحب نے قومی اسمبلی کو سب سے زیادہ وقت دیا۔ وہ حکمران جماعت ہی نہیں اپوزیشن سے وابستہ اراکین کو بھی گفتگو کے لئے میسر ہوا کرتے تھے۔ اپوزیشن کے چند اراکین نے حکمران جماعت کے کئی لوگوں کے مقابلے میں اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کے لئے ان سے گرانقدر Fundsبھی حاصل کئے۔ اراکین اسمبلی کی پُرخلوص اور ہمہ وقت دلجوئی مگر جونیجو مرحوم کے کام نہیں آئی۔یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے بھی وہ کارآمد ثابت نہ ہوئی۔ان دونوں کا مقدر ہوئی ’’فراغت‘‘بنیادی پیغام بلکہ یہ دیتی ہے کہ وطنِ عزیز میں قومی اسمبلی کسی وزیر اعظم کے لئے انگریزی زبان والی Make or Breakنہیں ہوتی۔ اس منصب کے مقدر کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔عمران خان صاحب سادہ اور بھولے نظر آتے ہیں مگر پنجابی محاورے والے ’’اتنے بھی بھولے ‘‘ نہیں۔وہ اس حقیقت کو جبلی طورپر دریافت کرچکے ہیں۔اسی باعث اگست 2014ء میں اسلام آباد میں دئیے دھرنے کے دوران ’’ایمپائر کی اُنگلی‘‘ کھڑی ہونے کا انتظار کرتے رہے۔مطلوبہ ’’ایمپائر‘‘ بالآخر انہیں ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کی صورت 2016ء میں نصیب ہوگئے۔ تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت موصوف کے کام نہیں آئی۔نواز شریف بلکہ اس ایوان میں بیٹھنے کے ’’نااہل‘‘ بھی جونیجو،گیلانی اور نواز شریف کے انجام نے عمران خان صاحب کو ہماری سیاست کے ’’کلیدی عناصر‘‘ سمجھادئیے ہیں۔انہیں ’’دریافت‘‘ کرنے کے لئے دور حاضر کے دیدہ ور کو مجھ جیسے قلم گھسیٹ ’’تبصرہ‘‘ نگاروں کی ’’فراست‘‘ سے رجوع کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔