پاکستان

’مریض کو قرنطینہ منتقل کروانا دشمنی مول لینے سے کم نہیں‘

Share

پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح اس کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ بھی کورونا کی وبا سے متاثر ہوا ہے اور اب تک یہاں 50 سے زیادہ افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی آبادی کا بڑا حصہ سطح سمندر سے پانچ ہزار سے دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع دور دراز پہاڑی علاقوں میں رہتا ہے اور ان دشوارگزار علاقوں میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے بارے میں عوام کو معلومات کی فراہمی آسان کام نہیں۔

اس کام کے لیے اب ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مدد لی جا رہی ہے جو ان علاقوں میں زچہ و بچہ کی صحت کے بارے میں معلومات کی فراہمی کا کام کرتی رہی ہیں لیکن لوگوں کو اس وبا کی سنگینی کا احساس دلوانا ان طبی کارکنوں کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر صحت ڈاکٹر نجیب نقی کے مطابق اس خطے کی چالیس لاکھ آبادی کے لیے 30 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز تعینات ہیں۔

کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں دور دراز علاقوں میں فرنٹ لائن پر اہم کردار ادا کرنے والی ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پیشہ ورانہ، سماجی اور ذاتی زندگی کے اعتبار سے کن مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے اس خطے کے مختلف دیہات میں کام کرنی والی لیڈی ہیلتھ ورکرز سے بات چیت کی۔

’سخت جملوں کا سامنا کرنا اب روز کی بات ہے‘

دارالحکومت مظفرآباد کے نواح میں کوہ گنجا کے دامن میں واقع گاؤں مچھیارہ اور چھکڑیاں میں کام کرنے والی روبینہ یوسف کا کہنا ہے کہ دیہات میں مرد ہوں یا خواتین دونوں ہی کورونا کی وبا کے خطرے کے بارے میں لاپرواہی کرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی تو حکومت کی جانب سے بتائی گئی حفاظتی تدابیر کو بھی نظرانداز کر رہے ہیں۔

’مریض کو قرنطینہ منتقل کروانا دشمنی مول لینے سے کم نہیں‘

انھوں نے بتایا کہ مثال کے طور پر جب خواتین کو ہاتھ دھونے کے طریقے کے بارے میں بتایا جائے تو وہ ناراض ہو جاتی ہیں۔

روبینہ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے دیہاتی خواتین کو ہاتھ دھونے کا درست طریقہ سکھانے کے لیے یہ عمل ان کے سامنے عمل دہرایا تو ایک بزرگ خاتون نے یہ کہہ کر ان پر برس پڑیں کہ ’عمر کے اس حصے میں جب ہم بوڑھے ہو چکے ہیں کیا ہمیں ہاتھ دھونے نہیں آتے۔ تم لوگ یہ عمل کر کے ہمیں کیا باور کروا رہی ہو کہ ہم کوئی جاہل مخلوق ہیں جنھیں ہاتھ دھونے کا سلیقہ نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے ایک تھکا دینے والے سفر کے بعد ان دیہات میں پہنچنے کے بعد لوگوں کے سخت جملوں کا سامنا کرنا اب روز کی بات ہے‘۔

روبینہ کے مطابق ’دیہات کے سادہ مزاج لوگوں کی بڑی تعداد اس وبا کے آغاز سے ہی اسے ایک عالمی پروپیگنڈا سمجھ بیٹھی ہے اور اس صورتحال میں لوگوں کو آگاہی دینا مشکل کام رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان یا ریاست کے دیگر علاقوں سے گھر واپس آنے والوں کو جب ہم نے بتایا کہ آپ 14 دن کے لیے اپنے گھر میں خود کو ایک کمرے میں اکیلا رکھیں تو ایسے افراد جواب دیتے کہ ہم اپنے گھر آئے ہیں، آپ کون ہوتی ہیں ہمیں بتانے والی کہ ہم نے گھر میں کیسے رہنا ہے‘۔

لیڈی ہیلتھ ورکر کشمیر میں
پہاڑی دیہات میں بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کی نشاندہی اور ان کا ڈیٹا جمع کرنے کا کام بھی انھی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دیا گیا ہے

سماجی دوری اختیار کروانا آسان نہیں

وادی شوگراں اور وادی کوٹلہ کی سرحد پر واقع 12 ہزار فٹ بلند کوہ مکڑا کے دامن میں واقع گاؤں بھیڑی سے تعلق رکھنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز عائشہ بشیر اور پروین یوسف کا کہنا ہے کہ علاقے میں فصل کی بوائی کا موسم ہے اور اس موقع پر لوگوں کو سماجی دوری اختیار کرنے کا مشورہ دینا اور اس پر عمل درآمد کروانا آسان نہیں۔

پروین یوسف نے بتایا ’یہاں آج کل کھیتی باڑی کا سیزن ہے۔ یہ کھیتی باڑی دیہاتیوں کا سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم بھی ہے جہاں لوگ آپس میں افرادی قوت سمیت جانوروں کا بھی تبادلہ کرتے ہیں اور اس موقع پر کھیتوں میں مجمع لگا رہتا ہے‘۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مطابق جب وہ کھیتوں میں کام کرنے والے افراد کو فاصلہ رکھنے، سینیٹائزر استعمال کرنے اور جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے معلومات دیتی ہیں تو وہ ان کی باتوں کو ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔

لیڈی ہیلتھ ورکر کشمیر میں
کورونا وائرس کی وبا کے بعد دنیا بھر سے 27 ہزار افراد برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر آئے ہیں

عائشہ نے بتایا کہ ایسی ہی ایک کوشش کے دوران موقع پر موجود ایک بزرگ نے یہ کہہ کر آگاہی سیشن کو برخاست کروا دیا کہ ’آپ خواتین ٹھیک کہتی ہوں گی مگر ایسی وبا پہلی بار نہیں آئی۔ ہم اس سے پہلے بہت کچھ دیکھ چکے ہیں، اس وقت کچھ نہیں ہوا اب بھی اللہ کچھ نہیں کرے گا۔‘

’بیرونِ ملک سے آنے والے ہمیں دیکھ کر چھپ جاتے ہیں`

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے بعد دنیا بھر سے 27 ہزار افراد برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک سے اس خطے میں آئے ہیں۔

پہاڑی دیہات میں بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کی نشاندہی اور ان کا ڈیٹا جمع کرنے کا کام بھی انھی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دیا گیا ہے۔

چھکڑیاں گاؤں میں ہی 20 برس سے کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکر سکینہ بی بی کا کہنا تھا ’ایسے افراد کا ڈیٹا جمع کر کے محکمہ صحت کے کنٹرول روم روانہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں جب ہم ان افراد کے گھر جاتے ہیں جو بیرون ملک سے آئے ہیں تو پہلے وہ ہمیں دیکھ کر چھپ جاتے ہیں۔ اصرار کرنے پر جب ملاقات ہو تو وہ یہ بات ظاہر نہیں کرتے کہ ہم بیرون ملک سے سفر کر کے آئے ہیں مگر مقامی ہونے کے ناطے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کون کب واپس آیا ہے۔‘

سکینہ کے مطابق ’بیرون ملک سے آنے والے ایسے افراد جن میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی کچھ علامات ہوں، انھیں قرنطینہ سینٹر منتقل کروانا بھی ان کی دشمنی مول لینی سے کم نہیں۔ ایسے افراد اور ان کے خاندان والے ہماری ذاتی زندگی اور پیشہ وارانہ کام کے خلاف بےبنیاد اور جھوٹی کہانیاں لوگوں میں پھیلانے لگے ہیں۔`

لیڈی ہیلتھ ورکر کشمیر میں
دشوارگزار علاقوں میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے بارے میں عوام کو معلومات کی فراہمی آسان کام نہیں

بھیڑی سے تعلق رکھنے والی ہیلتھ ورکر عائشہ شیخ کے مطابق ان کے علاقے کے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’ہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کسی بین الاقوامی این جی او یا حکومت کے وہ ایجنٹ ہیں جو لوگوں کو قرنطینہ سنٹر بھجنے کے عوض پیسے حاصل کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ تاثر اب عام ہے کہ مشتبہ افراد کو قرنطینہ سنٹر بھیجنے کے عوض ہمیں پیسے ملتے ہیں۔‘

عائشہ شیخ کے مطابق ’علاقے کی 80 فیصد آبادی کو شروع شروع میں کورونا وائرس کی موجودگی پر یقین ہی نہیں تھا اور وہ اسے کسی عالمی طاقت کی مسلمانوں کے خلاف سازش سمجھتے تھے۔ اب کچھ سوچ میں تبدیلی آئی ہے مگر اب بھی بہت سے لوگ ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق لوگ ان کی کوششوں کو منفی انداز سے دیکھتے ہیں اور ان کا ردعمل بھی منفی ہوتا ہے۔

’ایک نوجوان لاک ڈاؤن کے بعد کراچی سے بھیڑی آیا تو بخار، زکام اور کھانسی میں مبتلا تھا۔ ہم نے اسے اور اس کے خاندان کو بمشکل اس بات پر راضی کیا کہ وہ نوجوان کو قرنطینہ سنٹر منتقل کریں مگر جونہی انتظامات مکمل پوئے تو اس نوجوان نے جانے سے انکار کر دیا۔ بہت مشکل سے اسے قرنطینہ سنٹر منتقل کیا گیا جہاں اس کا رزلٹ نیگیٹو آیا۔

لیڈی ہیلتھ ورکر کشمیر میں
کشمیری دیہات میں مرد ہوں یا خواتین دونوں ہی کورونا کی وبا کے خطرے کے بارے میں زیادہ پرواہ کرتے دکھائی دے رہے

’اب جہاں نوجوان میں کورونا وائرس کی تشخیص نہ ہونے پر ہماری ٹیم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ گاؤں وبا سے بچ گیا مگر اس نوجوان اور اس کے خاندان نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ہمارا سوشل بائیکاٹ ہی کر دیا۔‘

’دو ماہ سے گھریلو زندگی متاثر ہے‘

کورونا کے خلاف جنگ میں سرگرم ان ہیلتھ ورکرز کی گھریلو زندگی بھی اس کام کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔

روبینہ نے بتایا ہے کہ اب وہ صبح کی نکلی رات تک ہی گھر واپس آ پاتی ہیں۔ ’دو ماہ سے گھریلو زندگی سخت متاثر ہے۔ میرا ایک بیٹا دو برس کا ہے جسے ان دونوں میں بالکل وقت نہیں دے پاتی مگر اس وبا کے خلاف جنگ میں میرے گھر والوں نے میرا جتنا ساتھ دیا میں بیان نہیں کر سکتی کہ ان کی مدد کے بغیر یہ ممکن بھی نہیں تھا۔‘

سکینہ بی بی بھی تین بچوں کی ماں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دو ماہ سے بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو امور متاثر ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے بچے بھی ان سے ناراض ہیں مگر ان کا کہنا ہے یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا ’بس اللہ کرے یہ وبا دنیا سے ختم ہو جائے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیلتھ ورکرز مشکل حالات میں اپنا فرض نبھا رہی ہیں لیکن انھیں اپنے تحفظ کے لیے سامان فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

’ہم بیرون ملک اور اندرون ملک سے آنے والے افراد سے براہ راست ملاقات کر رہے ہیں۔ اب ہمیں یہ تو نہیں معلوم کون وائرس سے متاثر ہوسکتا ہے۔ مناسب حفاظتی سامان نہ ہونے کی وجہ سے ہم سخت خطرے میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان دور دراز علاقوں میں کام کرنے والی لیڈی ورکرز کو بھی حفاظتی کٹس فراہم کرے۔‘