منتخب تحریریں

مسلم معاشرے اور سیکولرازم

Share

مشکل کی اس گھڑی میں کون ہے جو بھارت کے مظلوم مسلمانوں کا ہاتھ تھام سکتا ہے؟ ہر سمت سے ایک ہی آواز ہے: ”سیکولرازم‘‘۔
ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ سیکولرازم ‘لادینیت‘ ہے۔ مذہب کے خلاف اُٹھنے والا سب سے بڑا فتنہ۔ پھر وہ مسلمانوں کی مدد کو کیوں آئے گا؟ ان کی مذہبی شناخت کی حفاظت کیوں کرے گا؟ اب ان دو مقدمات میں سے ایک ہی درست ہو سکتا ہے: یا تو ہم نے سیکولرازم کو سمجھنے میں غلطی کی یا پھر تجزیے میں۔ یا تو سیکولرازم لادینیت نہیں ہے یا پھر یہ مسلمانوں کا نجات دہندہ نہیں۔ میرا احساس ہے کہ آج یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا فکری مخمصہ ہے۔ اس نے ایک فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور لبرل ازم اس کے نتائج ہیں۔
24 دسمبر کو ”نیو یارک ٹائمز‘‘ میں ایک ترک دانشور مصطفیٰ اخول کا ایک بہت اہم مضمون شائع ہوا ”اسلام میں جدید سیکولرازم کا ظہور‘‘ (A New Secularism is Appearing in Islam) ۔ یہ مضمون عالم اسلام میں آنے والی بعض اہم تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مصطفیٰ نے گزشتہ سالوں میں بہت اہم تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کی کتاب ‘اسلام کا مسیحؑ‘ (The Islamic Jesus) بین المذاہب ہم آہنگی کے باب میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ یہودی مسیحی (Jewish Christians)، یعنی وہ یہود جو حضرت مسیحؑ پر ایمان لائے، وہ انہیں اللہ کا پیغمبر اور مسیحا مانتے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں ان کے عقائد وہی تھے جو قرآن مجید نے چھٹی صدی عیسوی میں بیان کیے۔ یوں اخول نے ابراہیمی ادیان میں فکری ربط، یہودی و مسیحی علمی تاریخ کے ابتدائی ماخذات سے ثابت کیا ہے۔
مصطفیٰ نے پرنسٹن اور میشیگان یونیورسٹی کے ایک مشترکہ ریسرچ پروجیکٹ ‘عرب بیرومیٹر‘ کے ایک سروے کا ذکر کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب دنیا میں مذہب بیزاری روز افزوں ہے۔ بہت سرعت کے ساتھ تو نہیں لیکن لوگوں میں مذہب سے دوری بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں چھ عرب ممالک میں مذہب بیزار افراد کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ 2018ء میں یہ تیرہ فیصد ہو چکی۔
اس کے بالعموم دو اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک ‘سیاسی اسلام‘ (Islamism) اور دوسرا‘ سماجی اور ثقافتی معاملات میں مذہب کی غیر ضروری مداخلت۔ مصر میں اسلام ازم یا پولیٹیکل اسلام کے علم برداروں، عراق‘ ایران اور لبنان کے فرقہ پرستوں اور سوڈان میں اسلام پسندوں کے اقتدار نے، مذہب بیزاری پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ ایک صدی میں، یہ مسلم دنیا میں مذہب بیزاری کی دوسری بڑی لہر ہے۔ مصطفیٰ کا تجزیہ ہے کہ بیسویں صدی میں یہ لہر بالائی سے نچلے طبقے کی طرف آئی۔ مصطفیٰ کمال اور رضا شاہ جیسے حکمرانوں نے ریاست کی قوت سے بزور معاشرتی رجحانات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش چونکہ مصنوعی تھی، اس لیے ناکام ثابت ہوئی اور مذہب نے پوری قوت کے ساتھ دوبارہ ظہور کیا۔ اس بار ایسا نہیں ہے۔ اب یہ نیچے سے اُٹھنے والی لہر ہے۔ معاشرتی سطح پر عوام کا اسلام کی اُن تعبیرات اور مذہبی لوگوں کے رویوں سے براہِ راست پالا پڑا تو ان میں ایک ردِ عمل پیدا ہوا۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مصطفیٰ نے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا اسلام بھی سیکولر ازم کے باب میں اس راستے پر چل نکلا ہے جس پر مسیحیت کے نقوشِ پا ہیں؟ عالمِ مسیحیت میں، یہ معلوم ہے کہ مذہب کے خلاف ردِ عمل، اہلِ مذہب کے رویے سے پیدا ہوا تھا۔
میں گزشتہ کئی سالوں سے سیکولرازم کے قدموں کی چاپ سن رہا تھا اور اپنے کالموں میں تواتر سے اس جانب متوجہ بھی کرتا رہا ہوں۔ میرا اصرار رہا ہے کہ اگر ہم نے مذہب، ریاست اور سماج کے باہمی تعلق کو درست طور پر نہ سمجھا تو مسلم معاشروں کا انجام بھی مسیحی معاشروں سے مختلف نہیں ہو گا۔ اس چاپ کو بالعموم نظر انداز کیا گیا۔ اکثر نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ جنہیں کسی حد تک ادراک ہوا، انہوں نے ردِ عمل کی نفسیات میں سوچا۔ اہلِ مذہب نے انتہا پسندی سے جواب دیا اور مذہب بیزار طبقے نے لبرل ازم سے۔ ایک نے مذہب کی بنیادی تعلیم اور دوسرے نے معاشرے کی بنیادی ساخت کو نظر انداز کیا۔
آج پاکستان یا دنیا بھر میں جب مذہبی نوعیت کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو معاشرہ دو طبقات میں بٹ جاتا ہے۔ کہیں سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ نہیں ہوتا۔ مذہب کی حقیقی تعلیمات نظر انداز ہوتی ہیں اور ساتھ ہی معاشرتی مطالبات بھی۔ یوں لوگ چاہتے ہیں کہ وہ مذہب اور معاشرے، دونوں کو اپنی خواہشات اور نظریات کا اسیر بنائیں۔ کوئی مذہب کی لٹھ اٹھا لیتا ہے اور کوئی لبر ل ازم کی۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارت کا شہریت بل ہے۔ اگر ہم گروہی نفسیات سے نکل کر اس کا تجزیہ کرتے تو شاید مذہب اور سیکولرازم، دونوں معاملات میں ہمیں اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنا پڑتی۔
یہ مذہب ہو یا کوئی دوسرا نظریہ، معاشرتی فضا سے بیگانہ ہو کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ مثال کے طور پر برِ صغیر میں عرب معاشرت سے متاثر اسلام کی تعبیر رائج نہیں ہو سکتی۔ یہاں کی فضا کسی صوفیانہ تعبیر ہی کے لیے سازگار ہے۔ ہمارے ہاں ‘وہابی اسلام‘ اور ‘سنی اسلام‘ کی کشمکش کا تعلق اس سماجی فضا کو نہ سمجھنے سے ہے۔ یہی معاملہ سیکولرازم کا بھی ہے۔ سیکولرازم، ہمارے ہاں لبرل ازم سے ماخوذ نہیں ہو سکتا۔ یہاں وہی سیکولرازم اپنی جگہ بنائے گا جو معاشرتی ساخت سے ہم آہنگ ہو گا، جو مذہبی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صوفی کے سیکولرازم کے لیے قبولیت موجود ہے، لبرل طبقے کے سیکولرازم کے لیے نہیں۔ بات دونوں سیکولرازم ہی کی کر رہے ہیں۔ صوفی چونکہ اصلاً ماہر نفسیات ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنے سیکولر افکار کو مذہب کے پیراڈائم میں پیش کرتا ہے، جس سے وہ ردِ عمل پیدا نہیں ہوتا جو لبرل طبقے کے بارے میں پایا جاتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ سیکولرازم اور مذہب کا باہمی تعلق، ہمارے لیے ایک لاینحل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگر سیکولرازم بھارت کے مسلمانوں کا نجات دہندہ ہے تو پاکستان کے مسلمانوں کے لیے زہرِ قاتل کیوں ہے؟ اگر وہ بھارت میں مسلم شناخت کو تحفظ دے رہا ہے تو پاکستان میں اس شناخت کے لیے خطرہ کیوں ہے؟
اس کا ایک عمومی جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ جب اجتماعی امور میں انہیں حاکم بنایا جائے تو انہیں چاہیے کہ خدا اور رسولؐ کے احکام کے تحت فیصلہ کریں۔ اس لیے اگر اقتدار مسلمانوںکے پاس ہو گا تو یہ مذہب کا مطالبہ ہے کہ وہ مذہب کی اجتماعی تعلیمات کو نافذ کریں۔ اس مقدمے کو مان لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک قومی ریاست جس ریاستی ڈھانچے کو اختیار کرتی ہے، اس میں ریاست کے شہریوں کے مابین کسی امتیاز کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ دورِ جدید کی مسلم ریاستیں دراصل قومی ریاستیں ہیں۔ اب قومی ریاست اور اسلامی ریاست، جیسے سیاسی اسلام اسے پیش کرتا ہے، کے تصورات میں تطبیق کیسے ممکن ہے؟
میرے نزدیک اصل سوال یہی ہے، جسے موضوع بننا چاہیے۔ اس کے لیے مذہب کی سیاسی تعبیر اور لبرل ازم کی کوکھ سے جنم لینے والے سیکولرازم، دونوں کو مسلم معاشرت سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اپنے جوہر میں علمی اور فکری ہے۔ اگر ہم اس ضرورت کو پورا کر دیں تو شاید اس مخمصے سے نکل آئیں، جس نے موجودہ فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔
رہا سماج تو اس کا بہاؤ کسی فکری یا ریاستی جبر سے طے نہیں ہوتا۔ ہم میں سے جو بھی اس بہاؤ کا رخ موڑنا چاہتا ہے، اس کے لیے اصل میدان یہ ہے کہ وہ لوگوں کے خیالات اور طرزِ حیات کو متاثر کرنے کی کوشش کرے۔ جبر سے اگر مسلم معاشروں کو ایک خاص حد سے زیادہ سیکولر بنایا جا سکتا تو ترکی اتاترک کے خیالات سے انحراف نہ کرتا۔ اسی طرح جبر سے اسے مذہبی انتہا پسند بنایا جا سکتا تو آج پاکستان میں طالبان کی حکومت ہوتی۔