پاکستان

مشرف کیس پر سپریم کورٹ کی وضاحت: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے منسوب ذرائع ابلاغ میں چلنے والی خبروں کی تردید

Share

پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مقدمے کے بارے میں چیف جسٹس سے منسوب ذرائع ابلاغ پر چلنے والی خبروں کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان خبروں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ جیسے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سابق فوجی صدر کے مقدمے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔

سپریم کورٹ کے ترجمان کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں 17 دسمبر کو چیف جسٹس کی سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن سے غیر رسمی ملاقات کے بارے میں نشر ہونے والی خبر کا حوالہ دیا گیا ہے۔

پرویز مشرف
سابق پاکستانی صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں موت کی سزا سنائی گئی ہے

’بے بنیاد خبریں‘ جن کا سپریم کورٹ کی پریس ریلیز میں ذکر ہے

سپریم کورٹ کے ترجمان شاہد حسین کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلوں سے کچھ ’گمراہ کن‘ خبریں نشر کی گئی ہیں۔ پریس ریلیز میں مندرجہ ذیل خبروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے:

٭پرویز مشرف کا کیس بڑا واضح کیس تھا: چیف جسٹس ذرائع

٭مشرف کو متعدد مواقع فراہم کیے گئے: چیف جسٹس ذرائع

٭یہ لوگ معاملہ کو طول دینا چاہتے تھے:چیف جسٹس ذرائع

٭ہم اگر جلدی نہ کرتے تو معاملہ کئی سال تک چلتا رہتا:چیف جسٹس ذرائع

تاخیری حربوں کے باوجود معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا: چیف جسٹس ذرائع

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے مختلف بینچ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے کیس کے مختلف پہلوؤں کی سماعت کرتے رہے ہیں۔ پریس ریلیز میں پرویز مشرف کے کیس سننے والے دو بینچوں کا ذکر بھی ہے جن کی سربراہی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کی تھی لیکن ان کے ساتھ بینچ کے دیگر دو ارکان ہر بار مختلف تھے۔

ان میں سے ایک درخواست (عبدالحمید ڈوگر بنام وفاقی حکومت) پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ پرویز مشرف کا مقدمہ سننے والی خصوصی عدالت اس مقدمے کو غیر ضروری تاخیر کے بغیر سنے۔

پریس ریلیز میں سپریم کورٹ کے ایک اور بینچ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یکم اپریل سنہ 2019 کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام پرویز مشرف کی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ملزم پرویز مشرف خصوصی عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو اس صورت میں وہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے اہل تصور ہوں گے اور اس کے علاوہ اُنھیں قانون کے مطابق اپنے دفاع کے لیے دیگر حقوق بھی حاصل ہوں گے۔

سپریم کورٹ

اس فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ اگر ملزم پرویز مشرف جنھیں اشتہاری قرار دیا گیا ہے اگلی سماعت پر عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت آئین کے آرٹیکل چھ کے سیکشن نو کے تحت ملزم کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔

سپریم کورٹ کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی طرف سے مذکورہ بینچوں کے عدالتی فیصلوں کے علاوہ خصوصی عدالت کو کسی قسم کی کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی۔ پریس ریلیز کے مطابق یہ دونوں فیصلے ملک کی لا رپورٹس میں شائع ہو چکے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ جو خبریں نشر ہوئیں وہ ’بے بنیاد، من گھڑت، جھوٹی، حقائق سے منافی اور سیاق و سباق سے ہٹ کر تھیں‘۔