پاکستان

ملزمان کی ضمانت کی مخالفت پر نیب کے پراسیکیوٹر جنرل طلب

Share

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو(نیب) کے پراسیکیوٹر جنرل کو طلب کرلیا۔

انہیں اس لیے طلب کیا کہ اسسپیشل پراسیکیوٹر عدالت کو اس بات قائل کرنے میں ناکام رہے تھے کہ جیلوں اور دیگر حراستی مراکز میں کورونا وائرس پھیلنے کے شدید خطرے کے باوجود نیب جعلی بینک اکاؤنٹ کیس اور مضاربہ کیس کے ملزمان کی حراست کو جاری رکھنے پر کیوں بضد ہے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے حسین لوائی، طٰحہ رضا اور ڈاکٹر ڈنشا ہوشنگ انکل سریا سمیت دیگر ملزمان اور مضرابہ فراڈ کیس کی ملزمان کی جانب سے دائر 27 درخواستوں پر سماعت کی۔

اس سے قبل ہونے والی سماعت، نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر بلال احمد ملک کی اس درخواست پر ملتوی کردی گئی تھی کہ وہ ان کیسز کی معلومات سے آگاہ نہیں جس میں انڈر ٹرائل قیدیوں سے ضمانت کی اپیل کی ہے اس لیے سماعت ملتوی کی جائے۔

چنانچہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں نیب پراسیکیوٹر بلال ملک اور وقاص ملک عدالت میں پیش ہوئے، وقاص ملک مکمل یونیفارم نہیں پہنے ہوئے تھے جبکہ بلال ملک نے ماسک نہیں لگایا ہوا تھا، عدالت نے دونوں پراسیکیوٹرز کے اس رویے پر برہمی کا اظہار کیا۔

جب عدالت نے دریافت کیا کہ نیب کیوں انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت کررہا ہے تو نیب پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ عدالت جیل حکام کو تمام قیدیوں کی اسکریننگ کا حکم دے سکتی ہے۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’نیب اپنا دفتر اڈیالہ جیل میں کیوں منتقل نہیں کرلیتا‘؟

جسٹس اطہر من اللہ نے پراسیکیوٹرز سے استفسار کیا کہ نیب معمر قیدیوں کی رہائی سے کیوں گریزاں جبکہ وہ راولپنڈی کی اڈیالہ سینٹرل جیل میں قید ہیں جہاں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی وجہ سے ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

جیل سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے عدالت میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اڈیالہ جیل میں اس وقت 5 ہزار قیدی موجود ہیں جبکہ قانونی طور پر جیل حکام کو 2 ہزار 174 قیدیوں کی گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔

جس پر عدالت نے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل سید اصغر حیدر کو جمعرات کے روز (آج) عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے باعث پیش آنے والی صورتحال کے پیشِ نظر انڈر ٹرائل، معمر، خواتین اور کم عمر قیدیوں کی جانب سے جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیرول پر رہائی کی درخواستیں دائر کی گئیں تھیں۔

ملک میں کووڈ۔19 کے کیس میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر معمولی صورتحال میں عدالت نے 700 سے زائد انڈرٹرائل ملزمان کی مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔