کالم

مکتوبِ شہیدبے نظیر بھُٹو بنام راجہ پرویز اشرف(غازی)

Share

عظیم جیالے راجہ صاحب

السّلام علیکم

امید ہے آپ بخیریت ہوں گے. سب سے پہلے توآپ کو دل کی گہرائیوں سے مُبارک باد کہ اگرچہ آپ تھوڑا عرصہ ہی سہی،مگر بطوروزیر اعظم اپنی طے شدہ مُدّت پوری کرکے، خوش قسمتی سے کسی بکتر بند نما گاڑی میں نا معلوم مدت کے لئے مجہول منزل کی بجائے، گارڈ آف آنر کے ساتھ نہ صرف اپنے گھر کو پدھار گئے، بلکہ فوری طور پر ایک دفعہ پھرقومی خدمت کے جذبے سے سرشار اپنے سنہری دور کی واپسی کے لئے کمر ہمت باندھ ے ایک نئے عزم کے ساتھ الیکشن لڑنے سر بکف پھرتے نظر آتے ہیں.ویسے بادی النظر میں آپ اس کے حق دار بھی تھے کیونکہ ہماری رعایاالمعروف پاکستانی عوام کی جو خدمت آپ نے کی ہے اوراس کے لئے جو طریقہئ کاراختیار کیا ہے،وہ میرے اور نواز شریف جیسے منتخب دیسی وزراے اعظم توکیا معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے کسی امپورٹ اور ایکسپورٹ کوالٹی وزیراعظم کے حاشیہئ خیال تک میں بھی نہیں آسکتا تھا.مہنگائی ختم کرنے کاجو آؤٹ آف باکس حل آپ نے اپنی کمال ذہانت اور پراپرٹی لین دین کے طویل تجربے کے حسین امتزاج سے نکالا ہے، اس سے تو عالمِ ارواح تک میں آپ کی مینجمنٹ کی صلاحیت کی دھاک بیٹھ گئی ہے. بھلا کون عالی دماغ یہ سوچ سکتا تھا کہ بجلی، گیس کے بلوں میں عدم اضافہ اور ہوائی جہاز، ریل وغیرہ کے ٹکٹ یوں پل بھر میں ارزاں کر سکیں گے، جیسے آپ نے کر دیے، یہ نا شکری عوام آج نہیں تو کل ضرور آپ کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ضرورآپ کو خراجِ تحسین پیش کرے گی کہ بجلی، گیس کانا پید کر دینا اورریل اور ہوائی جہاز وغیرہ کی عدم دستیابی کا، عوام کی حالت زار کے پیشِ نظر،عین ملکی مفاد میں،ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق اور بھر پور کوشش سے اہتمام کیا گیا ہے، ورنہ وافر پانی، کوئلے کے لا متناہی ذخائر، ہر طرف سیٹیاں بجاتی ریل گاڑیاں اور اُڑانیں بھرتے جہازوں کی موجودگی میں پانچ سال کے قلیل عرصے میں مداری کی طرح بس چھڑی گھما تے ہی غائب کر دینا کہاں ممکن تھا،یہ سب کُچھ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری کے مصداق نہ صرف آن واحد میں مہنگائی ختم کر نے کے عوامی ایجنڈے کے تحت ایک تیر بہدف نسخہ ہے،بلکہ اس سے ملک میں مُعاشی اورمُعاشرتی عدل و انصاف کا پرچم لہرا کر امیر و غریب کا فرق یوں مٹا دیا گیا ہے کہ اگراوّل الذکر یہ عیاشی افورڈ نہیں کر سکتا تو ثانی الذکر بھی کیوں موج اڑاتا پھرے. وہ سردار جی بھی کیا سادہ تھا جو اس بات پر لوگوں سے داد طلب تھاکہ محکمہ ریلوے کو کیسے بے وقوف بنایا ہے؟ ٹکٹ لے لی ہے پر سفر کوئی نہیں کرنا، بھلا یہ بھی کوئی کارنامہ ہوا، پبلک کے اربوں روپے اپنی اور اقربا کی جیبوں میں ڈلوانا،رینٹل پاور سٹیشن لگوا کے ایک میگاواٹ بھی بجلی پیدا نہ کروانا اور اس پر بہت ہی دیدہ دلیری سے مُخالف سیاسی جماعت پر الزام تراشی کے اشتہار چھپوانا، عصرِ حاضر کی کرامات نہیں تو اور کیا ہیں، میں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ، اپنے والد قائد عوام کے زیرِ سایہ سالہا سال کا عملی سیاسی تجربہ رکھنے والی مقبول وزیراعظم ہونے کے باوجود اس مقام و مرتبے کی گرد تک کو نہ پہنچ سکی اور مخالفین کے ان الزامات کے شافی جواب دینے سے قاصر رہی کہ آئی پی پیز میں حکومت وقت نے کمیشن بٹورا ہے، آفرین کہ آپ نے نہ صرف یہ کہ مجھ پربے جا الزام تراشی کا بدلہ لے لیا ہے بلکہ مستقبل کے لئے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ اب کوئی ایرا غیرا ایسے کارناموں پر لب کھولنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا.
آپ کے کمالات کی ایک دفعہ پھر داد دیتی ہوں کہ آپ نے نہ صرف عوام بلکہ منجھے ہوئے اورتجربہ کار مخالف سیاستدانوں تک کو معاملے کے اس پہلو کی طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیا کہ پاکستان میں آج بجلی کی ضرورت تقریباً اٹھارہ ہزار میگا واٹ روزانہ ہے، جب کہ اس کی پروڈکشن کی گنجائش بائیس ہزار میگاواٹ تک ہے، گویا مسئلہ نئے بجلی گھروں کی تنصیب کا تو ہے ہی نہیں بلکہ بجلی کی پروڈکشن پر آنے والے اخراجات اور عوام سے چارج کئے جانے والے ٹیرف میں فرق کا ہے، یعنی در اصل ہمارے پہلے عوامی دور میں کئے گئے معاہدوں کے مطابق حکومت بہت مہنگے داموں غیر مُلکی آئی پی پیز سے بجلی خریدنے پر مجبور ہے، اور ادائیگی بھی ڈالروں میں کرنی ہے، جب کہ غریب عوام اتنا بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، اگرچہ کُچھ چالاک حاسد اس مسئلے کا کھُرا بھی ہمارے پہلی حکومت کے سنہری دور تک لے جا کے، آج بجلی کے جان لیوا بُحران کے ڈانڈے اُس سے ملاتے ہیں، اور وہی رٹ لگاتے ہیں کہ حکومت وقت نے اپنی جیبیں بھر کے پاکستانی عوام کی آئندہ نسلوں تک کو غیر ملکی بجلی گھروں کے گروی رکھ دیا ہے، مگر آپ کی اشتہاری مُہم اُن کی ایک نہیں چلنے دے رہی، زندہ باد راجہ صاحب اور آپ کی عوامی حکومت۔
کارلائل کے قول”آدمی اپنی اصلاح کر لے تو اس سے کم از کم دنیا میں ایک بد مُعاش کی کمی ہو سکتی ہے“، کو آپ نے کس عمدہ تناظر میں لیا ہے. عوامی غُربت مٹانے کی غرض سے اگر آپ نے یہ فارمولااپنایا کہ اپنے آپ کو امیر بنا لینے سے عالمی سطح پر نہیں تو کم از کم وطنِ عزیز میں ایک غریب کی کمی ہو سکتی ہے تو اس پر محض مخالفت برائے مخالفت سے حاسدین کو کیا حاصل ہو گا،اور اگرعوامی حکومت کی سرپرستی میں جناب توقیرصادق جیسے خاندانی اور کمٹڈ پارٹی کارکن کے جرات مندانہ انیشی ایٹو کو مدِ نظر رکھا جائے تومال و دولت میں آسمان کی بلندیوں تک کو چھوا جا سکتا ہے،بلکہ اس حوالے سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈمیں نام درج کر کے عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ غربت کے خاتمے کا اتنا سریع اور نتیجہ خیز پروگرام تو امریکہ جیسی سُپر طاقت بھی شروع نہیں کر سکتی.نواز شریف پاکستان کو ایٹمی قوّت تو بنا سکتا ہے مگرایسا ”غُربت مُکاؤ“ پروگرام لاگو کر کے تو دکھائے، عمران خان بھی ورلڈ کپ جیتنے پر بہت اتراتا پھرتا ہے، آپ اسے بھی چیلنج کر سکتے ہیں، بلکہ میرا خیال ہے بے خوف ہو کے دونوں کو للکار دیں، یقیناً فتح و نصرت آپ کے قدم چومے گی اور حاسدین منہ کی کھائیں گے.شہباز شریف بھی بس نعرے ہی لگواتا پھرے گا”چھو لو آسمان، چھو لو آسمان“.
اتنے سال خار زار ِ سیاست میں خوارہونے، جلا وطنی اور دربدر پھرنے، جیلیں کاٹنے حتیٰ کہ اسی راہ میں جان قربان کرنے کے باوجود آپ کے کارنامے دیکھتی ہوں تو خود کو طفلِ مکتب سمجھنے لگتی ہوں. آج کل گندم اور کپاس کے نرخوں کے حوالے سے کیا کمال منظق آپ نے متعارف کرائی ہے اور اشتہار بازی سے کیا خوب مخالفین کو نیچا دکھایا ہے، گندم کا نرخ چار سو روپے فی من سے ۱یک ہزار تک پہنچایا،بہت اچھا کیا، بطور سیاستدان اس کا کریڈٹ ضرور لیں،البتہ بارہ سو تو اس سال اپریل میں ہوا، یعنی آپ کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد، اس پر بھی آپ نے مخالفوں کوکٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے، پھر سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ گندم کے نرخ بڑھانے سے غریب عوام کی نا گزیر ترین ضرورت اور قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹوکے سہ نکاتی منشور ”روٹی، کپڑا اور مکان“ میں سے سب سے اہم یعنی ”روٹی“ اور آٹے کے نرخوں میں جو آسمان گیر اضافہ ہوا، اور خطِ غربت سے نیچے رہنے والے مظلوم لوگوں کو دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لئے جو پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں، اس کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں جانے دی، پھر کس کما ل ہوشیاری سے کسی کا دھیان تک بھی اس طرف نہیں جانے دیاکہ عوامی حکومت آنے سے پہلے،گندم بونے، اس کو بڑا کرکے فصل پکنے تک کے ضروری لوازمات یعنی یوریا اور ڈی اے پی کھاد، جراثیم کُش ادویات، فصلوں میں ہل چلانے اور اُن کو پانی دینے کے لئے ٹیوب ویل اور ٹریکٹر چلانے کی خاطر ڈیزل آپ کی حکومت سے پہلے بتیس روپے فی لٹر تھا، جب کہ یہ سنہری دور ختم ہونے پر ایک سو دو روپے لٹر تک جا پہنچا، ڈی اے پی کھاد آٹھ سو روپے بوری تھی، اب تین ہزار آٹھ سو روپے بوری اور یوریا، چھ سوسے اٹھارہ سو تک آن پہنچی ہے.اس شرح سے کھادوں، ڈیزل اور جراثیم کُش ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود کسان کو عملاً کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ نقصان ہی ہوا، البتہ آٹا خرید کر کھانے والی غریب عوام کے ساتھ جو ہوا وہ نا گفتنی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ ہماری پارٹی کے دعوے کے مُطابق، ان میں سے اکثریت ہے بھی پیپلز پارٹی کے حمایتیوں کی، آپ کی جرات کی بار بار داد دینی پڑتی ہے کہ آپ نے اپنی مخالف سیاسی پارٹی کو،سستی روٹی سکیم شروع کرنے اور ایک سال تک کامیابی سے چلانے پر مذمتی اشتہارات اور بیانات سے،بیک فُٹ پر لا کھڑا کیا ہے، حالانکہ انہوں نے غریبوں کی نجات کے لئے کوئی جامع پروگرام شروع کرنے کی کوشش تو کی، اور ایک سال تک اُسے چلایا بھی، مان لیا کہ سرکاری خزانے کو اس سے نقصان پہنچا، لیکن کتنا، زیادہ سے زیادہ توقیر صادق کے فنکارانہ ہاتھ دکھانے سے آدھے جتنا، جہاں ایک وقت کی روٹی عذابِ جاں ہو، وہاں ایک سال سستی روٹی مہیا کرنے پر یہ نقصان بھی گھاٹے کا سودا نہیں، اور پھر حکومتیں تو عوام کی مائی باپ ہوتی ہیں اور وہ ایسے رفاہی کاموں پر اٹھنے والے اخراجات کو خسارہ گردانتی ہی نہیں بلکہ اس پر فخر کرتی ہیں، مگر آفرین ہے آپ پر راجہ صاحب جو مخالفین کو آپ نے سنھبلنے کا موقعہ بھی دیا ہو. ڈیزل مہنگا ہونے سے غریب آدمی کے سفری اخراجات اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا جومزید بوجھ عوام پر آن پڑا وہ اس پر مستزاد ہے. لیکن وہ آپ کی اشتہاری میم کے جادو سے نکلیں گے تو کُچھ سوچیں گے، جب کہ اُس وقت تک الیکشن ہو اور آپ اپنے کرتب دکھا چکے ہوں گے.
سایئں یوسف رضا گیلانی اور اُن کی آل اولاد کا کیا حال ہے؟ ویسے وہ آپ سے بھی چار قدم آگے نکلے، چُھپے رستم کہیں کے۔ سوچتی ہوں اُن کو ایک علیحدہ خط لکھوں گی۔ زندہ ہے بُھٹو زندہ ہے.
والسّلام
بے نظیر شہید