فیچرز

’میرا بیٹا آن لائن گیمز کھیلتے ہوئے جوئے کی لت کا شکار بنا‘

Share

اکثر والدین ہر روز اپنے بچے کو آن لائن ویڈیو گیمز کھیلنے سے روکنے کی جدوجہد کرتے ہیں لیکن ایک ایسے والد جن کے لیے یہ ایک معمولی بات تھی، یہ ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گیا۔

یہاں سٹیو نے بی بی سی کے بیکی میلیگن کو بتایا کہ کیسے ان کا بیٹا ویڈیو گیمز کھیلتے کھیلتے جوئے کا عادی بن گیا۔

’میں نے لاکھوں سال میں بھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ گیمنگ زبردستی جوا کھلا سکتی ہے۔‘

سٹیو چرچ کے صحن میں ایک بینچ پر بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی جوئے کی لت کے بارے میں مجھ سے بات کرنے کے لیے رضامند ہیں۔ وہ گھبرائے ہوئے ہیں، انھوں نے اس سے پہلے انٹرویو نہیں دیا ہے اور میں ان کی بے چینی محسوس کر سکتا ہوں۔

ان کے بیٹے جن کی عمر 20 برس سے کچھ زیادہ ہے صحت یاب ہو رہے ہیں اور بہتر زندگی گزار رہے ہیں، انھوں نے بتایا ’لیکن ہم روز کی بنیاد پر زندگی جی رہے ہیں۔‘

’ہم نے تین برس انتہائی مشکل میں گزارے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی اس سب میں سے گزرے جس سے ہم گزرے ہیں۔ جب ہمیں پہلی مرتبہ پتا چلا کہ ہمارا بیٹا جوئے کی لت کا شکار ہے تو ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔‘

سٹیو بتاتے ہیں کہ ایک رات ان کے بیٹے نے پورے ہفتے کی کمائی چند منٹوں میں لٹا دی۔ پریشان ہو کر اس نے اپنے والدین سے مدد کی درخواست کی۔ انھوں نے وہی کیا جو کوئی بھی والدین کرتے: انھوں نے اپنے بیٹے کا قرض اتار دیا اس امید میں کہ یہ سب ختم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

میں نے سٹیو کو بتایا کہ میں نے ایسے بہت سے والدین سے بات کی ہے جن کے بچے جوئے کی لت کا شکار رہے ہیں، ان سب نے بھی اپنے بچوں کی لت کی حد جانے بغیر پہلے پہل ان کا قرض اتار دیا۔

ایک والد نے مجھے بتایا ’ہمیں لگا کہ یہ کوئی چھوٹا سا مسئلہ ہے، بچے ایسا کرتے ہیں۔‘ اور سٹیو نے بھی ایسا ہی کچھ سوچا۔

انھیں اور ان کی اہلیہ کو کچھ نہ کچھ اندازہ تھا کہ ان کا بیٹا شرط لگانے سے بہت لطف اندوز ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بہت سے دوست بھی ایسا کرتے تھے اور یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔

ایک برس بعد سٹیو کو یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ ان کا بیٹا دوسرے لوگوں کے پیسے کے ساتھ جوا کھیل رہا ہے اور بڑی رقم سے محروم ہو رہا ہے۔

انھوں نے مجھے بتایا ’یہ آن لائن گیم رولیٹ تھی۔ اور یہی اس کا زوال تھا۔‘

اب سٹیو کو اندازہ ہوا کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ انھیں اور ان کی اہلیہ کو اندازہ نہیں تھا کہ کیا کیا جائے۔ انھوں نے الگ تھلگ رہنا شروع کر دیا اور باہر جانے سے کترانے لگے۔ وہ اس بارے میں پریشان تھے کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہیں گے۔

سٹیو کہتے ہیں ’ہم بے بس تھے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کیا راستہ اختیار کیا جائے۔ ہم نے کئی ماہ جواب ڈھونڈنے اور ریسرچ کرنے میں گزار دیے۔‘

گزشتہ سال وہ گیم اینن (جوئے کی لت کے شکار افراد کے لیے کاؤنسلنگ سروس) میں مختلف خاندانوں کی میٹنگ میں شریک ہوئے۔ اس سال کے آغاز میں ان کے بیٹے کو بھی مدد ملنا شروع ہو گئی۔


سٹیو کو کئی ماہ اس پر تحقیق کرنا پڑی اور اب ان کا ماننا ہے کہ ان کے بیٹے میں اس لت کے آثار اس وقت سامنے آنے شروع ہو گئے تھے جب وہ 12 یا 13 برس کے تھے اور آن لائن ویڈیو گیمز خاص طور پر فٹبال کھیلنے کے لیے پاگل تھے۔

سٹیو نے مجھے بتایا ’وہ گھنٹوں اپنے کمرے میں بیٹھ کر کھیلتا رہتا اور اس کے تمام دوست بھی ایسا ہی کرتے تھے۔‘

گیمز میں استعمال ہونے والی نئی ٹیکنالوجی تو دور کی بات انھیں اس بات کی بھی سمجھ نہیں تھی کہ یہ گیمز کس متعلق ہیں۔ تاہم ان کا بیٹا ہر وقت ان گیمز میں گھرا رہتا تھا۔

آن لائن گیمنگ

’ہم سب کو ایک آسان اور پرسکون زندگی چاہیے۔ والدین سست ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ اوپر بیٹھا کھیل رہا ہے تو مجھے یہ سوچنا چاہیے کہ اس سے اسے کوئی نقصان تو نہیں پہنچ رہا۔‘

سٹیو اب سوچتے ہیں کہ فٹبال گیمز سے یہ عادات پروان چڑھی، جن میں گھنٹوں آن لائن وقت گزارنا، اور اس سے جوئے کی عادت بھی پڑی۔

سب سے اہم یہ کہ سٹیو کے بیٹے کی اضافی مصنوعات خریدنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی جیسے کہ ’الٹی میٹ ٹیم پیکس۔‘

ان پیکس میں کھلاڑیوں کی شناخت اس وقت ظاہر کی جاتی ہے جب آپ پیسے ادا کر چکے ہوں، سٹیو کہتے ہیں اس سے ہی ان کے بیٹے میں ’جوئے کی سنسنی‘ پیدا ہوئی، موقعے اور خطرے کی گیم، جس میں ایک سٹار کھلاڑی کا حصول بھی شامل ہوتا ہے جو گیم کھیلنے والے کو ناقابل شکست بنا دے گا۔

سٹیو کا خیال ہے کہ آن لائن گیمنگ اور جوئے میں فرق بہت باریک ہے اور ان کے بیٹے کی طرح جو بچے بہت زیادہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، میں جواری بننے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گیمز میں حقیقی رقم جیتنا اور ہارنا شامل ہو۔‘

ڈاکٹر ہینریٹا بوڈن جونز، جو برطانیہ کی صحت کی خدمات فراہم کرنے والے ایک تربیتی مرکز میں ماہر نفسیات ہیں، کہتی ہیں گیمنگ سے متعلقہ سرگرمیاں جو نوجوانوں کے لیے نقصان دہ ہیں اور جوئے میں ابھی تک کوئی تعلق سامنے نہیں آیا۔ فی الحال یہ ایک ’بڑی متنازعہ گفتگو‘ ہے۔

ڈاکٹر بوڈن جونز کہتی ہیں اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاہم جوا کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 11 سے 16 برس کے 55 ہزار بچے اس لت کا شکار ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’بچوں میں اس لت کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں، ہمیں اس سے متعلق زمینی حقائق جاننا ہوں گے، ہمیں جاننا ہو گا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں، اس کے بعد ہمیں پالیسی سازوں، سیاست دانوں اور عوامی صحت کے پیشہ ور افراد سے اس بارے میں بات کر کے ماحول کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘


یہ چند سال سٹیو اور ان کے خاندان کے لیے بہت مشکل تھے۔ انھوں نے حال ہی میں اپنی ٹیچنگ کی ملازمت چھوڑ کر ’گیم فیم‘ نامی خیراتی ادارہ کھولنے کا ارادہ کیا ہے تاکہ ایسی ہی صورتحال سے دوچار دوسرے والدین کی مدد کی جا سکے۔

سٹیو کہتے ہیں چاہے یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو لیکن والدین کو علم ہونا چاہیے کہ ان کے بچے آن لائن کیا کر رہے ہیں، انھیں اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ماہر بننا پڑے گا۔

’ریسرچ کریں، رکاوٹیں ڈالیں، ڈیوائسز پر کنٹرول حاصل کریں، فیملی ٹائم متعین کریں۔ بچے کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ آپ جو ہو رہا ہے اس پر کنٹرول رکھ سکیں۔ اور سب سے اہم اپنے اکاؤنٹ کو اپنے کسی کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ سے منسلک نہ کریں۔‘

’ایسی بہت سی خوفناک کہانیاں موجود ہیں جن میں بچے گیمز میں خریداری کے لیے بڑی رقوم استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے گیمز خود کو فری گیمز ظاہر کرتے ہیں لیکن ایسا ہوتا نہیں۔‘

’الٹی میٹ ٹیم پیکس‘ کی طرح لوٹ بکس، جنھیں سٹیو کا بیٹا خریدا کرتا تھا، میں گیم جیتنے میں مددگار مختلف ہتھیار ہوتے ہیں، اور گیمر جب تک انھیں خرید کر کھول نہ لے اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اندر کیا ہے۔

لوٹ بکس

برطانیہ میں ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اور کھیلوں کی کمیٹی کے سیاست دانوں نے حال ہی میں سفارش پیش کی ہے کہ ’لوٹ بکس‘ کی فروخت کو باقاعدہ جوئے کی حیثیت دینی چاہیے اور بچوں کو ان کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کر دینی چاہیے۔

برطانیہ کی ایسوسی ایشن فار انٹرایکٹو انٹرٹینمنٹ (یوکی) کے بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں بھی سٹیو کی والدین کو اپنے بچوں کے آن لائن رویوں کی نگرانی کرنے کی رائے کی گونج سنائی دی۔

بیان کے مطابق ’کھیلوں کے لیے عمر کی عمدہ درجہ بندی کے علاوہ، تمام بڑے کنسولز اور موبائل آلات والدین کو سمارٹ اور سادہ کنٹرول کی سہولت مہیا کرتے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ہم تجویز کرتے ہیں کہ والدین اور بچوں کی نگہداشت کرنے والے ان گیمز کے کھلاڑیوں کے ساتھ براہ راست مشغول ہو جائیں، ان کے ساتھ گیمز کے بارے میں بات کریں اور یہاں تک کہ ان میں شامل ہو جائیں۔‘

ریموٹ گیمبلنگ ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو ویس ہیمز کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے آن لائن جوئے کے تصدیقی عمل سے گزرنا بہت مشکل تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس صنعت پر سکولوں کے نزدیک اپنے اشتہار دینے اور 25 برس سے کم عمر نوجوانوں کو اپنا ہدف بنانے پر پابندی تھی۔

برطانوی ریسرچ کمپنی آئی پوس موری کے سٹیو گینیس نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی کمپنی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق جوئے کی تشہیری آفرز اور نامور شخصیات کا انھیں استعمال کرنا اور اسے ایک تفریح کے طور پر پیش کرنے کی وجہ سے بچے اور نوجوان جوئے کے موجودہ اشتہارات کو پرکشش محسوس کرتے ہیں۔


’گیم کا حصہ‘

آئرلینڈ کے بک میکر ’پیڈی پاور‘ کے بانی نے جوئے کے مسئلے سے نمٹنے میں ناکامی پر سنہ 2016 میں استعفیٰ دے دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اشتہارات جوئے کو بچوں کے لیے ’معمول کی بات‘ بنا رہے ہیں اور فٹبال دیکھتے ہوئے یہ ’تقریباً گیم کا حصہ‘ بن چکا ہے۔‘

’یہ خطرناک ہے کیونکہ جانے مانے لوگ اس کو فروغ دیتے ہیں، میچ کے شروع ہونے سے پہلے، میچ کے درمیان اور میچ کے بعد اسے برابر فروغ دیا جاتا ہے اور بچوں کے لیے جوا اور فٹبال معمول کی بات بن گئے ہیں۔‘


سٹیو کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان اب بہتر ہے۔ ان کے بیٹے نے آخری شرط فروری میں لگائی تھی۔ جو بھی ہوا انھیں اب اس بارے میں شرم محسوس نہیں ہوتی لیکن اپنے بیٹے کی حفاظت کے لیے سٹیو اپنا مکمل نام نہیں ظاہر کرنا چاہتے۔

وہ امید کرتے ہیں کہ ان کا خیراتی ادارہ سکولوں کا دورہ کر کے والدین سے بات کرے گا۔

سٹیو کہتے ہیں بچوں میں جوئے کی لت کے مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر کچھ نہ کیا گیا تو یہ ایک تباہ کن وبا کی شکل اختیار کر لے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ وقت میں ان نوجوانوں کو صرف ان کے والدین کی مدد حاصل ہے۔

’میرے لیے، اگر میں نے ابھی ایسا نہ کیا تو میں کبھی ایسا نہیں کر پاؤں گا، میرا خیال ہے کہ یہ میرے دل کی آواز ہے، مجھے یہ کرنا ہے، مجھے یہ پیغام باہر لوگوں تک پھیلانا ہے اور والدین کا ساتھ دینا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بدترین دشمن کے ساتھ بھی ایسا ہو۔‘