منتخب تحریریںہفتہ بھر کی مقبول ترین

’’میں نے سبھی حسابِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا‘‘

Share

کیا یہ بلا ول کا اپنا آئیڈیا تھا؟یہ جس کا بھی آئیڈیا تھا‘ انگریز ی محاورے کے مطابق ملین ڈالر آئیڈیا تھا۔اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بنیادی طور پر مولانا فضل الرحمان کا برین چائلڈ تھا۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سے مولانا کی شکایات اور تحفظات کا ازالہ ہوا تو 20ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس کی میزبانی پیپلز پارٹی کے سپرد ہوئی۔پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر کی صلاحیتوں کا یہ ایک اور بڑا امتحان تھا۔ میزبان کے طور پر کانفرنس کی کامیابی کے لیے بلاول بھٹو نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ اس کا م میں انہیں اپنے ”انکلز‘‘ کی رہنمائی اور بھر پور تعاون بھی حاصل تھا۔ شیری رحمن بھی صبح شام ایک کئے ہوئے تھیں۔
جمعہ کی شام بلاول بھٹو کی ٹویٹ نے اس کانفرنس کو نئی Hype دے دی تھی۔بلاول کا کہنا تھا کہ انہوں نے لندن میں میاں نواز شریف سے رابطہ کر کے ان کی خیریت دریافت کرنے کے علاوہ انہیں آل پارٹیز کانفرنس میں آن لائن شرکت اور خطاب کی دعوت بھی دی اور میاں صاحب نے اسے قبول کر لیا ۔تھوڑی دیر بعد مریم نواز کا ٹویٹ بھی آگیا: شکریہ بلاول! اور اس کے ساتھ نیک خواہشات اور دعائیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے لیے بھی یہ ”خبر‘‘ تھی۔ میڈیا سے ان کا کہنا تھا‘ کانفرنس میں میاں صاحب کی شرکت کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔
آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کی ”شرکت‘‘ کا اعلان حکومت اور پی ٹی آئی کے اعصاب کے لیے ایک سنگین آزمائش بن گیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز‘ وزیر اعظم کے مشیرامورِ داخلہ شہزاد اکبر‘ معاون خصوصی شہباز گل اور ادھر لاہور میں فیاض الحسن چوہان سمیت حکومت اور پارٹی ترجمان حسبِ توفیق بیان بازی میں مصروف ہو گئے۔ شہزاد اکبر اے پی سی کو سزا یافتہ مجرموں اور ملزموں کا گٹھ جوڑ قرار دے رہے تھے۔
وہ نام لے لے کر بتا رہے تھے کہ ان میں کون کون سزا یافتہ ہے اور کس کس کے خلاف کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ نواز شریف کی شرکت پر ان کا اضطراب آخری حد کو چھورہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سزا یافتہ مجرم اور اشتہاری مفرور کی تقریر میڈیا پر کیسے نشر کی جا سکتی ہے۔ وہ اس کے لیے پیمرا قوانین کو بروئے کار لانے کا اعلان کر رہے تھے۔
لاہور ‘ سیالکوٹ موٹروے کا سانحہ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اب میڈیا پر نواز شریف ہی نواز شریف تھا۔اپوزیشن( اور خصوصاًمریم نواز) کا کہنا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر میاں نواز شریف کی تقریر دکھانے کے انتظامات کر لئے ہیں۔ ادھر ہفتے کی شب نواز شریف نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ تیار کر کے پہلا ٹویٹ کر دیا تھا اور تین چار گھنٹوں میں ان کے فالوورز کی تعدادستر‘ پچھتر ہزار کو کراس کر گئی تھی۔”ویلکم نواز شریف‘‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا تھا۔
آل پارٹیز کانفرنس‘ اسلام آباد کے بلاول ہاؤس میں منعقد ہونا تھی لیکن شرکا کی تعداد(اور کورونا ایس او اپیز کے تحت ”سماجی فاصلے‘‘) کے باعث یہاں گنجائش کم تھی؛ چنانچہ اسے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں منتقل کر دیا گیا۔یہ اپنی جگہ ایک بڑا رسک تھا۔ کسی دیدہ و نادیدہ دباؤ کے تحت ہوٹل انتظامیہ آخری وقت پر معذرت بھی کر سکتی تھی ‘لیکن خیریت رہی۔ کانفرنس ایک بجے دوپہر شروع ہونا تھی۔ اندرون و بیرون ملک بلا مبالغہ کروڑوں لوگ ٹی وی سکرینوں کے سامنے جا بیٹھے تھے‘ بہت سوں کے سامنے لیپ ٹاپ یا ان کے ہاتھوں میں موبائل فون تھے ۔
اب دلچسپی کا ایک اور سوال بھی تھا بلکہ موقع محل کے لحاظ سے بنیادی سوال کہ کیا سزا یافتہ مجرم اور اشتہاری و مفرور ملزم کی تقریر ٹی وی چینلز پر دکھائی جا سکے گی ؟میزبان بلاول کے بعد آصف زرداری کی آن لائن تقریر بھی میڈیا نے نشر کر دی‘ اب نواز شریف کی باری تھی۔ میڈیا اسے بھی لائیو نشر کر رہا تھا۔ ہم جیسے وہمی حضرات کو کئی ساعتوں تک یقین ہی نہ آیا کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں‘ جو کچھ سن رہے ہیں‘ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ خود میاں نواز شریف سمیت کانفرنس کے سبھی شرکا کے لیے یہ حیرت کی بات تھی۔
کانفرنس میں موجود مریم نے ٹویٹ میں تاخیر نہ کی‘ جس میں وہ میڈیا کا شکریہ ادا کر رہی تھیں کہ اس نے پابندی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور آخر میں یہ فقرہ کہ زنجیریں توڑنے کے لیے ہوتی ہیں‘ احترام کے لیے نہیں۔ تو کیا میڈیا واقعی حکم عدولی کا مظاہرہ کر رہا تھا؟ سرکاری ترجمانوں نے اب نیا موقف اپنا لیا تھاجس کے مطابق یہ خود وزیر اعظم تھے جنہوں نے مشیروں اور وزیروں کی اس تجویز کومسترد کر دیا تھا کہ پیمرا میڈیا ہاؤسز کو نواز شریف کی تقریر دکھانے سے منع کر دے۔
ان کے بقول‘ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو (اپنی تقریر کے ذریعے) ایکسپوز ہونے دیں۔ وزیر اور مشیر گزشتہ دودنوں سے نواز شریف کی تقریر کی رکوانے کے اعلانات کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نے اس کے برعکس فیصلہ کیا تو یہ خبر اسی وقت آ جانی چاہیے تھی کہ اس سے وزیر اعظم صاحب کے جمہوری رویے پر واہ واہ ہوتی۔ یہ خبر یا وضاحت اس کے بعد کیوں آئی جب میڈیا پر یہ تقریر حرف بحرف نشر ہو چکی تھی‘ البتہ چندثانیے ایسے تھے جب نواز شریف کے ہونٹ تو جنبش میں تھے لیکن آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ یہ چند ثانیے سوشل میڈیا پر آگئے۔ یہ عاصم سلیم باجوہ صاحب کے متعلق نواز شریف کے ریمارکس تھے۔تقریباً 54منٹ کے اس خطاب میں نواز شریف وہ سب کچھ کہہ گئے‘ جو ان کے دل میں تھا۔ وزیر اطلاعات شبلی صاحب کے والد صاحب یاد آئے ؎
دیکھو یہ میرے خواب تھے‘ دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے سبھی حسابِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا
ایاز امیر اتوار کی شام ‘ دنیا نیوز کے تھنک ٹینک میں کہہ رہے تھے : نواز شریف اقتدار سے باہر ہوں تو ان جیسا زیرک سیاستدان کوئی اور نہیں ہوتا۔ تحریر ہو یا تھنک ٹینک جیسے پروگرام میں گفتگو‘ ایاز صاحب اظہار کا اپنا خاص اسلوب رکھتے ہیں۔ نواز شریف کی تقریر پر ان کا تبصرہ تھا‘ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نواز شریف( ایک بار پھر) ایسی تقریر کریں گے۔ انہوں نے بڑے مدلل طریقے سے اپنا کیس پیش کیا۔ انہوں نے آئندہ عام انتخابات کے لیے انتخابی نعرہ بھی دیدیا۔
آئندہ انتخابات جب بھی ہوئے ان میں حکومت کی اقتصادی کارکردگی یا سی پیک وغیرہ کی بجائے نواز شریف کی تقریر کا ”سیاسی حصہ‘‘ انتخابی ایشو ہو گا۔ ایاز امیر یہ دور کی کوڑی بھی لائے کہ گزشتہ الیکشن اگر آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو مسلم لیگ (ن) جیت جاتی‘ شہباز شریف(جیسا مفاہمت پسند) وزیر اعظم بن جاتا(اور ”الیکشن کا بندوبست کرنے والوں‘‘ کو نواز شریف سے نجات مل جاتی)۔
تقریباً 9گھنٹے پر محیط آل پارٹیز کانفرنس کا حاصل 26نکاتی مشترکہ اعلامیہ تھاجسے مولانا فضل الرحمان نے پڑھ کر سنایا۔ اس میں ”سلیکٹڈ‘‘ اور ”نا اہل ‘‘حکومت سے نجات کے لیے لائحہ عمل کا اعلان بھی تھا۔ جس کے مطابق اکتوبر میں رابطہ عوام مہم کے لیے شہر شہر جلسے ہوں گے‘ نومبر میں ریلیاں ہوں گی‘ جنوری میں فیصلہ کن لانگ مارچ اور دھرنا ۔آل پارٹیز کانفرنس کو باقاعدہ سیاسی اتحاد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘(پی ڈی ایم) کا نام کچھ جانا پہچانا سا لگا‘ تو یاد آیا کہ ایوب خاں کے خلاف جو سیاسی اتحاد وجود میں آئے ان میں ایک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بھی تھا۔
30اپریل 1967ء کو ڈھاکہ میں وجود میں آنے والے اس اتحاد میں پانچ جما عتیں‘ مسلم لیگ (کونسل)‘ جماعت اسلامی‘سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی کی نظام اسلام پارٹی‘ نواب زادہ نصر اللہ خاں کی عوامی لیگ(8نکاتی) اور نور الامین کا نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ (NDF)شامل تھے۔ عہدیداروں کی نامزدگی کا اختیار سید مودودی کو دے دیا گیا۔ ان کے فیصلے کے مطابق نواب زادہ صاحب پی ڈی ایم کے صدر‘ محمود علی (مشرقی پاکستان سے )سیکرٹری جنرل اور خواجہ خیر الدین (مسلم لیگ) نائب صدر ہو گئے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا