کالم

ناروے کا واقعہ آخری ھی ہونا چاہئیے۔

Share
حمادحسن

ملک بھی پرایا تھا اور خوش شکل نوجوان اکیلا بھی تھا لیکن واقعی نر آدمی ہر جگہ اور ہر قسم کے حالات میں نر ہی ہوتا ہے ۔ اس نے لوہے کی فینسنگ (باڑ) کے اُوپر سے چھلانگ لگا دی اور کسی شیر کی طرح انسانی شکل میں موجود ایک وحشی درندے سے بد تر اس شخص پر ایک دلیری سے جھپٹ پڑا جس کے اردگرد اس کے سینکڑوں ہم خیال اور ہم وطن اس کی تائید میں کھڑے تھے ۔پہلے حملے میں نوجوان کو خاطر خواہ کامیابی نہ ملی لیکن اس نے فورًا پلٹ کر دوسرا حملہ کر دیا لیکن درجن بھر پولیس والے اس پر جھپٹ پڑے اور اسے قابو کر لیا۔یہی وہ چند سیکنڈز کی مختصر سی ویڈیو تھی جس نے ایک گمنام اور غریب الوطن نوجوان الیاس کو پلک جھپکتے میں عالم اسلام کا ہیرو بنا دیا۔ لیکن ماننا پڑے گا کہ جب آپ دوسروں کے مذاھب اور مقدس ہستیوں کی توھین کریں گے تو رد عمل بھی آئے گا.بھاڑ میں جائے مغرب کی ایسے جھوٹے انسانی حقوق کی ڈرامہ بازی اور پر فریب انصاف کا نعرہ جب کرہ ارض پر پھیلے مسلمانوں کو انسانیت میں شمار کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ورنہ یہ کچھ ہوتا جو روز روز اس بد بخت سر زمینوں سے پھوٹتا ہے اور کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کی دلازاری کرتا رہتا ہے کیونکہ یہ انسان (مسلمان ) ان کے ہم مذھب نہیں ۔سمجھ نہیں آتی کہ ان دلآوزیوں کو نہ تو انسانیت گوارا کرتی ہے نہ کسی مھذب معاشرے کے اقدار ،پھر روز روز ان وحشت انگیزیوں اور جنوں خیزیوں کا مقصد اور مدعا کیا ہے ؟ لیکن تنگ نظری کی بات آئے تو مجرم بھی مسلمانوں ھی کو ٹھرائیں.کیا پوری تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ ڈھونڈا جا سکتا ہےکہ پورے عالم اسلام میں کہیں ایک بار بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں تضحیک تو درکنار کبھی تکریم میں معمولی سی کمی بھی دیکھنے میں آئی ہو ۔پوری اُمت مسلمہ میں کیا ایک فرد بھی ایسا ڈھنڈا جا سکتا ہے جس نے (نعوذبااللہ ) کبھی انجیل کا تمسخر اُڑایا ہو ؟کیا تورات کا ذکر انتہائی تعظیم سے نہیں کیا جاتا ؟کیا موسٰی علیہ السلام کے ذکر پر ہر مسلمان کی پلکیں آنسوؤں سے بھاری نہیں ہوتیں ؟لیکن ان حساس حوالوں اور مقدس جذبات کے حوالے سے جب بھی کوئی فتنہ انگیزی اٹھی تو تہذیب بھی وہی اور زمینیں بھی وہی جو نہ صرف مھذب ہونے کے دعویدار ہیں بلکہ ہمیں وحشی دھشتگرد معتصب تنگ نظر اور بنیاد پرست جیسے القابات سے صبح و شام نواز بھی رہے ہیں ۔
اب کوئی ان سے پوچھ بھی لے کہناروے کے شہر کرسچیئن سینٹ کا متعصب اور وحشی باسی لارس تھارسن کون سے مسلم معاشرے میں پروان چڑھا تھا؟کون سے مدرسے میں اس کی تربیت ہوئی تھی؟اور کون سے اسلام نے اس کی یہ تربیت کی تھی کہ تم سرراہ ایک خلقت کے بیچوں بیچ قرآن پاک کو آگ لگاتے اور زمین کے کونے کونے میں پھیلے دوسرے انسانوں کے دل اور دماغ جلاتے رہو؟ماننا ہی پڑے گا کہ اس بد بخت لارس تھارسن کی تربیت اور اٹھان اسی تہذیب میں ہوئی جہاں کتوں کے حقوق کا خیال تو رکھا جاتا ہے لیکن ان کروڑوں انسانوں کے مقدس جذبات کو تعصب کی آگ دکھائی جاتی ہے جن کا تعلق مذھب اسلام سے ہو۔سوال تو اٹھے گا کہ اگر ناروے انسانی حقوق اور دوسروں کے جذبات کے احترام کے حوالے سے توانا قانون کا حامل ایک مضبوط ریاست ہے تو پھر اس بد بخت کارٹونسٹ سے لارس تھارسن تک قانون کے اس محفوظ قلعے میں وہ نقب کہاں سے لگاتے اور امت مسلمہ کے مقدس اور حد درجہ حساس جذبات کو بھسم کرنے کی مذموم کوششیں کرتے رہتے ہیں اور(SIAN) Stop Islamization of Norwayجیسی معتصب تنظیمیں کیونکر پروان چڑھتی ہیں ؟اور پھر اس تنظیم کو مقامی انتظامیہ نے کیوں اس دلآزار احتجاج کی اجازت دے دی جو دوسروں کی مقدس کتاب کی تضحیک بھی کرے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ بھی۔اب وہ وقت آنا چاھئیے کہ کرہ ا رض پر موجود تمام انسانوں کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذھب ،نسل رنگ اور زبان سے ہو دوسروں کی مذھبی آزادی اور احترام کے ساتھ ساتھ رنگ و نسل اور زبان و زمین سے مبرا ہو کر نہ صرف سوچنا چاھئیے بلکہ اپنے کردار اور عمل سے اپنی اس ذمہ داری کو ثابت بھی کرنا چاھئیے ۔اس سلسلے میں اگر مسلمانوں کے حوالے سے بات ہو تو مذھب اسلام پہلے ہی یہ ذمہ داری بنیادی اور اولین فرائض میں لاگو کر چکی ہے ۔وہی خطبہ حجتہ الوداع جس کا ایک ایک لفظ نہ صرف سب کو ازبر ہے بلکہ ایمان کا حصہ بھی ہے ۔وہی خطاب جو نہ صرف انسانیت کے تحفظ بقاء اور نشونما کا عظیم ترین چارٹر ٹہرا بلکہ ایمان اور عقیدے کی بنیاد بھی بنا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے جب ہم تاریخ میں جھانکتے ہیں تو مسلمانوں کا ٹریک ریکارڈ کافی حد تک اطمینان بخش اور بہترین ہے۔ لیکن دوسرے مذاھب سے وابستہ اقوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حوالے سے اپنی کمزوریوں پر قابو پائے تاکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے مذھبی جذبات پامال نہ ہوں اور یہ یقینًا ہم سب کے لئے خیر اور امن کا راستہ نکالے گا کیونکہ تھوڑے سے وحشی اور جنونیوں کو چھوڑ کر ہر کوئی یقینًا اسی جذبے کا تمنائی بھی ہے اور داعی بھی اور اسی پر انسانی نسل کی بقاء کا انحصار بھی ہے ۔اس لئے ہم سب کو دلجمعی سے لارس تھارسن جیسے کرداروں کے خلاف لڑنا ہوگا اور انہیں پسپا بھی کرنا پڑےگا تاکہ پیش آنے والا ناروے کا موجودہ تضحیک آمیز اور دلازار واقعہ آخری واقعہ ھی ثابت ہو کیونکہ اس سے آگے تہذیبوں کا وہ خوفناک ٹکراو ھے جس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.