پاکستان

نواز شریف کا علاج مریم کے نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا، شہباز شریف

Share

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو لندن میں نواز شریف کے پاس آنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے پہلے سے طے شدہ ان کے علاج کی تاریخ کو دو مرتبہ تبدیل کیا ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے بیان میں کہا کہ بدقسمتی سے مریم نواز کو اپنے والد کی دیکھ بھال کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی بنیادوں پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کو ان کے والد کے پاس آنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شرید اس وقت لندن میں زیر علاج ہیں جبکہ مریم نواز نے اپنے والد کے پاس جانے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی تھی تاہم وفاقی کابینہ نے گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں فیصلہ کیا تھا کہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نہیں نکالا جائے گا۔

14 جنوری کو وفاقی کابینہ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں ان کا نام دوسری مرتبہ ای سی ایل میں ڈال دیا تھا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف کی صحت تشویش ناک ہے اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے طبی اقدامات کی گنجائش کم ہوتی جارہی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے پاس نہ ہونے کی وجہ سے ماہر امراض قلب کو دو بار ’کارڈیک کیتھیٹرائزیشن‘ کا طے شدہ عمل تبدیل کرنا پڑا’۔

اپنے بیان کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی صحت نازک اور تشویش ناک ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ‘ان کے علاج کے لیے ضروری عمل کو 2 مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے کیونکہ ان کی بیٹی مریم نواز جو ایسے مشکل وقت میں اپنے والد کے ساتھ ہونا چاہتی ہیں، کو پاکستان سے آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے انتقال سے ان کی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اپنی زندگی کے اس مشکل ترین وقت میں مریم نواز ان کے لیے ڈھارس اور قوت کا باعث ہیں، یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ انہیں اپنے والد کی دیکھ بھال کے لئے آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔’

نواز شریف کی صحت اور بیرونِ ملک قیام

یاد رہے کہ گزشتہ سال 21 اکتوبر 2019 کو نیب کی تحویل میں چوہدری شوگر ملز کیس کی تفتیش کا سامنا کرنے والے نواز شریف کو خرابی صحت کے سبب تشویشناک حالت میں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے۔

مقامی طور پر مسلسل علاج کے باوجود بھی بیماری کی تشخیص نہ ہونے پر نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر انہیں علاج کے سلسلے میں چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

جس پر سابق وزیراعظم 19 نومبر کو اپنے بھائی شہباز شریف اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ہمراہ قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن گئے تھے۔

علاج کے لیے لندن جانے کی غرض سے دی گئی 4 ہفتوں کی مہلت ختم ہونے پر 23 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نے بیرونِ ملک قیام کی مدت میں توسیع کے لیے درخواست دی تھی جس کے ساتھ انہوں نے ہسپتال کی رپورٹس بھی منسلک کی تھیں۔

تاہم ریسٹورنٹ کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد ان کی بیماری کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کی جارہا تھا جس پر صوبائی حکومت متعدد مرتبہ ان کی تازہ میڈیکل رپورٹس طلب کرچکی ہے۔