کالم

پاکستان کی ایک اور جیت

Share

ملکوں اور قوموں کی تاریخ کے عالمی منظر نامے میں پاکستان جیسے کم عمر ملک نے جہاں بہت سے صدمے سہے، سانحات کا سامنا کیا اور مصیبتیں جھیلیں، وہاں صدیوں پر محیط اِس عبرت سرائے دہر میں کئی تاریخی کامیابیاں بھی اُس کا مقدر بنیں۔اِس ملک میں انتخابات اور اُن میں دھاندلی کی شکایات کی عجیب و منفرد تاریخ ہے۔پاکستان میں اب تک ہونے والے تمام انتخابات پر مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ ۰۷۹۱ء کے عام انتخابات کے بارے میں یہ تأثر عام ہے کہ وہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تھے، مگر اُن کی حقیقت بھی ڈھکی چھُُپی نہیں اور اُن کے یک طرفہ ہونے کا شک دور کرنے کے لئے اردو ڈائجسٹ ۱۷۔ ۰۷۹۱ء کے شماروں میں چیف ایڈیٹر الطاف حسن قریشی کے اداریے اور اِس موضوع پراُن کی تحریروں سے حقیقت سمجھنے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔پھرانتخاب ووٹنگ والے دن صرف ووٹ ڈالنے کے عمل کا نام نہیں، بلکہ یہ پورا پیکج ہے جس کے نتیجے میں مُلک میں پُر امن انتقالِ اقتدار ہوجائے نیز ملک و ملت کے لئے اُس کے نتیجے میں امن و سلامتی اور ترقّی و خوشحالی کی راہیں کھلیں۔ ۰۷۹۱ء کے انتخابات کا اِس حوالے سے جونتیجہ نکلا، وہ سب پر عیاں ہے۔
مارچ ۷۷۹۱ء میں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں ایک اورقومی انتخابات ہوئے۔ شیڈول کے مطابق ۷ مارچ کو قومی اسمبلی کے لئے ووٹنگ ہوئی، جس میں حزبِ اقتدارپاکستان پیپلز پارٹی کامیاب قرار پائی۔مگرمفتی محمود کی صدارت میں حزبِ اختلاف کی نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحادنے حکومتِ وقت پر دھاندلی کے شدید الزامات لگاتے ہوئے، ۰۱ مارچ کو ہونے والی صوبائی اسمبلی کی ووٹنگ کا بائیکاٹ کر دیا۔چار مہینے حکومت کے خلاف بھر پور عوامی تحریک چلی۔ شہر شہر، قصبہ قصبہ دھاندلی کے خلاف، حکومت سے استعفیٰ اور نظامِ مصطفی کے نفاذ کے مطالبے پر عوامی جلسے اور جلوس نکلتے رہے۔ سیاسی کارکن جیل گئے اور کچھ شہروں میں جلوس پر فائرنگ کے نتیجے میں احتجاج کرنے والوں کی اموات بھی ہوئیں۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں مذاکرات بھی ساتھ ساتھ ہوتے رہے، لیکن نتیجہ ۵ جولائی ۷۷۹۱ء کو مارشل لاء کی صورت میں نکلا۔ اگلا ایپی سوڈ بھٹو کی پھانسی کی صورت میں سامنے آیا، جس کے نتیجے میں پاکستان میں غربت، جہالت، انصاف کی عدم فراہمی، آبادی میں اضافے پر کنٹرول اور صنعتی ترقی جیسے اہم مسائل پس منظر میں چلے گئے۔ قوم بھٹو اور اینٹی بھٹو، دو گروہوں، میں ایسی تقسیم ہوئی کہ آج بھی کسی نہ کسی طور یہ خلیج موجود ہے اوراِس کے مضمرات پاکستان ابھی تک بھکت رہا ہے۔ ریفرنڈم،، بھٹو کی پھانسی،غیر جماعتی انتخابات، مقبول سیاسی قیادت کی در بدری، جونیجو حکومت کی بر طرفی وغیرہ جیسے مسائل مذکورہ واقعات کا شاخسانہ ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان ترقی کے سفر میں کئی عشرے پیچھے رہ گیا۔
۱۱مئی ۳۱۰۲ء کو ایک اور قومی انتخاباب ہوئے جو ملک میں آئینی اصلاحات کے نتیجے میں قائم مرکزی اور صوبائی عبوری حکومتوں نے کروائے۔ واضح رہے کہ آئینی بند و بست کی روشنی میں یہ عبوری حکومتیں حزبِ اقتدار اور اختلاف کی مشاورت سے قائم ہوئیں نیز چیف الیکشن کمیشن کا تقرر اِسی فارمولے پرہوا۔یہ انتظام بذات خود پاکستان میں جمہوری نظام کی مضبوطی اور مختلف پارٹیوں کی طرف سے ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دینے کے نتیجے میں ہی رو بہ عمل آسکا۔انتخابات کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی بار عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے،جہاں جس پارٹی نے زیادہ نشستیں جیتیں،وہاں اپنی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی۔ چنانچہ مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور اُس کے اتحادیوں، خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریکِ انصاف اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت سازی کی۔ اِسے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے،کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے اعلیٰ اقدار کی بنیاد رکھنے میں اپنا حصّہ ڈالااور ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ایک دوسرے کا مینڈیٹ ہتھیانے کی بجائے اپنے اپنے حصّے پر قناعت کی۔اِس عمل سے حکومت سازی کے عوامی استحقاق کی توثیق ہوئی اور ملک کی تمام اکائیوں کا اُس پر اعتماد بڑھا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے ۳۱۰۲ء کے انتخابات میں بھر پور شرکت کی، پرجوش انتخابی مہم چلائی اور ہماری ملکی انتخابی تاریخ میں اِس کریدٹ کے حقدار قرار پائے کہ نوجوانوں خاص طور پر کھاتے پیتے گھرانوں کے پڑھے لکھے افراد کو جو عام طورپر انتخابات سے بے تعلق رہتے، مرکزی سیاسی دھارے میں لے آئے۔ اُن کا میرٹ اور شفّافیّت کا نعرہ ہمہ گیر رہاجس کا پاکستان میں میرٹ کے نفاذ میں ہمیشہ مثبت رول رہے گا۔عمران خان نے نتائج کے اعلان پر اُن کو تسلیم کیا، اُنہی کی روشنی میں خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی اور امور مملکت میں مصروف ہو گئے۔ مگر ایک سٹیج پر اُنہوں نے عبوری حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی طرف سے نواز شریف کے حق میں منظم دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے بھر پور احتجاجی تحریک کا اعلان کیا۔پروگرام یہ بنا کہ ۴۱ اگست ۴۱۰۲ء کو عمران خان اور علّامہ طاہرالقادری علیحدہ علیحدہ لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ دس لاکھ افراد اور ایک لاکھ موٹر سائیکلوں کے جلوس کے ساتھ اسلام آباد کا رُخ کریں گے۔ عمران خان کا مطالبہ حکومت سے استعفیٰ اور نئے الیکشن کا انعقاد ہو گا، جب کہ علامہ صاحب ”سیاست نہیں ریاست“ کا نعرہ لگائیں گے۔ چنانچہ مذکورہ دونوں جماعتوں نے دستیاب چند ہزار افراد اور بیسیوں موٹر سائیکلوں سے یہ جلوس لاہور سے شروع کیا جو راستے میں مختلف شہروں میں لیڈروں کے خطاب سُنتا اگلے روز اسلام آباد میں کشمیر روڈ پر جا کے خیمہ زن ہو گیا۔ پھروہ سرکتا سرکتا قومی اسمبلی کے سامنے ڈی چوک جاپہنچا۔ وہاں دو کنٹینر ایستادہ تھے، ایک پر علامہ صاحب اپنے مرید نما حمایتیوں اور دوسرے پر جناب عمران خان اپنے فینز نما سیاسی ورکروں کے سامنے خطابت کے جوہر دکھاتے اور حکومتِ وقت کو للکارا کرتے، ساتھ ہی شرکائے دھرنا کی دل پشوری کے لئے موسیقی اور قوالی کے سائیڈ پروگرام جاری رہتے۔ مخالفین کے لئے نا مناسب زبان کا استعمال سیاسی عوامی احتجاج میں پہلی بار منظرِ عام پر آیا۔پھرایک دن دھرنا پارٹی نے انتہائی اقدام کے طور پر پاکستان ٹیلی ویژن اورپارلیمنٹ ہاؤس جیسی ریاستی وقار کی علامتوں پر یلغارکردی۔اہلِ پاکستان نے اقبال اور قائدِ کے پاکستان کو یوں بازیچہئ اطفال اور جگ ہنسائی کا نمونہ بنتے دیکھا۔
۷۷۹۱ء اور ۳۱۰۲ء میں منعقدہ دونوں انتخابات پر مخالف پارٹیوں نے دھاندلی کی شکایت کی اور حکومتِ وقت کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریکین چلائیں۔ دونوں کے موازنے سے پتہ چلتا ہے ۷۷ء میں نو جماعتوں نے مل کر تحریک چلائی، چونکہ ساری پارٹیاں اپنے منشور کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں تھیں،اِس لئے اُن کی تحریک میں کشتیاں جلا کر آگے بڑھنے والا جذبہ مفقود تھا۔ پھر یہ کہ اُس زمانے میں بریکنگ نیوزدینے، احتجاجی قائدین کی تقاریر لائیو اور مکمل نشر کرنے والا میڈیا نہیں ہوا کرتا تھا۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی نامی جن بھی ابھی بوتل سے باہر نہیں آیا تھا،چنانچہ عوام کو صرف بی بی سی سے احتجاجی خبروں کی بھنّک پڑتی، جن میں وہ ہیجان اور تھرلنگ کا عنصرمفقود ہوتا، جس سے قلب کو گرمانے اور روح کو تڑپانے کا وافر انتظام ہو پاتا۔سوشل میڈیاکہ جس سے راہ چلتے، واقعات کی وقوع پذیری کے لمحے لمحے کی خبر عوام الناس تک پہنچ جاتی ہے کا تصوُّر بھی نہیں تھا۔پھرکثیر وسائل اور سرمایہ کی مالک حکومت وقت کے مقابلے میں مفلوک الحال اور سرمائے کی کمی سے دوچار حزبِ اختلاف تھی جو چندے اور ڈونیشنز سے کام چلا رہی تھی۔بیرون ملک تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے تارکینِ وطن کی مالی سپورٹ سے بھی ۷۷ء کی احتجاجی تحریک محروم تھی۔پڑھے لکھے آسودہ حال نوجوانوں کا بھی کوئے سیاست و احتجاج داخلہ نہیں ہوا تھا۔ مگراِن مشکلات کے باوجود چار ماہ کے عرصے کی ملک کے مختلف حصوں میں جگہ جگہ بکھری تحریک کا نقد نتیجہ نکلا کہ ۵ جولائی کو ملک میں مارشل لاء نافذ ہوگیا۔حزبِ اختلاف کے لیڈروں کی غالب اکثریت جیلوں میں بھیج دی گئی۔ رائے عامہ پر طرح طرح کی قدغن لگی اور شخصی آازادیاں مصلوب ہوگئیں۔
مذکورہ تحریک کے مقابلے میں ۳۱۰۲ ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کے تحت چلنے والی عوامی احتجاجی تحریک کو ایک آئیڈیل ماحول ملا۔ وکلا کا آزاد عدلیہ کی کامیاب تحریک کے بعد مورال بلند تھا، نیز چونکہ اِس کمیونٹی نے کورٹ کچہری سے بالآخر کوئے سیاست میں قدم رنجا ہونا ہوتا ہے، اِس لئے اپنے احتجاجی تجربہ کی مشق کے لئے بے تاب تھے، چنانچہ نعرہئ مستانہ لگا کے میدان میں اُتر گئے اور احتجاج کو ابتدا ہی میں انتہا تک پہنچا دیا۔ایسا پہلی بارہو رہا تھاکہ احتجاجی تحریک چلانے والی قوت کے پاس بھی صوبائی حکومت تھی، اِس لئے وسائل کی ۷۷ء والی کمی کا اُنہیں سامنا نہیں کرنا پڑا، پھر تارکینِ وطن کی بھرپور امداد سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی، جس نے احتجاج کو ماند نہیں پڑنے دیا۔۷۷ء کی تحریک میں فکرِ روزگار کے مارے عوام کے مقابلے میں ۳۱۰۲ء میں خوشحال گھرانوں کے آسودہ حال نوجوانوں کی احتجاج سے کمٹمنٹ نے بھی اُس میں جان ڈال دی تھی۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی نے تحریک کی پل پل کی خبر عوام تک پہنچا کے اُن کے آگے بڑھنے میں نقیب کا کردار ادا کیا۔ ۷۷ء میں پابند یوں کے شکار پرنٹ میڈیا اور پی ٹی وی کے مقابلے میں سوشل میڈیا، کثیر تعداد میں صبح، دوپہر اور شام کو چھپنے والے اخبارات اور لا تعداد پرائیویٹ ٹی وی چینل اور اُن کی احتجاجی لیڈروں کی تقاریرکی لائیو اور مکمل کوریج نے عوام الناس کے دلوں میں جنون بھر دیا۔ بریکنگ نیوز اور ٹاک شوز میں عوامی مزاج آشنا تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کی حکومت گرائے جانے کی آئے روز کی پیشی گوئیاں اِس پر مستزاد تھیں، نتیجتاً عوام الناس کو سونامی اسلام آباد کے دامنِ کوہ میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظرآیا کرتا۔ ۷۷ء کے مقابلے میں موجودہ تحریک میں پر جوش احتجاجی جمع غفیر نے عین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنادیا ہوا تھا، جس سے حکومت پر ہر آن دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ ۷۷ء کی تحریک میں صرف احتجاجی جلسوں میں شریک لوگ لیڈران کی تقریریں سن کر جوش میں آرہے تھے، جب کہ ۴۱۰۲ء میں ٹیلی ویژن،موبائل اور انٹرنیٹ کی برکت سے جو جہاں تھا وہیں سے شریکِ احتجاج ہو رہا تھا اور لیڈروں کے خطاب کے زیرِ اثر مبینہ طور پر عوامی مینڈیٹ چرانے والی حکومت کے خلاف کھُل کر اپنا کردار ادا کرنے کو مچل مچل جاتا۔اِس سب اشتعال انگیزی کے باوجود تمام فریقوں نے مذاکرات کا راستہ اپنایا، اِس کے کئی دور ہوئے، نتیجتاً پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی شکایت کی چھان بین کے لئے تمام فریقوں کی رضا مندی سے حکومت نے ۶ اپریل ۵۱۰۲ء کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو ججوں پرمشتمل عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اپنے ذمے لگائے گئے کام کو بہ طریقِ احسن انجام دیا اور ۲۲ جولائی کو ۵۸ دن کے اندرفیصلہ سنا دیا، جسے حکومت کے ساتھ ساتھ شکایت کنندہ فریقوں نے بھی قبول کر لیا۔ یوں شاید پہلی بار پاکستان میں کسی بڑے معاملے کی تحقیقی رپورٹ بر وقت عوام تک پہنچی اور سارے متعلقہ فریقوں نے اُس پر صاد بھی کیا۔ نتیجتاً عوامی بالغ نظری اورسٹیک ہولڈر زکے شعور کی پختگی کی وجہ سے پاکستان اُس انجام سے محفوظ رہا جو اِس طرح کی صورتِ حال میں اُسے ۷۷۹۱ء میں بھگتنا پڑا۔ چنانچہ وطن عزیز نہ صرف پیش آمدہ بحران سے محفوظ رہا، بلکہ دنیا بھر میں رائج طریقہئ کار کے مطابق اعلیٰ عدالت نے اُسے آئندہ پیش آنے والے ایسے کسی بھی بحران کے حل کے آئینی راستے کی نشاندہی بھی کر دی۔ بحران کے حل کی یہ ایسی صورت ہے جس میں سب کی فتح اور پاکستان کی جیت ہے کہ وہ اِس بحران سے سر خرو ہو کے نکلا اور آیندہ کے لئے بھی سب کو خبر ہو گئی کہ ہر بحران کا حل آئین صرف اور صرف آئین کی پیروی میں ہے، سڑکوں، چوراہوں پر دھرنوں اور قومی املاک پر دھاوے بولنے اور یلغار کرنے میں نہیں۔یوں پاکستان نے ترقّی کا ایک اور زینہ عبور کر لیا، جس کے ثمرات اِسے پسماندگی سے نکال کر خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر دیں گے۔ آئین کی پاسداری سے عالمی برادری میں بھی اُس کے وقار میں اضافہ ہوگا۔