پاکستان

چینل 24 نیوز کا معاملہ: پیمرا کی جانب سے نجی ٹی وی چینل کا لائسنس معطل کرنے کا فیصلہ جانبدار تھا؟

Share

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا نے حال ہی میں ایک نجی ادارے چینل 24 نیوز کا لائسنس اس بنیاد پر معطل کیا کہ وہ ’شرائط کے مطابق دستاویزی فلموں اور ڈراموں کی مقررہ شرح کو پورا نہیں کر رہا تھا۔‘ تاہم گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے پیمرا کو چینل 24 نیوز کا لائسنس بحال کرنے کا حکم دیا۔

لائسنس کی معطلی کے حوالے سے پیمرا کا مؤقف تھا کہ چینل 24 نیوز ’انٹرٹینمنٹ لائسنس‘ کے تحت تمام وقت خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام نشر نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف نیوز چینل نے پیمرا کے اس عمل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ریگولیٹری ادارے کی طرف سے ان کا لائسنس معطل کرنے کا عمل جانبداری پر مبنی ہے۔

پاکستان میں نجی خبر رساں نشریاتی ادارے بظاہر اپنے نشر کیے جانے والے مواد کے حوالے سے آزاد ہیں۔ تاہم وہ کس نوعیت کا مواد کتنا فیصد نشر کر سکتے ہیں، اس کے لیے انھیں اپنے لائسنس کی ’شرائط کی پاسداری‘ کرنا ہوتی ہے۔

ان شرائط کی خلاف ورزی پر پیمرا ان کے خلاف انضباطی کارروائی کرتے ہوئے ان کا لائسنس معطل کرنے سے لے کر منسوخ کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے پیمرا کو چینل 24 نیوز کی نشریات بحال کرنے کا حکم دیا

چینل 24 نیوز کے حکام نے عدالت میں دائر درخواست میں ایک مؤقف یہ بھی اپنایا ہے کہ ’پاکستان میں دیگر کئی نشریاتی ادارے لائسنس کی شرائط پر پوری طرح عمل نہیں کر رہے لیکن پیمرا نے ان کا لائسنس معطل نہیں کیا۔‘

حکومتی نگراں ادارے کی طرف سے یہ عمل اس وقت سامنے آیا ہے جب کئی مقامی اور عالمی صحافتی تنظیمیں حالیہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں کہ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے میڈیا کی آزادی سلب کرنے اور اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت تاہم اس کی تردید کرتی رہی ہے۔

انٹرٹینمنٹ لائسنس پر خبروں کی نشریات

پیمرا کا مؤقف ہے کہ ابتدائی طور پر اس نے سینٹرل میڈیا نیٹ ورک کو ’ویلیو ٹی وی‘ کے لیے انٹرٹینمنٹ لائسنس جاری کیا تھا لیکن بعد میں انھوں نے اپنا نام ’24 نیوز‘ میں تبدیل کر لیا۔

مواد دستیاب نہیں ہے

لیکن بعض حلقوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پیمرا کے اس اقدام نے آزادی صحافت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس تاثر کی نفی کے لیے پیمرا جیسے حکومتی ادارے کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔

پیمرا کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’چینل 24 سمیت پاکستان میں چھ نمایاں نیوز چینلز ایسے ہیں جو اپنے لائسنس کی شرائط کے مطابق کام نہیں کر رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان میں ’بیشتر اداروں کے پاس انٹرٹینمنٹ کا لائسنس ہے جبکہ وہ نیوز اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام نشر کر رہے ہیں اور باقی لائسنس میں مقرر کردہ شرائط کے مطابق نشریات نہیں چلا رہے۔‘

پیمرا کے اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں اس لیے وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

بی بی سی بعض وجوہات کی بنا پر ان اداروں کے نام ظاہر نہیں کر رہا۔ تاہم ان میں سے ایک ادارہ گذشتہ دہائی جبکہ باقی گذشتہ کچھ عرصے سے کام کر رہے ہیں اور مسلسل 24 گھنٹے نیوز اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔

ان کے علاوہ ایک ادارہ پہلے ہی معاشی اور انتظامی وجوہات کی بنیاد پر بند ہو چکا ہے۔

چینل 24 نیوز
چینل 24 نیوز کا لائسنس معطل ہونے پر بعض صحافی حلقوں کی جانب سے اس کے حق میں مظاہرے بھی کیے گئے

پیمرا کے اہلکار کا کہنا ہے نگراں ادارہ ایسے نجی خبر رساں چینلز کے خلاف انضباطی کارروائی کرتے ہوئے ان کا لائسنس معطل کرنے یا منسوخ کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔ تاہم چینل 24 نیوز کے لائسنس کی معطلی سے قبل تک ایسا نہیں کیا گیا تھا۔

پیمرا اور لائسنس کے اصول

لاہور کی عدالت میں پیمرا کے خلاف چینل 24 نیوز کی درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل تصدق نقوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ادارے کا لائسنس پیمرا نے جس بنیاد پر معطل کیا ہے اس میں کہا گیا ہے ’وہ اپنے لائسنس کی شرائط کے مطابق 24 گھنٹے کی نشریات میں 12 عشاریہ پانچ فیصد دستاویزی فلموں اور دس فیصد انٹرٹینمنٹ ڈراموں کو نہیں دے رہے تھے۔‘

لائسنس کی شرائط میں یہ طے ہوتا ہے کہ کوئی بھی نشریاتی ادارہ اپنی نشریات کے 24 گھنٹوں کو مقرر کردہ اوقات کے مطابق مخلتف موضوعات میں تقسیم کرے گا جن میں نیوز، حالاتِ حاضرہ کے پروگرام، موسم، کھیل، دستاویزی فلم اور انٹرٹینمنٹ کے پروگرام وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

تاہم وکیل تصدق نقوی کا کہنا تھا کہ چند ٹی وی چینلز ایسے بھی تھے جنھوں نے پیمرا کے ساتھ اپنے لائسنس کی شرائط کو تبدیل کروایا تھا اور انھیں اس کی اجازت دی گئی تھی۔ اس میں انھوں نے سچل ٹی وی اور سٹار ایشیا ٹی وی چینلز کے نام بتائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا آرڈینینس کی شِق نمبر 30 کے سب سیکشن دو کے مطابق مفادِ عامہ میں اتھارٹی کسی نشریاتی ادارے کے لائسنس کی شرائط میں تبدیلی کی اجازت دے سکتی ہے۔

تاہم حکام نے سنہ 2012 میں ایک ریگولیشن کے ذریعے پیمرا کی اس شق کو ختم کر دیا تھا جس کے بعد اتھارٹی خود ایسی کسی تبدیلی کی اجازت دینے کی مجاز نہیں رہی۔

وکیل تصدق نقوی کا کہنا تھا ایک آرڈینینس کو کسی ادارتی ریگولیشن کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کرنا قانون اور آئین کے مخالف تھا۔

پیمرا
پیمرا کا مؤقف ہے کہ ابتدائی طور پر اس نے سینٹرل میڈیا نیٹ ورک کو ‘ویلیو ٹی وی’ کے لیے انٹرٹینمنٹ لائسنس جاری کیا تھا

’چیئرمین پیمرا کے پاس کوئی اختیارات نہیں‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں بھی یہ ریگولیشن موجود تھی کہ پیمرا خود بھی کسی نشریاتی ادارے کے لائسنس کی شرائط میں تبدیلی نہیں کر سکتا تھا۔

ابصار عالم سنہ 2015 سے سنہ 2017 تک پیمرا کے چیئرمین رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ کون سے ٹی وی چینل ایسے تھے جو اپنے لائسنس کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے تھے تاہم اگر کسی ایک چینل کو اس بنا پر سزا دی گئی اور باقیوں کو نہیں دی گئی تو یہ جانبداری کے زمرے میں آ سکتا ہے۔

انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ جب وہ چیئرمین تھے اس وقت پیمرا نے کبھی جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ تاہم ان کے مطابق ’حالیہ پیمرا کے جانبدار ہونے کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ ایک ادارہ جو ان کے چیئرمین بننے سے پہلے سے لائسنس کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہا تھا تو ان کے دور میں اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی، ابصار عالم کا کہنا تھا کہ ’اس وقت بھی کارروائی کی جاتی تھی لیکن جب بھی اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا جاتا تھا تو وہ ادارے عدالتوں میں جا کر حکمِ امتناعی حاصل کر لیتے تھے۔‘

پیمرا کے سابق چیرمین ابصار عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگراں ادارے کے چیئرمین کے پاس ’کوئی اختیارات نہیں ہوتے۔‘

’کسی نشریاتی ادارے کا لائسنس معطل یا منسوخ کرنے کا اختیار اتھارٹی یعنی بورڈ کے 12 ممبران کے پاس ہوتا ہے۔ وہ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘

لاہور ہائی کورٹ نے چینل 24 کی درخواست پر پیمرا کے لائسنس منسوخ کرنے کے حکم کے خلاف حکمِ امتناعی جاری کیا ہے۔ اور وفاق اور پیمرا سے جواب طلب کر رکھا ہے جس پر مزید سماعت آئندہ روز متوقع ہے۔