صحت

چین میں رمڈیسیور نامی دوا کا کورونا کے علاج کے لیے پہلا کلینکل ٹرائل ناکام

Share

کورونا وائرس کے خلاف تیار کردہ ایک ممکنہ دوا کا پہلا کلینکل ٹرائل ناکام ہوگیا ہے۔ رمڈیسیور نامی اس دوا کے حوالے سے بڑے پیمانے پر لوگ پُرامید تھے کہ یہ کووڈ 19 وائرس کا علاج کرنے میں کامیاب ہوگی۔

تاہم عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے حادثاتی طور پر شائع کر دیے جانے والے کچھ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ چین میں کیے گئے اس دوا کے ٹرائل ناکام رہا ہے۔ دستاویز میں لکھا ہوا ہے کہ اس دوا سے نہ تو مریضوں کی حالت میں کوئی بہتری آئی اور نہ ہی اس کے استعمال سے مریض کے خون میں اس وائرس کی مقدار کم ہوئی ہے۔

ادھر اس دوا کو تیار کرنے والی گلیڈ سائنسز نامی امریکی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس دستاویز نے اس ٹرائل کو درست انداز میں پیش نہیں کیا ہے۔

ہمیں اس ٹرائل کے بارے میں کیا معلوم ہے؟

اس ٹرائل کے ناکام ہونے کی خبر اس وقت پھیلی جب عالمی ادارہِ صحت نے اس کی تفصیلات اپنے کلینکل ٹرائل ڈیٹا بیس میں ڈال دی تھی مگر پھر اسے ہٹا دیا گیا۔ ڈبلیو ایچ او نے بعد میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس ٹرائل کو غلطی سے ڈیٹا بیس میں ڈال دیا گیا تھا۔

اس دستاویز میں بتایا گیا کہ محققین نے 237 مریضوں پر یہ دوا دی جس میں سے 158 کو دوا اور 79 کو پلسیبو دیا گیا۔ ایک ماہ کے بعد دوا لینے والوں میں مرنے والوں کا تناسب 13.9 فیصد تھا اور پلسیبو لینے والوں میں مرنے والوں کی شرح 12.8 فیصد۔ اس ٹرائل کو دوا کے منفی اثرات کی وجہ سے روک دیا گیا۔

اس تحقیق کی سمری میں کہا گیا ہے کہ ’رمڈیسیور کا کسی کلینکل یا وائرولوجیکل فوائد سے کویی تعلق نہیں ہے۔‘

امریکہ میں اس دوا کی ناکامی کی خبر کے بعد ملک کی تینوں بڑی سٹاک مارکیٹوں میں مندی دیکھی گئی۔

Biologist with nucleic acids isolated from human samples to be tested for infection with the Covid-19 coronavirus.

دوا بنانے والی کمپنی کا کیا کہا ہے؟

گلیڈ سائنسز نے عالمی ادارہِ صحت کے پوسٹ پر سوال اٹھائے ہیں۔

کمپنی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ اس پوسٹ میں اس تحقیق کو غیر مناسب انداز میں پیش کیا گیا ہے۔‘ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس تحقیق کو وقت سے پہلے اس لیے ختم کیا گیا کیونکہ اس میں رضاکارانہ طور پر شریک ہونے والے مریضوں کی تعداد بہت کم تھی اور یہ شماریاتی طور پر غیر معنی خیز تحقیق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان نتائج پر تو یہ تحقیق ہی غیر نیتیجہ خیز ہے، تاہم ڈیٹا میں ایک رجحان کی طرف اشارہ ہے کہ کہ جن مریضوں کو ابتدائی مراحل میں رمڈیسیور دی گئی ان کے لیے ممکنہ فوائد ہو سکتے ہیں۔‘

تاہم یہ تحقیق رمڈیسیور کے لیے مکمل طور پر سفر کی آخری کڑی نہیں تھی اور اس کے متعدد اور ٹرائل بھی کیے جا رہے ہیں جن سے صورتحال زیادہ واضح ہوگی۔