پاکستان

کراچی:عمارت گرنے سے اموات کی تعداد 16 ہوگئی، مالک کے خلاف مقدمہ درج

Share

کراچی: ناظم آباد کے علاقے گلبہار میں ایک زیر تعمیر عمارت کے ملحقہ 2 عمارتوں پر گرنے سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 16 ہوگئی جبکہ ملبے تلے مزید افراد کے پھنسے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ریسکیو ذرائع نے اموات کی تعداد میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ عمارت کے ملبے سے صبح مزید لاشیں نکال کر عباسی شہید ہسپتال منتقل کی گئیں جبکہ اس حادثے کے باعث 17 افراد زخمی بھی ہوئے۔

 رپورٹ کے مطابق رضویہ سوسائٹی پولیس نے بتایا کہ کثیر المنزلہ عمارت گلبہار-نمبر 1 کی پھول والی گلی میں واقع تھی، عمارت گرنے کے بعد ریسکیو ورکرز نے مشین کی مدد سے لوہے کی سلاخوں کو کاٹ کر زخمیوں اور لاشوں کو ملبے سے نکالا۔

اس ضمن میں حکام نے بتایا کہ مزید جانی و مالی نقصان سے بچنے کے لیے اطراف کی عمارتوں کو بھی خالی کروالیا گیا تھا۔

ریسکیو ورکرز  نے مشین کی مدد سے لوہے کی سلاخوں کو کاٹ کر زخمیوں اور لاشوں کو ملبے سے نکالا
ریسکیو ورکرز نے مشین کی مدد سے لوہے کی سلاخوں کو کاٹ کر زخمیوں اور لاشوں کو ملبے سے نکالا

دوسری جانب علاقہ مکینوں نے میڈیا کو بتایا کہ 5 منزلہ فاطمہ بلڈنگ تقریباً 3 سال قبل تعمیر کی گئی تھی اور اس پر چھٹی منزل تعمیر کی جارہی تھی، عمارت میں 4 خاندان رہائش پذیر تھے۔

ریسکیو حکام کے مطابق بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عمارت کا تعمیراتی ڈھانچہ اور پلر کمزور تھے۔

مقدمہ درج

دوسری جانب پولیس نے گلبہار نمبر1 میں عمارت گرنے سے ہلاکتوں کا مقدمہ منہدم عمارت کے مالک کے خلاف سرکار کی مدعیت میں درج کرلیا۔

مقدمہ رضویہ تھانے میں درج کیا گیا جس کے مطابق واقعے کی اطلاع دوپہر 12 بج کر 25 منٹ پر ملی۔

مزید جانی و مالی نقصان سے بچنے کے لیے اطراف کی عمارتوں کو بھی خالی کروایا گیا
مزید جانی و مالی نقصان سے بچنے کے لیے اطراف کی عمارتوں کو بھی خالی کروایا گیا

ایف آئی آ ر کے مطابق عمارت محمد جاوید خان نامی شخص کی ملکیت ہے جو کنسٹرکشن کا کام کرتا ہے اور مذکورہ گراؤنڈ پلس 4 عمارت بھی اسی نے تعمیر کی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق سرکاری محکموں کے افسران نے بھی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 109، 427، 337، 119 اور 322 کا اطلاق کیا گیا ہے۔

انکوائری کا حکم

ادھر کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے کہا ہے واقعے کی حقیقی وجوہات جانے کے لیے تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور تفتیش کی جائے گی کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے بلڈنگ کے ڈیزائن کی منظوری دی تھی یا نہیں اور جو بھی ملوث پایا گیا اس کے خلاف مجرمانہ مقدمہ بنایا جائے گا۔

ایس بی سی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ عمارت 66 گز کے پلاٹ پر تعمیر کی گئی تھی اور اتنی مختصر سی جگہ پر 5 منزلیں تعمیر کرنے کی باضابطہ اجازت بھی دی گئی تھی لیکن بلڈر نے چھٹی منزل پر بھی تعمیرات کرنی شروع کردی تھی تو ہر ایک کو نظر آرہا تھا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

قبل ازیں سٹی پولیس چیف ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے ڈان کو بتایا کہ پولیس ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دیے جانے کی منتظر ہے جس کے بعد بلڈنگ کے مالک اور دیگرذمہ داران کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 322، 337 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ چونکہ یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے اور اس میں کئی محکمے شامل ہیں اس لیے ہمیں تکنیکی معاونت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔