منتخب تحریریں

کراچی ’’ہجوم سیاست‘‘ کے نرغے میں

Share

بدھ کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو چند ہی لمحے گزرجانے کے بعد کم از کم مجھے تو سمجھ آگئی کہ کراچی سے منتخب ہوئے اراکین کو ان دنوں کیا فکر ستائے جارہی ہے۔اپوزیشن سے کہیں بڑھ کر تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی نشستوں سے اراکین نے کھڑے ہوکر دہائی مچانا شروع کردی کہ کراچی اور حیدرآباد کے بیشتر علاقوں میں بجلی میسر نہیں۔مون سون کا سیزن شروع ہوچکا ہے۔اس موسم میں حبس جان لیوا ہوجاتا ہے۔سندھ کے شہروں اور قصبات میں لیکن اوسطاََ بارہ سے بیس گھنٹوں تک بجلی غائب ہوتی ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی کے علاوہ ایک تشویش ناک مسئلہ یہ بھی اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ بجلی کی فراہمی کے لئے نصب ہوئے کھمبوں میں ’’کرنٹ‘‘ آنا شروع ہوگیا ہے۔اس ضمن میں لگائے کئی ٹرانسفارمر جل چکے ہیں۔انہیں تبدیل کرنے کے لئے صارفین سے ’’چندہ‘‘ جمع کرنے کاحکم ہوتا ہے۔

جنرل مشرف کے زمانے میں ان دنوں عمران حکومت کی معاشی پالیسیوں کو درست سمت پر چلانے کو مامورڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کی ذہانت کراچی الیکٹرک سٹی کارپوریشن(KESC)کو پرائیوٹائز کرنے کے کام آئی۔ معاشی ماہرین ہم عامیوں کو تواتر سے سمجھاتے رہے ہیں کہ حکومت کا کام کاروباری ادارے چلانا نہیں ہوتا۔جس کا کام اس کو ساجھے کے مصداق عوام کو بنیادی سہولتیں پہنچانے والے ادارے بھی لہذا نجی سرمایہ کاروں کو چلانا چاہیے۔ یہ سرمایہ کار طلب او ررسد کی منطق کا احترام کرتے ہوئے ’’سروس‘‘ کا معیار بہتر سے بہتر بنانے کی لگن میں مبتلا رہتے ہیں۔انکے مابین ’’مقابلے‘‘ کی وجہ سے صارفین کو نسبتاََ کم داموں پر معیاری اشیاء یا خدمات کی فراہمی تقریباََ یقینی ہوجاتی ہے۔

مذکورہ دلائل کی بنیاد پر کے ای ایس سی کو پرائیوٹائز کرکے K-Electricبنادیاگیا۔ اس واقعہ کو دس برس گزرچکے ہیں۔نجکاری کے فوری بعد کے چند سالوں کے دوران کراچی میں بجلی وہاں صارفین کو بقیہ ملک کے مقابلے میں کم داموں پر دستیاب رہی۔ اس شہر میں لوڈشیڈنگ عذاب کی صورت مسلط بھی نہیں ہوئی۔ K-Electricمگر بتدریج ایک روایتی اجارہ دار کی طرح صارفین سے بے اعتنائی برتنا شروع ہوگیا۔ اس نے بجلی کی ترسیل کے نظام کو جدید تر بنانے کے لئے کماحقہ سرمایہ کاری سے گریز کیا۔پرانے کھمبوں اور ٹرانسفارمر سے کام چلاتا رہا ۔پیٹرول اور گیس بھی اکثر صورتوں میں وفاقی حکومت سے وہ ’’غندہ ٹیکس‘‘ کی صورت طلب کیا جاتا رہا ۔ اس ضمن میں اگرچہ ٹھوس جواز یہ بھی رہا کہ سرکاری ادارے اپنے بلوں کو بروقت ادا نہیں کرتے۔ ان کے ذمے واجبات کے انبار لگنا شروع ہوگئے۔ دریں اثناء کے -الیکٹرک کے مالکان بھی تبدیل ہونا شروع ہوگئے ۔ یوں گماں ہوا کہ اصل خریدار نے بھاری بھر کم منافع نچوڑنے کے بعد کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی ’’بلا‘‘ کسی اور کے متھے مارنا شروع کردی۔

نج کاری کے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ حامی اپنے ’’نسخے‘‘ کو فروغ دینے کے لئے طلب اور رسد کی منطق پر زوردینے میں مصروف رہتے ہیں۔یہ حقیقت سفاکانہ انداز میں بھلادیتے ہیں کہ سرمایہ کاروںکے مابین مسابقت یعنی Competitionہی صارفین کو معیاری اشیاء یا خدمات نسبتاََ کم داموں پرفراہم کرنے کو یقینی بناسکتی ہے۔جس اندازمیں ہمارے ہاں نج کاری ہوئی اس نے کے-الیکٹرک جیسے اداروں کو فقط اجارہ دار بنایا اور اجارہ دار من مانی کا عادی ہوتا ہے۔صارفین کو اپنا محتاج تصور کرتا ہے۔

اجارہ داری کو قابو میں رکھنے کے لئے ریگولیٹر ہوتے ہیں۔چند خدمات جن میں بجلی کی فراہمی بھی شامل ہے کئی حوالوں سے بنیادی انسانی حقوق میں شمار ہوتی ہیں۔حکومتیں اور خاص کر وہ جنہیں عوام کے ووٹ سے ’’منتخب‘‘ ہونے کا زعم بھی ہو اپنے ملک کے صارفین کو اجارہ داروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑسکتیں۔ انہیں ریگولیٹرز کے ذریعے اجارہ داروں کو لگام ڈالنا ہوتی ہے۔

بدھ کے روز کراچی سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین اسمبلی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر اپنی ہی جماعت کے وزیر توانائی عمر ایوب خان سے ایسی ہی فریاد کرتے رہے۔1988سے ’’کراچی ایم کیو ایم کا‘‘ تصور ہوتا رہا۔جولائی 2018کے انتخابات کے دوران مگر اس کا طلسم ٹوٹتا نظر آیا۔تحریک انصاف نے اس شہر سے 14نشستوں پرکامیابی حاصل کی۔ ان میں سے ایک -جناب عارف علوی- اب ہمارے صدر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ فیصل واوڈا اور علی زیدی جیسے ہمہ وقت متحرک اور بلند ا ٓہنگ وزیر بھی ہیں۔ان کے ساتھی اراکین کو مگر سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اپنے حلقوں میں لوگوں کو مطمئن رکھنے کے لئے کونسے دربار میں پہنچ کر فریاد کریں۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کے نام سے جو ’’نیا ایڈیشن‘‘ مارکیٹ میں آیا تھا وہ ان دنوں عمران حکومت کا ’’اتحادی‘‘ ہے۔اس جماعت کے ایک رکن نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر بدھ کے روز بلکہ یہ دھمکی دی کہ اگر کراچی میں بجلی کی فراہمی اورتر سیل کا نظام یونہی دُگرگوں رہا تو موصوف کی جماعت کراچی کے شہریوں کو ایک ہجوم کی صورت جمع کرکے اسلام آباد لانے کو مجبور ہوجائے گی۔

بجلی کے وزیر جناب عمر ایوب مگر مرعوب نہیں ہوئے۔ انہوںنے اقرار کیاکہ کے-الیکٹرک کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔وفاقی حکومت اس کی بہتری میں حصہ ڈالنے کو دل وجان سے آمادہ ہے۔صورتحال کو بہتر ہونے میں لیکن وقت درکار ہے۔صبر کا دامن لہٰذا ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔بجلی کے حوالے سے اپنے اراکین کو صبر کا مشورہ دینے کے بعد عمر ایوب صاحب نے سندھ حکومت کے لتے لینا شروع کردئیے۔ اصرار کیا کہ ذرا سی بارش ہو تو کراچی میں گٹر اُبلنا شروع ہوجاتے ہیں۔اس شہر میں کچرے کے ڈھیر بھی لگے رہتے ہیں۔سندھ حکومت ان مسائل پر لیکن نگاہ ہی نہیں ڈالتی۔

سندھ حکومت کے لتے لینے کے بعد عمر ایوب تحریک انصاف کے اس بیانیے کو بھی شدومد سے دہرانا شروع ہوگئے جس کے مطابق 2008سے 2018تک قائم ہوئی حکومتیں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل تھیں۔انہوں نے وطنِ عزیز میں ’’گورننس‘‘ کا نظام تباہ وبرباد کردیا۔عمران حکومت کو ماضی میں سرزد ہوئی خطائوں کا بوجھ اٹھانا پڑرہا ہے۔وہ خندہ پیشانی سے اسے برداشت کررہی ہے۔ذرا صبر کریں۔بالآخر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت دیانت دار ہے۔اس کاسوچا سمجھا ’’وژن‘‘ ہے۔وہ اس کے مطابق ملک سنوارنے کی کاوشوں میں ڈٹی ہوئی ہے۔ عمر ایوب ہرگز اندازہ نہ لگاپائے کہ ان کا رویہ کراچی میں تحریک انصاف کے ’’ووٹ بینک‘‘ کے ساتھ کیا گل کھلائے گا۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کے اراکین بھی اس ضمن میں ہکا بکا دکھائی دئیے۔

جولائی 2018کے انتخابا ت کے ذریعے قائم ہوئی قومی اسمبلی ایک مردہ گھوڑے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ہمارے عوام کی اکثریت یہ طے کربیٹھی ہے کہ مذکورہ ایوان میں ان کے حقیقی مسائل کا ذکر ہی نہیں ہوتا۔ان کے ازالے کے لئے سوچ بچار بہت دور کی بات ہے۔عمران حکومت ہی نہیں بلکہ اپوزیشن اراکین کی اکثریت کو بھی لیکن اس ایوان کی ’’بے وقعتی‘‘ کا کماحقہ ادراک نہیں ہے۔

آبادی کے اعتبار سے کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔یہ شہر اس ملک میں چلائی کئی احتجاجی تحاریک کا مرکز بھی رہا ہے۔اس شہر کے احتجاجی مزاج ہی نے بالآخر ایم کیو ایم جیسی تنظیم پیدا کی۔اس نے مذکورہ شہر کی اجارہ دار ہونے کی کوشش کی تو نسلی اور مذہبی بنیادوں پر دیگر انتہاپسند تنظیمیں بھی منظرعام پر آگئیں۔ کئی برسوں تک یہ محسوس ہوتا رہا جیسے یہ شہر جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ریاستِ پاکستان ان کے روبرو بے بس نظر آئے۔ 2016سے مگر ریاستی اداروں نے اپنے اختیار کو اجاگر کرنا شروع کردیا۔ بالآخر جولائی 2018کے انتخابات کے بعد اُمید یہ بھی بندھی کہ عمران خان صاحب کے ’’نیا پاکستان‘‘ میں کراچی بھی ’’نیا‘‘ ہوجائے گا۔یہ امید مگر اب دم توڑتی نظر آرہی ہے۔

کروناکے معاشی اثرات نے پاکستان کے’’کاروباری مرکز‘‘ میں ہزاروں لوگوں کو بے روزگار بنادیا ہے۔کے-الیکٹرک کی وجہ سے اب کم آمدنی والوں اور متوسط طبقات کے دلوں میں بھی غصہ اُبلنا شروع ہوگیا ہے۔حکومت اوردیگر سیاسی جماعتیں تیزی سے اُبھرتے ہیجان وغصے کا اگر بروقت ادراک نہ کرپائیں تو اس شہر کے کئی مقامات ’’ہجوم کی سیاست‘‘ کے نرغے میں آجائیں گے۔خلفشار وانتشار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

حال کے حقیقی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے علی زیدی صاحب کی مہربانی سے مگر ہمارے میڈیا کو یہ طے کرنے کا فریضہ سونپ دیا گیا کہ وہ عوام کو بتائے کہ عزیر بلوچ کے حوالے سے کونسی JITرپورٹ ’’مستند‘‘ ہے۔ماضی کے گڑھے مردے اکھاڑے جارہے ہیں۔ بالآخر یہ مگر کسی کام نہیں آئیں گے۔