نقطہ نظر

کرونا وائرس اور پاکستان

Share
“میمونہ صدف”

 کرونا وائرس کاآغاز چین کے شہر واہان سے ہوا۔ چین میں ہر قسم کا گوشت کھایا اور بیچا جاتا ہے خصوصا سانپ اور چمگادڑ کا گوشت چین کے لوگوں کا پسندیدہ رہا ہے۔ وہان میں گوشت کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جس میں زندہ چمگادڑیں سانپ چوہے وغیرہ خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔ زندہ چمگادڑیں اور سانپ ایک ہی جگہ رکھنے سے یہ وائرس پیدا ہوا۔اس وائرس کے پھیلتے ہی وہان شہر میں متعداد اموات واقع ہوئیں اوراسے دیگر علاقوں سے کاٹ دیا گیالیکن اس کے باوجود یہ وائرس ادر گرد کے علاقوں میں پھیلنے لگا۔ پوری دنیا میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 114000 جبکہ صرف متاثرہ لوگوں کی تعداد 80761 تک پہنچ گئی جبکہ اموات کی تعداد 3136 جبکہ کل 60113 افراد اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو پائے۔ اس وائرس سے شرح اموات 3.4% فی صد ہے۔اور چودہ دن کے اندر انسانی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چین سے پھوٹنے والی یہ وبا اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔ مختلف ممالک میں اس وائرس سے جا بحق ہونے والوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وائرس سے بچاؤ کی تاحال کوئی ویکسین یا دوا دریافت نہیں ہوئی۔ صرف چند احتیاطی تدابیروضع کی گئی جو اس وائرس کے حملے سے انسان کو بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
اس وائرس سے بچاؤکے لیے وضع کیے گئے طریقہ کار میں بار بار ہاتھ دھونا۔ماسک یا نقاب پہننا صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنا جبکہ صرف صاف اور صحت مندجانور کا گوشت کھانا خصوصا زہریلے جانوروں کے گوشت کے استعمال سے گریز کرنا شامل ہیں۔جہاں اس وباء نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہاں ایران کی جانب سے آنے والے زائرین میں اس وائرس کا پازیٹو ہونا خطرے کی علامت ہے۔ پاکستان میں کل 142 افراد کوکرونا وائرس کے لیے ٹیسٹ کیا گیا۔ 16 سے 18 افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی جن میں سے 13 افراد کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے جبکہ دیگر کا تعلق اسلام آباد پنڈی اور گلگت بلدستان سے ہے۔ صحت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے مرتضی وہاب کے مطابق ایک شخص کرونا وائرس سے صحت یاب ہوا۔
اگرچہ کرونا وائرس ماضی میں پھوٹنے والی وباؤں جن میں شرح اموات سارس 9.6 فی صد میرز 34 فی صد رہی ان کی نسبت کم خطرناک ہے تاہم یہ وائیرس کم و بیش پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کے باعث اب چین کے بعد اٹلی نے بھی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔کرونا وائرس کا شکار ہونے والوں میں ایرانی وزارت صحت کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی ایران سے آنے والے زائرین کی سکینگ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
کرونا وائیرس کے پھیلاؤ نے پوری دنیا میں خوف وہراس کی فضا پیدا کر دی ہے۔دنیا کے مختلف علاقوں میں نقل و حرکت پر پابندی نے جہاں ممالک کی معاشیات پر برے اثرات مرتب کیے ہیں سٹاک مارکیٹس مندی کا شکار ہوئیں کئی ممالک کی معاشیات پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے تو دوسری جانب بڑی تعداد میں سکول کالج اور یونیورسٹیوں کو نامعلوم وقت تک کے لیے بند کر دیا گیا۔ پوری دنیا کے کم و بیش 300 ملین بچے سکولوں کی بندشوں کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پا رہے۔
پاکستان میں کرونا وائرس کو لے کر دو طرح کی غیر ذمہ داریاں دیکھنے میں آئی ہیں جس میں ایک انتہائی غیر ذمہ داری یہ تھی کہ پاکستان میں جب اس وباء کے خدشے کے پیش ِ نظر ماسک کا استعمال آم ہوا اور اس کی خریداری میں اضافہ دیکھنے میں آیا تو ماسککوبے انتہا مہنگا کر دیا گیاکئی جگہوں پر ماسک ناپید بھی ہو گئے۔ماسک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر  بروقت حکومتی اقدامات کی وجہ سے قابو پا لیا گیا۔ خصوصا اسلام آباد انتظامیہ نے بروقت کاروائی کرکے علاقہ میں مہنگے داموں ماسک فروخت کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کروائے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ماسک کی قیمتوں میں اضافے پر فوری قابو پا لیا گیا۔
دوسری جانب عوام نے سوشل میڈیا بجائے علمی یا تحقیقاتی رپورٹس پر بات کرنے کے اس وائرس کو لے کر بے تحاشا مذاق اڑایا گیا۔ یہ دونوں واقعات ہمارے معاشرے کے بدترین چہرے کے غماز ہیں۔ ایک جانب تو معاشرے میں پنپتی بے حسی جو کہ بیماری اور ایمرجنسی حالت میں بھی قائم و دائم رہی۔ ماسک کے مہنگا کر دی جانے کی صورت میں دیکھائی دی تو  دوسری طرف بجائے اس کے کہ وہ وائرس جس نے دنیا بھرمیں خوف وہراس پھیلایا اور کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کو سنجیدگی سے لیا جاتا انسانی المیہ کو مذاق میں اڑا دیا گیا۔یہ دونوں ایسے واقعات ہیں جو ہمارے معاشرے میں دم توڑتی انسانیت کے مظہر ہیں۔واضع رہے کہ معاشرے انسانیت کی بنیاد پر مضبوط یا کمزور ہوا کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
 ورنہ طاعت کے لیے کم نہ تھے کرو بیاں  
 اگر دوسروں کی تکلیف محسوس کرنے کا صفت انسان سے نکال دی جائے تو وہ انسانیت کی صف سے نکل کر حیوانیت کی صف میں جا کھڑا ہوتا ہے۔ماسک کے مہنگا کردینے اور انسانی المیہ کو مذاق میں اڑا دینے سے ہمارے معاشرے کی زوال پذیری اور بے حسی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے برعکس اسلام انسانیت کو فروغ دیتا ہے اور انسانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ 
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسلام دین فطرت ہے جو کھانے کے لیے صرف حلال اور پاک گوشت کے استعمال کو لازم قرار دیتا ہے جبکہ حرام اور خطرناک جانوروں کے گوشت کو ممنوع قرار دیا۔ اگر کھانے پینے میں احتیاط کی جائے تو سارس اور کرونا وائرس جیسی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہی نہ رہے۔دوسری جانب  اس کی احتیاطی تدابیر میں بار بار ہاتھ دھونا ناک میں پانی ڈالنا مذہب اسلام میں وضو کرنے سے مطابقت رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص دن میں پانچ بار وضو کرتا ہے تو یہ ہاتھ دھونے اور ناک میں پانی ڈالنے کی  ایک مناسب تعداد ہے جو کہ انسان کو کسی بھی مہلک بیماری سے بچائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
وبا ء کے پھوٹنے کے بارے میں بھی اسلام واضع احکام دیتا ہے۔حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر تمھیں علم ہو جائے کہ کسی علاقہ میں وبائپھوٹ پڑی ہے تو اس علاقہ میں مت جاؤ اور اگر جس علاقہ میں تم رہتے ہو وہاں وباء پھوٹ پڑے تو وہ علاقہ نہ چھوڑو۔ صحیح بخاری 5789 اور صحیح مسلم 2219 الغرض یہ کہ اسلام ہر طرح کے حالات کے لیے انسان کی بہترین راہنمائی کرتا ہے۔اسلام دین ِ فطرت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کو اپنی زندگیوں پر نافذ کرنا بے حد آسان ہے۔اگر اسلام کواپنی زندگیوں پر نافذ کیا جائے توانسان بہت سی بیماریوں سے بچ سکتا ہے اور اگر بیماری وباء کی صورت میں پھیل جائے تو بھی اسلام کے واضع احکامات موجود ہیں۔