پاکستان

کورونا وائرس نے ’بظاہر‘ پاکستان میں وبا کی صورت اختیار نہیں کی، سپریم کورٹ کا شاپنگ مالز کھولنے کا حکم

Share

سپریم کورٹ نے پاکستان بھر میں شاپنگ مالز کو کھولنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ ہفتے اور اتوار کے روز بھی چھوٹی مارکیٹیں کھلی رہیں گی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ دو دن کاروبار بند رکھنے کا حکم آئین کی شق چار, 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پیر کے روز کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ کیا حکومتیں ہفتے اور اتوار کو تھک جاتی ہیں اور یا پھر کورونا نے حکومت سے کوئی معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہفتہ اور اتوار کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں پھیلے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہفتہ اور اتوار کے روز سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوتا ہے؟

عدالت کا کہنا ہے کہ کورونا کے حوالے سے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کروانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، ایس او پیز پر عملدرآمد کروانا ہے لوگوں کو ڈرانا نہیں ہے۔

سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ پاکستان ایسا ملک نہیں جو بظاہر کورونا وائرس سے زیادہ بری طرح متاثر ہو۔ عدالت نے سیکریٹری صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس نے بظاہر پاکستان میں وبا کی صورت اختیار نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاکھوں افراد کے مالی حالات ایسے ہیں کہ وہ صرف عید پر ہی نئے کپڑے سلواتے ہیں لہذا ان کی خواہشات کا بھی احترام کرنا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا کہ دکانداروں کو نہ تو ڈرانا ہے اور نہ ہی ان سے رشوت لینی ہے۔

بینچ کے سربراہ کے استفسار پر کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ چھوٹی مارکیٹیں کھلی ہیں جبکہ شاپنگ مالز بند ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا زینب مارکیٹ، طارق روڈ اور صدر کی مارکیٹ کے علاوہ راولپنڈی کا راجہ بازار چھوٹی مارکیٹیں ہیں۔

کپڑے

بینچ کے سربراہ نے کراچی کے کمشنر سے استفسار کیا کہ کچھ مارکیٹوں کو کیوں بند کیا گیا جس پر کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ ان مارکیٹوں نے ایس او پیز کی پاسداری نہیں کی تھی جس پر اُنھیں بند کر دیا گیا۔ عدالت نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ جن مارکیٹوں اور دکانوں کو سیل کیا گیا ہے ان کو دوبارہ کھول دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو چھوٹے تاجر کورونا کی بجائے بھوک سے مر جائیں گے۔

سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مارکیٹیں کھولنے سے متلعق صوبائی حکومت محکمہ صحت سے مشاورت کرے گی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ محکمہ صحت مارکیٹیں کھولنے کے حوالے سے کوئی غیر ضروری رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔

بینچ میں موجود جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دوسری مارکیٹیں کھولنے کی اجازت دینا اور شاپنگ مالز کو بند رکھنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔

صوبہ پنجاب کے ایڈشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے آج سے ہی شاپنگ مالز کھول دیے جائیں گے۔

سماعت کے دوران قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے یعنی این ڈی ایم اے کے ممبر نے چیف جسٹس کے استفسار پر عدالت کو بتایا کہ اُنھیں حکومت کی طرف سے 25 ارب روپے کی رقم فراہم کی گئی ہے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ صوبوں کو بھی اربوں روے دیے گئے ہیں اور احساس پروگرام اس سے الگ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 500 ارب روپے مریضوں پر خرچ کیے جا رہے ہیں، اس سے تو اب تک کورونا کے جتنے بھی مریض آئے ہیں ان میں ہر مریض پر تو کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہوں گے۔

پاکستان

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اتنا پیسہ کہاں خرچ کیا جا رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر اتنی رقم لگانے کے بعد بھی 700 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پیسہ ایسی جگہ پر چلا گیا ہے جہاں ضرورت مندوں کو نہیں مل سکتا۔

چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کے ممبر سے استفسار کیا کہ کورونا کے ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کا کیا جواز ہے جس پر این ڈی ایم اے کے ممبر کا کہنا تھا کہ یہ رقم میڈیکل آلات، کٹس اور قرنطینہ مراکز پر خرچ ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کورونا پاکستان میں اس لیے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کر لے جائے۔

بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں کورونا پر قابو پانے کے لیے پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ نہیں کیا جا رہا۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں کورونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔

عدالت نے سیکریٹری صحت کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال پولن الرجی سے ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر بیماریوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کورونا سے زیادہ ہے۔

عدالت نے کورونا وائرس پر قابو پانے سے متعلق این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور این ڈی ایم اے کے ممبر کو چیئرمین سے دوبارہ ہدایات لے کر رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

سماعت کے بعد جاری کیے گئے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کورونا کے علاوہ دیگر بیماریوں اورملک کو درپیش مسائل پر بھی توجہ دے اور کورونا وائرس کی وجہ سے پورا ملک بند نہ کیا جائے۔

اس از خود نوٹس کی سماعت اب 19 مئی کو ہو گی۔