کالم

کیا آفت زدہ کراچی کی پکار خلا میں تحلیل ہو جائے گی؟

Share

یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے لکھے گئے کالموں میں بہت سے اہم پہلووں کا احاطہ نہیں ہو سکا۔ مجھے ان کالموں پر بہت ذیادہ فیڈ بیک ملا۔ اکثریت نے میرے موقف کی تائید کی۔ کئی نے اس موقف کے حق میں اضافی دلائل دئیے۔ کچھ اساتذہ نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یکساں نصاب تعلیم، ایک ایسا تصور ہے جو سطحی طور پر تو اچھا لگتا ہے لیکن اس کا ہمارے زمینی حقائق سے کچھ تعلق واسطہ نہیں۔ چترال سے ایک صاحب نے کہا کہ وہاں صرف دو دینی مدارس تھے وہ بھی حکومتی تحویل میں جا چکے ہیں جہاں سرکاری اساتذہ، سرکاری نصاب کے مطابق تعلیم دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ چترال میں تعلیم کی شرح بہت اچھی ہے اور اسے تعلیمی لحاظ سے پسماندہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ سن بہت خوشی ہوئی۔ میں نے چترال کا ذکر تعلیمی پسماندگی، مدارس یا نصاب کے حوالے سے نہیں، صرف ایک دور افتادہ مقام ہونے کے حوالے سے کیا تھا۔ میرا مقصد یہ بتانا تھا کہ جو نصاب ہم بڑے شہروں کے بڑے نام والے اداروں کیلئے تجویز کر رہے ہیں وہ نصاب نہایت پسماندہ اور دور درازکے دیہات و قصبات میں جا کر کیا وہی نتائج دے گا جو لاہور، کراچی، اور اسلام آباد جیسے شہروں میں دے گا؟ بہرحال یہ موضوع میڈیا کی اصطلاح میں ایک ” داستان جاریہ” (developing story) ہے جس پر بات ہوتی رہے گی۔ اس موضوع پر نہایت اچھے کالم، مضامین اور تجزیاتی مقالے سامنے آرہے ہیں۔ اگر حکومت نے کوئی نظم قائم کر رکھا ہے تو وہ یقینا ان سے استفادہ کرئے گی اور اپنے منصوبے کو ذیادہ بہتر اور با مقصد بنانے کی کوشش کرئے گی۔
ادھر کرونا کی وبا کے خاتمے یا کمزور پڑجانے کے ساتھ ہی معمول سے کہیں ذیادہ بارشوں نے ہمیں ایک نئی آفت کے طور پر آ لیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا شہر کراچی تو جیسے پورے کا پورا زیر آب آگیا ہے۔ ہمارے ہاں اس طرح کی قدرتی آفات میں بھی سیاست گھس آتی ہے اور الزامات کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے اس لئے کراچی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ لیڈر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کراچی کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔ آفت زدہ شہر کو اپنی اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں اور اپنے اپنے موقف کے مطابق بیانات جاری کر رہے ہیں۔ لیکن مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس بارے میں کچھ ذیادہ سننے کو نہیں ملتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی بڑے اور گنجان آباد شہر میں اتنی بارشیں ہوں تو سیلابی کیفیت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے پانی کی نکاسی کی جدید ٹیکنالوجی کے باعث وہ تالاب بن جانے والے گلی کوچوں کو جلدی صاف کر لیتے ہوں، لیکن ایسا ہر گز نہیں کہ وہاں مسائل پیدا نہیں ہوتے۔دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مسائل پیدا ہو تے ہیں۔ کاروبار حیات معطل ہو تا ہے۔اسکے بعد حالات معمول پر آ جاتے ہیں۔
غیر معمولی بارشوں سے صرف کراچی ہی نہیں بلوچستان کے بہت سے علاقے بھی متاثر ہیں جہاں سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی ہے۔ سندھ کے گوٹھوں گاوں کا بھی یہی حال ہے اور حیدر آباد بھی کراچی جیسا منظر پیش کر رہا ہے۔ لاہور میں کراچی جتنی بارش ہو جائے تو کم و بیش یہی کیفیت ہو گی۔ خیبر پختونخواہ ہماری خبروں میں ذیادہ جگہ پا رہا۔ لیکن وہاں بھی سب اچھا نہیں ہے۔ وہاں بھی سیلاب جیسی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بھی سیلاب کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ برسوں سے ہو رہا ہے۔ ہر حکومت کے دور میں ہوتا رہا ہے اور پر حکومت اپنے اپنے انداز میں ان مسائل سے نبٹتی رہی ہے۔ موجودہ حکومت بھی یقینا کچھ نہ کچھ کر رہی ہو گی لیکن کراچی کے حوالے سے ایک اور مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ وہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جب کہ وفاق یا مرکز میں تحریک انصاف کی۔ دونوں حکومتوں کے درمیان اچھے تعلقات کار نہیں۔ بلکہ اکثر بیان بازی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہی باہمی سیاسی چپقلش اور مقابلے بازی مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اب جبکہ عمران خان خود کراچی جا رہے ہیں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے بارے میں اپنی سوچ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، کراچی کے مسائل کے حل کیلئے کوئی جامع پلان پیش کریں گے۔ اچھی بات تو یہ ہو گی کہ پیپلز پارٹی کو، جو سندھ کے عوام کا مینڈیٹ رکھتی ہے، پوری طرح اعتماد میں لیا جائے اور جو بھی حکمت عملی بنے اتفاق رائے سے بنے۔ تاہم اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ اخباری خبروں سے یوں لگتا ہے جیسے وفاقی حکومت فنڈز کا استعمال اپنے متعین کردہ گورنر کے ذریعے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ تاکہ عوام کی نظر میں اپنی سیاسی اہمیت بڑھائی جا سکے۔ قانونی یا آئینی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے، قومی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ ہم آہنگی کے ساتھ مسائل پر قابو پانے کی کوششیں ہوں۔ذاتی تشہیر اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے اور بہت سے مواقع میسر ہیں۔ تاہم اس آفت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی نہایت اہم شہر ہے۔ ملکی معیشت میں ایک بڑا حصہ دار ہے۔اس کے حالات کار معیشت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔اگرچہ پورا ملک سیلاب کے خطرے سے دوچار ہے لیکن سچ یہ ہے کہ کراچی کی اہمیت کہیں ذیادہ ہے۔ ان بارشوں سے صرف وہاں کے رہائشیوں کے لئے مسائل پیدا نہیں ہوئے، کئی گودام بھی زیر آب آگئے ہیں جن میں کروڑوں یا شاید اربوں کا خام مال پڑا ہوا تھا۔ صنعتی یونٹس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ تاجر بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہ وہ معاملات یا مسائل ہیں جن کے دور رس نتائج ابھی سامنے آئیں گے۔ پانی اتر جانے سے مسئلہ حل نہیں ہو جائے گا۔ صوبائی حکومت نے اسے آفت زدہ شہر قرار دے دیا ہے لیکن اس کے اور بھی نتائج سامنے آئیں گے۔ صوبائی اور وفاقی سطح کے ٹیکسوں اور محصولات میں بھی شدید کمی آئے گی۔ ہماری معیشت پہلے ہی بہت کمزور ہو گئی تھی۔ کرونا نے اسے مزید کمزور کر دیا ہے۔ اب بارشوں اور سیلابی ریلوں نے معیشت کے لئے نئے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ایسے مواقع پر کو شش کی جاتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہو جائیں۔ کندھے سے کندھا ملا کر عوام کو مشکلات سے نکالیں۔ لیکن پاکستان میں یہ منظر دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کی ذمہ داری خواہ جس پر بھی ڈالیں، یہ صورتحال وقت کی آواز اور عوام کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ جمہوریت کی مسلمہ روایات کے مطابق اس طرح کے اشتراک عمل اور ہم آہنگی کے لئے پہل حکومت کی طرف سے ہونی چاہیے۔ لیکن بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ یقینا اس صورتحال کو افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ آفت زدہ کراچی کی پکار شاید خلا ہی میں تحلیل ہو جائے۔