صحت

گائے کا دودھ یا اس کا کوئی متبادل، بہتر کیا ہے؟

Share

انسان کا اس سفید مائع سے ایک غیرمعمولی تعلق ہے جسے دودھ کہا جاتا ہے۔

انسان دنیا میں کسی دوسری مخلوق کا باقاعدگی سے دودھ پینے والا واحد جاندار ہے۔ دیگر جانور شیرخواری کے زمانے کے بعد جب کمسنی میں ٹھوس خوراک کھانا شروع کرتے ہیں تو دودھ پینا ترک کر دیتے ہیں لیکن انسان بعد میں بھی دودھ کیوں پیتا رہتا ہے؟

ان علاقوں میں رہنے والے انسانوں نے جہاں گائے کو ایک پالتو جانور کے طور پر سِدھا لیا گیا ہے، یعنی جنوبی ایشیا سے لے کر یورپ تک کےعلاقوں میں، دودھ میں پائی جانے والی شکر (لیکٹوز) کو ہضم کرنے کی صلاحیت دس ہزار سال پہلے پیدا کر لی تھی۔

اس کے نتیجے میں دنیا کی تقریباً 30 فیصد آبادی لیکٹوز پیدا کر رہی ہے، یعنی وہ کیمیائی خمیرہ جو انسان میں جوان ہونے کے بعد بھی دودھ کو ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے۔

باقیوں میں یہ صلاحیت عمر بڑھنے کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے اور پھر بہت سارے لوگوں کا جسم لیکٹوز کو برداشت نہیں کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ افریقہ کے چند علاقوں، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی آبادی سمیت یورپی ممالک میں بھی باقاعدگی سے دودھ پینے والوں کا شمار اقلیت میں ہے نہ کر اکثریت میں۔

امریکہ میں آباد یورپی نسل کے لوگوں میں صرف نو فیصد لیکٹوز کو برداشت نہیں کر پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو لیکٹوز کو ہضم کر سکتے ہیں، دودھ کا استعمال کم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے کچھ دیگر خدشات بھی ہیں جیسے کہ اپنی صحت اور کھیت میں رہنے والے جانور کی ماحولیاتی قیمت، جو دودھ کا ڈیری سے پاک متبادل تلاش کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

لیکن کیا گائے کے دودھ کا اس کے متبادل کے لیے استعمال ترک کرنے کے ہماری صحت کے لیے فوائد ہیں یا کیا گائے کا دودھ ہمیں کچھ ایسی غذائیت والے اجزا دیتا ہے جو ہمیں کہیں اور سے نہیں مل سکتے، اور کیا دودھ اکثر لوگوں کے جسم میں لیکٹوز کے لیے عدم برداشت کو مزید بڑھاتا ہے؟

دودھ
کیا دودھ اکثر لوگوں کے جسم میں لیکٹوز کے لیے عدم برداشت کو مزید بڑھاتا ہے؟

گائے کا دودھ پروٹین اور کیلشیئم کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن بی 12 اور آیوڈین سمیت کئی اہم اجزا بھی اس سے حاصل ہوتے ہیں۔

اس میں میگنیشیم بھی ہوتا ہے جو ہڈیوں کی نشوونما اور پٹھوں کی فعالیت کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کےعلاوہ اس میں وہ پنیری مادہ اور آبِ شیر بھی ہوتا ہے جس کا خون دباؤ کا دباؤ کم کرنے میں کردار ہوتا ہے۔

برطانیہ کے صحت کے ادارے، نیشنل ہیلتھ سروس ایک برس سے لے کر تین برس کے بچوں کو 350 ملی گرام کیلشیئم دینے کی ہدایت کرتا ہے، جو کہ ایک پاؤ دودھ کے برابر بنتا ہے، تاکہ ان کی ہڈیوں کی صحیح نشوونما ہو سکے۔

تاہم جب بالغ افراد کا معاملہ آتا ہے تو مختلف تحقیقات و تجزیے سے انسانی ہڈیوں کی صحت برقرار رکھنے کے سلسلے میں گائے کے دودھ کے اثرات پر متضاد نتائج سامنے آتے ہیں۔

اگرچہ صحت مند ہڈیوں کے لیے کیلشیئم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس بارے میں تحقیقات غیر واضح ہیں کہ اس سے بھرپور غذا ہڈیوں کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھتی ہے۔

کئی تحقیقات کے ذریعے پتا چلا ہے کہ دودھ پینے کا ہڈیوں کی مضبوطی سے کوئی واضح تعلق نہیں ہے جبکہ چند دیگر تحقیقات تو یہ بتاتی ہیں کہ دودھ پینے والوں میں ہڈی ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

سویڈن میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جو عورتیں دن بھر میں 200 ملی لیٹر دودھ، یعنی ایک گلاس دودھ، پیتی تھیں ان میں ہڈی ٹوٹنے کا زیادہ خطرہ تھا۔

تاہم یہ تحقیق مشاہداتی قسم کی تھی، اس لیے محققین نے اس تحقیق سے کسی بھی قسم کے مبالغہ آمیز نتائج نکالنے سے خبردار کیا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کی ہڈیاں زیادہ ٹوٹتی ہوں وہ زیادہ دودھ پیتے ہوں۔

یونیورسٹی آف ریڈنگ کی فوڈ چین میں غذائیت کے بارے میں محقق، این گِون کہتے ہیں کہ سنِ بلوغت میں ہماری ہڈیوں کی نشوونما کے لیے کیلشیئم کا بہت بنیادی کردار ہوتا ہے۔

گون کا کہنا ہے کہ ’اگر بلوغت کی عمر سے پہلے آپ کی ہڈیوں کی درست نشوونما نہیں ہوئی ہے تو زندگی کے آنے والے برسوں میں آپ کمزور ہڈیوں کے خطرے کا شکار ہوں گے، خاص کر عورتیں اپنی ماہواری کے ختم ہو جانے کے بعد کیونکہ اس عمر میں وہ آسٹروجین سے استفادہ نہیں کر سکیں گی۔‘

دودھ
یونیورسٹی آف ریڈنگ کی فوڈ چین میں غذائیت کے بارے میں محقق، این گِون کہتے ہیں کہ سنِ بلوغت میں ہماری ہڈیوں کی نشوونما کے لیے کیلشیئم کا بہت بنیادی کردار ہوتا ہے

صحت کے بارے میں تشویش

گذشتہ چند دہائیوں سے جو تشویش پیدا ہوئی ہے وہ ان ہارمونز کے بارے میں ہے جو ہم گائے کے دودھ میں پیتے ہیں۔ گائے کا دودھ اس وقت بھی دوہا جاتا ہے جب وہ حاملہ ہوتی ہیں، اُس وقت ان کے آسٹروجین کی سطح 20 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

اگرچہ ایک تحقیق آسٹروجین کے اس اضافے کو سینے، بیضہ دانی اور بچہ دانی کے کینسر سے جوڑتی ہے تاہم لارا ہرننڈیز جو امریکہ میں یونیورسٹی آف وِسکانسن میں لیکٹیشن بیالوجی پر تحقیق کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ گائے کے دودھ کے ہارمونز کا انسانی جسم میں داخل ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آخر ’انسانی دودھ میں بھی ہارمونز ہوتے ہیں، یہ تو دودھ دینے والی تمام مخلوقات میں ہوتے ہیں۔‘

آسٹروجین کے انسانی جسم پر اثرات کے بارے میں تحقیقات کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ جتنی مقدار میں یہ دودھ کے ذریعے پی جاتی ہے اس کا انسانی صحت ہر کوئی مضر اثر نہیں ہوتا ہے۔

محققین کو یہ معلوم ہوا کہ آسٹروجین کا چوہوں کے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر اس وقت اثر ہوا جب انھیں گائے کے دودھ میں موجود آسٹروجین کی مقدار سے سو گنا زیادہ آسٹروجین دی گئی اور چوہیوں میں آسٹروجین کی زیادہ مقدار اور چوہوں میں ٹیسٹیرون (فوطیرون) کی مقدار میں کمی اس وقت دیکھی گئی جب ان کو معمول کی خوراک کی نسبت ایک ہزار گنا زیادہ آسٹروجین والی خوراک دی گئی۔

سلووینیا کی یونیورسٹی آف لوبلیجانا میں جانوروں کے جنین کے مطالعے کے مرکز سے وابستہ گریگور ماجدیک کہتے ہیں کہ اس بات کا بہت ہی کم امکان ہے کہ چوہوں کی نسبت انسان آسٹروجین کی ایک ہزار گنا زیادہ مقدار سے متاثر ہو سکے۔

دودھ
‘وہ گروپ جس کے ارکان سب سے زیادہ یعنی روزانہ ایک لیٹر دودھ پیتے تھے، ان میں دل کے کسی مرض کا زیادہ خطرہ تھا’

تحقیقات سے دودھ کے پینے کی مقدار اور امراضِ قلب کا ایک تعلق بھی معلوم ہوا ہے کیونکہ دودھ میں سیچوریڈ یا لبریز چکنائی موجود ہوتی ہے لیکن عام دودھ میں ایسی چکنائی کی شرح صرف 3.5 فیصد ہوتی ہے، سیمی سکمڈ دودھ میں یہ 1.5 فیصد ہوتی ہے اور سکمڈ دودھ میں صرف 0.3 فیصد ہوتی ہے۔ جبکہ سویا، بادام، حشیش، ناریل، جو اور چاول سے تیار کردہ دودھ میں گائے کے دودھ سے بھی کم چکنائی ہوتی ہے۔

ایک تحقیق میں محققین نے شرکا کو دودھ پینے کی مقدار کے لحاظ سے چار حصوں تقسیم کیا۔ انھیں پتا چلا کہ وہ گروپ جس کے ارکان سب سے زیادہ یعنی روزانہ ایک لیٹر دودھ پیتے تھے، ان میں دل کے کسی مرض کا زیادہ خطرہ تھا۔

یونیورسٹی آف ایسٹرن فن لینڈ سے وابستہ غذائی وبائیات کی ماہر جِرکیا وِرتانن کہتے ہیں کہ اس تعلق کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو لوگ زیادہ دودھ پیتے تھے ان کی خوراک صحت مندانہ نہیں تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’صرف بہت زیادہ دودھ کا استعمال برا ہوسکتا ہے، لیکن اس بارے میں بھی کوئی تحقیق موجود نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ میانی مقدار میں دودھ پینا مضرِ صحت ہو سکتا ہے۔‘

یہ بھی ممکن ہے کہ لیکٹوز کیلیے عدم برداشت بھی گائے کے دودھ کے کم استعمال کی وجہ ہو۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مضرِصحت علامتیں (دودھ کی وجہ سے سوجن، پیٹ میں ٹیسیں اٹھنا) جسم میں لیکٹوز کے خلاف ایک مزاحمت کا عمل ہے، اور ہر فرد اس طرح مزاحمت کی ایک اپنی اپنی سطح ہوتی ہے۔

دودھ
یونیورسٹی آف ایسٹرن فن لینڈ سے وابستہ غذائی وبائیات کی ماہر جِرکیا وِرتانن کہتے ہیں کہ اس تعلق کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو لوگ زیادہ دودھ پیتے تھے ان کی خوراک صحت مندانہ نہیں تھی

کیلیفورنیا میں سٹینفرڈ پریوینشن ریسرچ سینٹر میں غذائیت کے محقق کرسٹوفر گارڈنر نے مختلف افراد کی لیکٹوز کے عدم برداشت، مزاحمت کی علامتوں کا جائزہ لیا جب انھیں سویا دودھ، قدرتی دودھ، اور عمومی دودھ کے دو دو کپ روزانہ پلائے گئے۔

انھیں معلوم ہوا کہ ان افراد میں سے کئی ایک پر کسی قسم کی کوئی علامت ظاہر ہی نہیں ہوئیں۔

ان کا مشاہدہ تھا کہ ’ہمیں پتہ چلا کہ لیکٹوز کے لیے عدم برداشت ایک قسم کی ایک متضاد صورت حالت تھی بہ نسبت اس کے کہ اسے تواتر سے جاری رہنے والا سلسلہ کہا جائے اور یہ کہ بہت سارے لوگ ایک معتدل مقدار کا دودھ برداشت کر سکتے ہیں۔‘

دودھ کے متبادل کی بڑھتی ہوئی ضرورت

اب جبکہ گائے کے دودھ کے ہماری صحت پر اثرات کے بارے میں کافی تحقیق موجود ہے، لیکن گائے کے دودھ کے علاوہ دیگر مصنوعات کے اثرات ہر بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔

اگر کسی بھی ایک بڑی سپر مارکیٹ میں رکھے سامان کی قطار کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ سویا، بادام، ناریل، کاجو، چاول یا جو وغیرہ سے بنی ایسی مصنوعات کی طلب بڑھ رہی ہے جنھیں گائے کے دودھ کا متبادل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں اصل عناصر میں پانی ملایا ہوا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ انھیں طویل دورانیے کے لیے محفوظ کرنے کے لیے بھی کچھ اجزا ملائے جاتے ہیں۔

پروٹین یا لحمیات کے لحاظ سے سویا دودھ گائے کے دودھ کا بہترین متبادل ہے۔ گِون کا کہنا ہے کہ لیکن شاید متبادل دودھ میں ’حقیقی‘ لحمیات نہ ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہو سکتا ہے کہ یہ قدرتی دودھ کھ نسبت معیاری نہ ہو، جو کہ ایسے بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے لیے بہت ضروری ہے جنھیں ہڈیوں کی نشوونما یا حفاظت کے لیے اعلیٰ معیار کی پروٹین کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔‘

دودھ
ان مصنوعات میں دیگر غذائی عناصر ہوں، لیکن آپ کو بادام کے دودھ میں وہ غذائیت نہ ملے جو ایک مکمل بادام کھانے سے مل سکتی ہے

امریکی ریاست ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی کی غذائیت کی محقق سینا گالو کہتی ہیں کہ ان متبادل مصنوعات پر ایسی تحقیق موجود ہی نہیں جو یہ بتاتی ہو کہ ہم ان سے اعلیٰ معیار کے لحمیات حاصل کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ شاید ان مصنوعات میں دیگر غذائی عناصر ہوں، لیکن آپ کو بادام کے دودھ میں وہ غذائیت نہ ملے جو ایک مکمل بادام کھانے سے مل سکتی ہے۔

متبادل دودھ میں میں کیلشیم جیسے اجزا شامل کیے جاتے ہیں جو کہ گائے کے دودھ کا خاصہ ہوتے ہیں لیکن سائنس دان اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں کہ بعد میں ملائی گئی غذائیت کا کیا اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے جتنا کہ گائے کے دودھ میں قدرتی طور پر پائی جانےوالی غذائیت کا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر ابھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ ’کیلشیئم کی مصنوعی طریقے سے دودھ میں موجودگی کا شاید اتنا فائدہ نہ ہو جتنا کہ قدرتی طور پر اس کے موجود ہونے سے ہوتا ہے۔

گالو کا کہنا ہے کہ ان میں کچھ مصنوعات کے حوالے سے یہ بہت اہم معاملہ ہوتا ہے۔ ’گائے کے دودھ میں دیگر غذائی اجزا کے علاوہ گھی بھی ہوتا ہے جو شاید غذائی اجزا کے ہضم ہونے پر اثرانداز ہوتا ہو۔‘

امریکہ میں بہرحال گائے کے دودھ میں وٹامن ڈی ملایا جاتا ہے اور ایک تحقیق کے مطابق اس کا ویسا ہی فائدہ ہوتا ہے جتنا کہ دھوپ سے حاصل شدہ وٹامن کا ہوتا ہے۔

ایک اور غذائی محقق شارلٹ سٹرلنگ-ریڈ کا کہنا ہے کہ ماہرین کا خیال ہے کہ ہم بچوں کی نشوونما کے حوالے سے متبادل مصنوعات کو اصلی دودھ کے برابر نہیں سمجھتے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’گائے کے دودھ میں بہت زیادہ غذائیت ہوتی ہے، لیکن مصنوعی طریقے سے تیار کیے گئے دودھ میں اتنی غذائیت نہیں ہوتی ہے چاہے اس میں دیگر اجزا شامل بھی کیے گئے ہوں۔‘

دودھ
مثال کے طور پر اگر کوئی لیکٹوز کے لیے عدم برداشت رکھتا ہو، یا کوئی دل کے مرض میں مبتلا ہو یا کوئی اور ماحولیاتی اثرات کو اہم سمجھتا ہو اور ایسے دودھ کا انتخاب کرنا چاہتا ہو جس سے ماحول کم سے کم خراب ہو

شارلٹ کہتی ہیں کہ لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے کہ آیا متبادل مصنوعات کو بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کے لیے گائے کے دودھ کی جگہ استعمال کرنا بھی چاہیے یا نہیں۔

’بچوں کو گائے کے دودھ کی جگہ اس کا مصنوعی متبادل دینا ان کی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس بارے میں تاحال ہمارے پاس بہت زیادہ تحقیقی مواد نہیں ہے۔‘

گائے کے دودھ کے ان متبادل کے بارے میں یہ بھی تشویش ہے کہ ان میں کیا کیا عناصر ہوتے ہیں اور کون کون سے عناصر نہیں ہوتے ہیں۔ گائے کے دودھ میں اگرچہ لیکٹوز ہوتا ہے جو قدرتی طور پر پائی جانے والی ایک شکر ہے لیکن متبادل مصنوعات میں اضافی چینی ڈالی جاتی ہے جو کہ زیادہ مضرِ صحت ہوتی ہے۔

یہ فیصلہ کرنا کہ گائے کا دودھ پیا جائے یا اس کے متبادل کا انتخاب کیا جائے پریشان کن ہو سکتا ہے، اس کی شاید ایک وجہ ہے کہ اس بارے میں کئی ایک متبادل موجود ہیں۔

ہرننیڈز کا کہنا ہے کہ گائے کے دودھ یا اس کے متبادل کا انتخاب کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ آپ صحت مند یا غیر صحت مند دودھ کا انتخاب کر رہے ہیں، بلکہ آپ کو ہر ایک دودھ کی غذائیت کی معلومات پڑھ کر یہ طے کرنا ہے کہ اس میں کون سا دودھ آپ کے لیے زیادہ بہتر ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی لیکٹوز کے لیے عدم برداشت رکھتا ہو، یا کوئی دل کے مرض میں مبتلا ہو یا کوئی اور ماحولیاتی اثرات کو اہم سمجھتا ہو اور ایسے دودھ کا انتخاب کرنا چاہتا ہو جس سے ماحول کم سے کم خراب ہو۔

گارڈنر کہتے ہیں کہ ’آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آپ کے لیے کیسا دودھ مناسب رہے گا اور پھر آپ اس میں اہنے حالات اور تقاضوں کے مطابق بہتر تبدیلی بھی کر سکتے ہیں۔‘

’آپ جو بھی فیصلہ کریں گے آپ دودھ کی بنیادی غذائیت سے محروم نہیں ہوں گے، اگر آپ ایک متوازن غذا کھائیں گے۔ اکثر معاملات میں ایک متبادل، یا کئی متبادل، گائے کے دودھ کی جگہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‘

ورتانن کا کہنا ہے کہ ’جس طرح دودھ کو ترک کرنا ضروری نہیں ہے، اسی طرح دودھ کا پینا بھی ضروری نہیں ہے۔ اس کی کچھ اور مصنوعات بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ ایسی کوئی بھی خوراک یا غذا کے ایسے اجزا نہیں ہیں جنھیں ہم اپنی صحت کے لیے لازمی قرار دیں۔‘