منتخب تحریریں

گمان

Share

میں کسی میٹنگ میں یا مشاعرے میں پھنسا ہوا نہ ہوں تو ہر فون کال اٹینڈ کر لیتا ہوں۔ اس ”ہر فون کال‘‘ سے مراد واقعتاً وہی ہے ‘جو فوری طور پر ذہن میں آتا ہے۔ کسی بھی انجان نمبر سے آنے والی کال بھی اسی طرح اٹھا لیتا ہوں ‘ جس طرح جاننے والوں اور دوستوں کی کال اٹینڈ کرتا ہوں۔اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں؛ پہلی یہ کہ میں بالکل عام آدمی ہوں اور اسی طرح زندگی گزارنے میں سہولت محسوس کرتا ہوں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میں نے کسی کے پیسے نہیں دینے‘ اس لئے گھنٹی بجنے پر بلاترددّ فون اٹھا لیتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ موبائل فون صرف اور صرف آپ کی ذاتی سہولت کیلئے ایجاد نہیں ہوا۔ اس کو دوسروں کیلئے بھی سہولت کا ذریعہ بننا چاہیے۔ سو‘ ضروری نہیں کہ آپ صرف اپنی مرضی کی کالز سننے اور کرنے کیلئے اس سہولت سے لطف اندوز ہوں۔ اس سہولت میں دوسروں کو بھی حصہ ملنا چاہیے۔ ایسے میں دوستوں کی کال سننا تو ویسے بھی فرض کی قریبی چیز بن جاتی ہے‘ اوروہ کال‘ تو ویسے بھی میرے دوست کی تھی۔
یہ فون راجہ جہانگیر کا تھا۔ راجہ جہانگیر اس وقت سیکرٹری اطلاعات پنجاب ہیں‘ لیکن میرا اور راجہ جہانگیر کا تعلق اس سے بہت پہلے کا بھی ہے اور اس سے بالکل ہٹ کر بھی۔ بالکل ذاتی قسم کا۔ اتنا ذاتی کہ ضروری نہیں کہ اس کی تفصیلات بتائی جائیں۔ یوں سمجھیں کہ دوستی سے بھی آگے کا تعلق ہے۔ فون اٹھایا تو راجہ جہانگیر نے سلام دعا کے بعد کوئی مزید بات کہے بغیر کہا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ منافقت اور جھوٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجھے یہ لکھتے ہوئے رتی برابر باک نہیں کہ اگر مجھ سے میری مرضی پوچھی جاتی تو میں یقینا انکار کر دیتا‘ مگر راجہ جہانگیر نے میری مرضی کو اس سارے عمل کے دوران درخورِاعتنا ہی نہ سمجھا اور فون سردار عثمان بزدار کو تھما دیا۔ فون جب آپ کا دوست کسی کو تھما دے تو اس فون کو ویسے ہی سننا چاہیے‘ جیسا کہ فون تھمانے والے دوست کا آپ کے دل میں مقام ہے۔ میں نے دل کی گہرائیوں سے سلام کیا اور باقی ماندہ گفتگو سرائیکی میں کی۔ وسیب کے لوگوں کے ساتھ اردو میں دلی جذبات کا پوری طرح احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں۔
ایک دو بار پہلے بھی وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کا اہتمام کرنے کیلئے ایک اور دوست نے کوشش کی مگر میں نے دو وجوہات کی بنا پر انکار کر دیا؛ پہلی یہ کہ مسلسل عثمان بزدار صاحب کے بارے میں وہی کچھ لکھنے کے بعد جو میں شرح صدر سے ان کے بارے میں محسوس کرتاتھا‘ ملنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا اور دوسرا یہ کہ میں عموماً ان سیاستدانوں سے تھوڑے فاصلے پر رہتا ہوں ‘جن کے بارے میں مجھے لکھنا ہوتا ہے۔ ذاتی تعلق کے باعث دل میں ایک مروت سی آ جاتی ہے اور یہ مروت قلم میں بلاضرورت مٹھاس سی پیدا کر دیتی ہے۔ مجھے اس مٹھاس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ میرا مینو فیکچرنگ فالٹ ہے اور شاید کسی حد تک ناقابلِ اصلاح بھی۔
سلام دعا کے بعد چند لمحے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور مشترکہ دوستوں کا ذکر ہوا۔ میں عثمان بزدار کے شعبۂ سیاسیات میں داخلے سے دو تین سال پہلے ہی ایم بی اے کر کے جا چکا تھا‘ تاہم درجنوں دوست اساتذہ اور مشترکہ دوستوں کے طفیل جامعہ زکریا میں آنا جانا رہتا تھا۔ عبدالقادر بزدار اور ظفر آہیر کا ذکر ہوا اور گفتگو موجودہ صورت ِ حال کے پیش نظر کورونا کی طرف چلی گئی۔ میں نے کہا کہ کورونا ضرور ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ فی الوقت کورونا سے بھی زیادہ سنجیدہ اور اہم مسئلہ اس لاک ڈاؤن کے طفیل دیہاڑی دار اور پرائیویٹ ملازمت کرنے والوں کی بے روزگاری اور مالی مشکلات کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت مزید اجلاس کرنے اور میٹنگز بلانے کی بجائے جو طے ہوا ہے ‘اسے فوری طور پر مستحقین تک پہنچانے کا بندوبست کرے اور اس میں دو چیزیں سب سے اہم ہیں؛ پہلی یہ کہ امداد فوری طور پر ضرورت مند تک پہنچے۔ ایسا نہ ہو کہ بھوک کے باعث مرنے والوں کی تعداد کورونا کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی تعداد سے تجاوز کر جائے اور دوسری یہ کہ تقسیم کا نظام ایسا شفاف اور ممکنہ کرپشن سے پاک ہو ‘تاکہ امدادی رقم یا سامان مستحقین تک ایمانداری سے پہنچایا جا سکے۔ ماضی میں ضرورتمندوں کی امدادی سکیموں سے فیض یاب ہونے والے غیر مستحقین اور اس امداد کی تقسیم پر مامور افسران کی تعداد مستحقین سے زیادہ رہی ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے اور اس کی مانیٹرنگ میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے۔ عام آدمی کے حالات اس سے کہیں خراب اور خوفناک ہیں‘ جتنا ہم اپنے آرام دہ گھروں میں بیٹھ کر سوچ سکتے ہیں۔ مجھے بھوک کا عفریت ‘کورونا سے زیادہ خوں آشام دکھائی دے رہا ہے۔
عثمان بزدارصاحب کہنے لگے کہ ہم آج (مورخہ 3اپریل کی بات ہے) اس امدادی پیکیج کے پہلا مرحلے پر ڈیڑھ ارب روپے کے لگ بھگ رقم جاری کر رہے ہیں اور اس رقم اور امداد کی تقسیم کے نظام کو ممکنہ حد تک شفاف اور میرٹ پر رکھنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ آپ خود بھی اسے اپنی حد تک مانیٹر کریں اور کسی شکایت کی صورت میں مجھے بتائیں ‘اس پر فوری ایکشن ہوگا اور کسی قسم کی کوئی کوتاہی یا کمی بیشی کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔
میں نے کہا :ایک اور بات‘ جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں‘ وہ بجلی کے بل کا معاملہ ہے۔ آپ وفاقی حکومت سے بات کریں اور کم از کم سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے کا تین ماہ کا بل معاف کروا دیں۔ یہ اسے براہ راست امداد ملنے کے مترادف ہوگا۔ سو یونٹ استعمال کرنے والا صارف معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے ‘ جس کے معاشی حالات نچلی ترین سطح پر ہیں‘ اسے ملنے والی ہر سہولت اسے براہ راست ملے گی اور اس کا فائدہ بھی اسے فوری طور پر ہوگا۔ تین ماہ تک بل جمع کروانے میں تاریخ کی رعایت سے اسے فوری ریلیف تو ملے گا ‘مگر جب اسے یہ مؤخر شدہ بلز اور اگلے آنے والے تازہ بلوں کو اکٹھا جمع کروانا پڑا تو یہ اس کیلئے ناممکن ہوگا کہ وہ کئی ماہ کی بے روزگاری کے بعد اپنے پرانے بقایا جات (Arrears) اور تازہ واجبات اکٹھے جمع کروا سکے۔ عثمان بزدارصاحب نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھائیں گے اور اسے منظور بھی کروائیں گے۔ عثمان بزدارصاحب نے اصرار کیا کہ لاہور آنے پر ان سے ملاقات کروں اور مختلف معاملات میں رہنمائی کروں۔ میں نے وعدہ تو کر لیا‘ لیکن مجھے یہ ابھی سے معلوم ہے کہ حکمرانوں کو کبھی بھی کسی سے رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی ‘وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور رہی سہی کسر ارد گرد کے چاپلوس پوری کر دیتے ہیں ‘خواہ بندہ عثمان بزدار کیوں نہ ہو۔
کل راجہ جہانگیر سے بات ہوئی تو وہ بتانے لگے کہ میری سو یونٹ تک کے بجلی کے بلوں کو تین ماہ تک معاف کرنی کی تجویز کو عثمان بزدار صاحب نے اگلے ہی روز لاہور آنے پر وزیراعظم کے گوش گزار کیا ہے اور امید ہے اس پر عملدرآمد بھی ہو جائے گا‘پھر راجہ جہانگیر نے بتایا کہ آپ کے خدشات کے برعکس وزیراعلیٰ اس مشکل وقت میں جس جانفشانی اور محنت سے کام کر رہے ہیں‘ آپ شاید اس پر یقین نہ کریں ‘مگر میں اس ساری بھاگ دوڑ کا عینی شاہد ہوں۔ کوئی اور کہتا تو شاید میں یقین نہ کرتا‘ مگر میں راجہ جہانگیر کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اور یہ بھی کہ کم از کم مجھے تو Misguideنہیں کر سکتے۔
خدا کرے کہ راجہ جہانگیر کی بات درست ہو اور میرا سابقہ گمان غلط ہو۔ معاملہ تو مخلوقِ خدا کو آسانیوں اور سہولتوں کی فراہمی ہے۔ جو بھی یہ کام کرے گا ‘وہ اللہ کے ہاں ضرور سرخرو ہوگا۔ یہاں کی خیر ہے‘ یہاں تو لوگ میڈیا کے زور پر زیرو سے ہیرو بنتے رہ گئے ہیں۔ اس لئے سچ جھوٹ سے تو اعتبار ہی اُٹھ گیا ہے‘ تاہم گمان اچھا ہی رکھنا چاہیے‘خاص طور پر جب گواہ بھی معتبر ہو!