معذرتوں کا موسم ہے۔ شہبازصاحب نے معذرت کر لی کہ سانحہ موٹر وے پر قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں وہ یہ بات بھی کہہ گئے کہ یہ موٹر ویز قومی تعمیر و ترقی کے لیے نواز شریف کے وژن کا نتیجہ تھیں۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ موٹر ویز کا کریڈٹ لینے کا موقع نہیں تھا۔ وہ اس کا موازنہ سی سی پی او لاہور کے تبصرے سے کر رہے تھے‘ جس میں موصوف نے فرمایا تھا کہ خاتون رات گئے بچوں کے ساتھ سفر پر کیوں نکلی؟ نکلی تھی تو جی ٹی روڈ جیسی مصروف شاہراہ کے بجائے موٹر وے کا انتخاب کیوں کیا اور یہ کہ روانگی سے پہلے اس نے پٹرول چیک کیوں نہ کیا؟(یوں قصور مظلوم خاتون کا نکل آیا) یہ کسی مصلح یا مبلغِ اخلاق کا فرمان ہوتا تو شاید گوارا کر لیا جاتا‘ لیکن یہ جان و مال اور عزت و آبرو کے محافظ پولیس افسرکا بیان تھا؛ چنانچہ خود حکومتی صفوں میں بھی شیریں مزاری جیسے لوگ اس کی مذمت کئے بغیر نہ رہے‘ اگر چہ اسد عمر سمیت ایسے لوگ بھی تھے جوپولیس افسر کے اس بیان کو غیر ضروری تو قرار دے رہے تھے لیکن اس میں انہیں کوئی غیر قانونی بات نظر نہیں آ رہی تھی کہ جس پر کسی محکمانہ/قانونی کارروائی کا جواز ہوتا۔ شہزاد اکبر کا موقف بھی اس سے ملتا جلتا تھا لیکن سو سائٹی کے سبھی سنجیدہ طبقات اور فہمیدہ افراد کا غم و غصہ اتنا شدید تھا کہ حکومت نوٹس لئے بغیر نہ رہ سکی اور افسر موصوف کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کی خبر آگئی۔ عموماً ایسے معاملات (عدالتوں میں بھی) غیر مشروط معذرت پر نمٹا دیئے جاتے ہیں۔ سی سی پی او صاحب کا اندازِ معذرت یوں تھا : اگر کسی کو اس بیان سے تکلیف پہنچی ہے تو…سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئر مین مصطفی نواز کھوکھر گزشتہ شب اظہارِ حیرت کر رہے تھے کہ افسر موصوف اتنے طاقتور ہیں کہ پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی کمیٹی کے طلب کرنے پر بھی حاضر نہیں ہوئے حالانکہ حساس اداروں کے اعلیٰ افسران کو بھی (طلب کئے جانے پر ) کمیٹی کے روبرو پیش ہونے اور اپنا موقف بیان کرنے میں عار نہیں ہوتی۔ ایک ایف سی اہلکار کے ہاتھوں طالب علم حیات بلوچ کے قتل پر بلوچستان ایف سی کے سربراہ کو بھی پیش ہونے میں کوئی عار نہ تھی۔
ایک ٹاک شو میں شہباز شریف کی مذکورہ بالا معذرت پر بات کرتے ہوئے سینیٹر مصدق ملک کا سوال تھا کہ کیا سی سی پی اوصاحب کے زیر بحث تبصرے اور شہباز شریف کی طرف سے موٹرویز کے حوالے سے نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) کے ذکر کا کوئی موازنہ بنتا ہے؟
معذرتوں کی بات چلی ہے تو گزشتہ کالم میں‘ شیخ رشید کی بات کرتے ہوئے‘ سید عطااللہ شاہ بخاری کے ذکر پر شاہ جی کے مداحین سے اس خاکسار کی بھی معذرت۔تقسیم برصغیر کے حوالے سے شاہ جی(اوران کی تحریک احرار اسلام) کا اپنا موقف تھا جسے خود برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے مسترد کر دیا لیکن انگریز سے آزادی کی جدوجہد میں شاہ جی(اور ان کے احرار) کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے ریل اور جیل میں گزار دیا۔ انگریز سے نفرت کا یہ عالم کہ کہا کرتے تھے ‘ میں اس نجس جانور کا منہ بھی چومنے کو تیار ہوں جو انگریز کو کاٹے گا۔ آغا شورش کاشمیری نے بھی اپنی جوانی کے کتنے ہی ماہ وسال شاہ جی کی قیادت میں جدوجہدِ آزادی کی نذر کر دیے۔ آغا صاحب کی اسیری کی روداد”پس دیوارِ زنداں‘‘ کسی بھی حساس قاری کو تڑپا دیتی ہے۔نواب زادہ نصر اللہ خاں بھی شاہ جی کے معتمد ترین نوجوانوں میں شمار ہوتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد شاہ جی کا کہنا تھا: مسلم لیگ جیت گئی‘ پاکستان بن گیا‘ اب اس کی حیثیت ہمارے لیے مسجد کی مانند ہے جس کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ شاہ جی 1960ء کی دہائی کے اوائل میں اپنے رب کے حضور پہنچ گئے لیکن ان کے سیاسی و مذہبی پسماندگان نے پاکستان سے محبت کو حرزِ جان بنائے رکھا۔ آغا شورش کاشمیری اور نواب زادہ نصر اللہ خاں کی پاکستان سے محبت کسی مسلم لیگی کی محبت سے کم نہ تھی۔
شاہ جی عزیمت و استقامت‘ استغنا و درویشی اور مال و دولتِ دنیا سے بے رغبتی کی مثال تھے۔ گزشتہ کالم میں شیخ صاحب کا شاہ جی سے موازنہ مقصود نہ تھا۔ مقصد یہ تھا‘ ضروری نہیں کہ آپ کی تقاریر اور آپ کی گفتگو کے شائقین آپ کے سیاسی مؤقف کے بھی حامی ہوں۔
گزشتہ کالم میں 2008کے الیکشن میں پنڈی کے اپنے آبائی حلقے میں شیخ صاحب کی جاوید ہاشمی کے ہاتھوں شکست کا ذکر بھی تھا۔(شیخ صاحب ‘ ہاشمی کو ملتان سے آیا ہوا پردیسی قرار دیتے)پنڈی کے دوسرے حلقے میں وہ اپنے ”گرائیں‘‘ حنیف عباسی کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوئے۔ منگل کی صبح ہاشمی صاحب فون پر تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ میاں صاحب کا جدہ سے فون آیاتھا ۔ ان کا حکم تھا ‘تمہیں پنڈی سے شیخ رشید کے مقابلے میں بھی الیکشن لڑنا ہے۔ ہاشمی ملتان کے دو حلقوں کے علاوہ لاہور سے بھی الیکشن لڑ رہے تھے۔ اکتوبر 2002ء میں کوٹ لکھپت جیل میں نیب کی اسیری کے دوران ہاشمی نے لاہور کے حلقہ 123سے الیکشن لڑا (اور جیتا تھا)۔ ہاشمی کا کہنا تھا کہ ملتان سے لاہور اور لاہور سے راولپنڈی‘ اتنی وسیع و عریض انتخابی مہم وہ کیسے چلائیں گے‘ لیکن میاں صاحب کا حکم تھا ‘اسے کیسے ٹالا جا سکتا تھا۔
10ستمبر 2007ء کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے واپس دھکیل دیئے جانے کے بعد جدہ میں یہ میاں صاحب کی جلا وطنی کا دوسرا دور تھا۔ وہ جنوری 2006میں جدہ سے لندن چلے گئے تھے۔ مئی 2006ء میں محترمہ کے ساتھ میثاقِ جمہوریت اور جولائی 2007ء میں لندن میں اپوزیشن لیڈروں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میاں صاحب 10ستمبر کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے لیکن واپس (لندن کی بجائے )جدہ پہنچا دیے گئے۔ شہباز شریف اور بیگم کلثوم نواز سمیت ساری فیملی لندن ہی میں تھی‘ البتہ حسین اور کیپٹن صفدر کاروبار کے لیے جدہ میں رہے ۔وہ سرور پیلس سے الحمرا میں اپنے ذاتی ”محل‘‘ میں منتقل ہو گئے تھے۔ مشرف کے 3نومبر کے پی سی او ٹوکے بعد میاں صاحب پاکستان میں اپوزیشن لیڈروں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ زیادہ ترقاضی صاحب سے رابطہ ہوتا۔ عمران خان سے بھی تبادلہ خیال رہتا۔وہ جولائی 2007ء میں میاں صاحب کی دعوت پر لندن کانفرنس میں بھی شریک ہوئے تھے۔اس سے پہلے شہباز شریف کی طرف سے شوکت خانم کے لیے 30لاکھ روپے کے عطیے پر اظہارِ تشکر کے لیے سرور پیلس بھی آئے تھے۔
2008ء کے الیکشن کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم پر مسلم لیگ کی قیادت ‘ میاں صاحب سے مسلسل رابطے میں تھی۔ ایک شب ڈنر پر میاں صاحب نے پوچھا‘ پنڈی میں شیخ کے مقابلے میں امیدوار کون ہو؟ وہ جاوید ہاشمی کا فیصلہ کر چکے تھے لیکن ڈنر کے باقی شرکا کو احساسِ شرکت دلانا مقصود تھا۔میں بھی حاضر تھا وہاں… میا ں صاحب نے ہاشمی کو فون پر پنڈی سے بھی کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا حکم جاری فرمایا۔میاں صاحب(شہباز شریف اور باقی فیملی سمیت) 25نومبر کو لاہور پہنچے۔ ان کی واپسی رکوانے کے لیے مشرف خود ریاض پہنچے تھے لیکن بادشاہ سلامت رضا مند نہ ہوئے۔
ہاشمی چار میں سے تین نشستیں جیت گئے۔ پنڈی اور لاہور میں تو یوں لگا جیسے مقابلہ ہی نہ ہو۔ البتہ ملتان کی دونشستوں میں سے شہرکی نشست جیت گئے‘دیہی نشست پر شاہ محمود قریشی فاتح قرار پائے۔ ہاشمی صاحب کے بقول یہاں آدھی جنگ تو وہ حلقہ بندی ہی میں ہار گئے تھے۔