پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے نے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما جہانگیر ترین کو چینی سکینڈل میں تحقیقات کے لیے 19 ستمبر یعنی سنیچر کو پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے۔
نامہ نگار بی بی سی شہزاد ملک کے مطابق جہانگیر ترین کے علاوہ ان کے بیٹے علی ترین کو بھی 18 ستمبر یعنی جمعے کو پیش ہونے کے بارے میں کہا گیا ہے۔
دونوں باپ بیٹے کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور زون کے آفس میں پیش ہوں۔
واضح رہے کہ جہانگیر ترین ان دنوں بیرون ملک مقیم ہیں۔
ملک میں چینی کے بحران اور اس کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس بحران کی ذمہ داری جن پر عائد کی تھی ان میں جہانگیر ترین بھی شامل ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش ہونے کے بعد جہانگیر ترین بیرون ملک چلے گئے تھے۔
حزب مخالف کی جماعتوں نے اس واقعہ پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام عائد کیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے چینی بحران کے ذمہ دار جہانگیر ترین کو بیرون ملک فرار کروانے میں مدد فراہم کی ہے۔
جہانگیر ترین کا کیا کہنا ہے؟
جہانگیر ترین کا یہ موقف سامنے آیا کہ وہ اپنے سالانہ میڈیکل چیک اپ کے لیے برطانیہ گئے ہیں۔ جہانگیر ترین نے ایف آئی اے کی طرف سے طلبی کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بارے میں حقائق کو مسخ کرکے خود ساختہ کیس بنایا گیا ہے۔
اُنھوں نے اس تحقیقاتی کمیشن کی طرف سے دی گئی فائنڈنگز کو بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ چینی کے بحران سے متعلق انکوائری کمیشن کا مقصد چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ معلوم کرنا تھا جبکہ اس کے برعکس ایف آئی اے جن الزامات کی بنیاد پر اُنھیں بلا رہا ہےان کا چینی کی قیمت سے تعلق نہیں۔
جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے علی ترین کا جے ڈی ڈبلیو کی انتظامیہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایف آئی اے اس مالی ٹرانزیکشن کی مد میں طلب کر رہا ہے جس کا چینی کی قیمتوں میں اضافے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کا موقف اور دیگر تفصیلات جلد ہی ایف آئی اے کو فراہم کردی جائیں گی۔
حکومت نے قومی احتساب بیورو یعنی نیب کو بھی انکوائری کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی ہے۔
واضح رہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اس انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف مختلف عدالتوں سے کچھ عرصے کے لیے حکم امتناعی بھی حاصل کیا لیکن بعد میں اعلیٰ عدالتوں نے ایف آئی اے کو اس معاملے کی تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ میں کیا تھا؟
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے چینی کی برآمد کی اجازت ملنے کے بعد صوبہ پنجاب کی کابینہ کی طرف سے شوگر ملز مالکان کو تین ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اور اس سبسڈی کا سب سے بڑا حصہ جہانگیر ترین کو ملا جو کہ 56 کروڑ تھا۔
واضح رہے کہ جہانگیر ترین ملک میں چھ شوگر ملز کے مالک ہیں جبکہ پورے ملک میں شوگر ملز کی تعداد 80 سے زیادہ ہے۔
اس فہرست میں دوسرا نمبر فوڈ سیکیورٹی کے سابق وفاقی وزیر اور موجودہ اقتصادی امور کے وزیر خسرو بختیار کا آتا ہے جنھیں 35 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی۔
اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر تھا کہ صوبائی حکومت سے سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود چینی کی قیمتوں میں کمی واقع نہ ہوئی اور لوگوں کو مارکیٹ سے مہنگے داموں چینی خریدنا پڑی جس کی وجہ سے شوگر ملز مالکان نے اس مد میں اربوں روپے کمائے۔
چینی برآمد کرنے کے فیصلے کے بارے میں وفاقی حکومت کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ وزیر اعظم نے شوگر ملز مالکان کو چینی برآمد کرنے کی اجازت اس لیے دی کیونکہ شوگر ملز مالکان نے گنے کے کاشتکاروں سے یہ کہہ کر گنا لینے سے انکار کر دیا تھا کہ ان کے پاس چینی کا سٹاک پہلے سے ہی موجود ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے یہ موقف بھی سامنے آیا کہ اُنھوں نے سبسڈی دینے سے انکار کر دیا لیکن پنجاب حکومت نے اس معاملے میں کیوں سبسڈی دی اس بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔