پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق 16ستمبر 2020کو کیپٹل ٹیریٹری وقف املاک بل پر ووٹنگ ہوئی تو ابتدا میں اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی۔
مشترکہ اجلاس کی کارروائی دیکھ کر میں حیران ہورہا تھا کہ وقف املاک بل پر اپوزیشن حکومت کی مخالفت کیوں کررہی ہے حالانکہ جب اس بل کو اگست کے تیسرے ہفتے میں ریاض فتیانہ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں پیش کیا گیا تھا تو اسے اپوزیشن نے ہی منظور کرایا تھا۔
اس کمیٹی میں تو حکومت کے صرف دو ارکان شریک تھے۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں اس بل کو عددی اکثریت سے منظور کرا تو لیا لیکن میں مخمصے کا ہی شکار رہا۔
اگلے روز جناب شیخ رشید نے پھبتی کسی اور کہا کہ میری شہباز شریف اور بلاول سے ملاقات ہوئی، سب پُرباش ہے۔ پتا یہ چلا کہ اس روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک دوسرے پر تنقید کرتے سارے رہنماؤں کی رات کو ایک مشترکا ملاقات بھی ہوئی، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ہوں یا پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن کے صاحبزادے اسد محمود ہوں یا تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور حکمران اتحاد میں شامل شیخ رشید، سب نہ صرف ایک ہی جگہ بیٹھے نظر آئے بلکہ انہوں نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے مستقبل کی قانون سازی پر بھی بات کی۔
میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے سیاسی رہنما اخلاقیات کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟ سب سچ کہنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ ہر سیاسی رہنما طاقت اور اقتدار کا طلبگار ہے اور یہی خواہش انہیں نجانے کیا کیا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی کو سمجھنے کے لئے طاقت کو سمجھنے کی سعی کرتا رہتا ہوں۔ حکمران ہوں یا سرکاری افسران، سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہوں یا عام آدمی، ہر شخص اپنی جگہ اپنی اپنی بساط کے مطابق طاقت کے حصول اور اس کے استحکام کا خواہشمند رہتا ہے مگر یہ ایسی چیز ہے جو ہمیشہ پھسلتی رہتی ہے۔ آج اِس کے تو کل اُس کے پاس کیونکہ مستقل صرف تغیر ہے۔
پاکستان ہو یا امریکہ، سعودی عرب ہو یا چین، شاید طاقت کی اقسام سب جگہ ایک ہی جیسی ہیں۔ فرق صرف قانون کی بالادستی کا ہے۔ جو چیزیں یا عوامل طاقت پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ بھی اپنے تئیں طاقت ہی ہوتے ہیں۔ آپ طاقت کو سمجھ جائیں تو اقتدار کے کھیل کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس وقت تک طاقت کو سمجھتے سمجھتے اسکی چھ نمایاں اقسام سمجھ میں آئی ہیں۔
اقتدار یا عہدے کی طاقت: ہر ملک میں مختلف عہدے طاقت کا مرکز ہوتے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں عوام ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ میں صدر یا وزیراعظم اور ان کے وزراء کو طاقت سونپتے ہیں جبکہ غیرجمہوری ملکوں میں کہیں بادشاہ، ڈکٹیٹر یا غیرجمہوری عناصر طاقتور ہوتے ہیں۔ یہ فرد ہی نہیں بلکہ ان کیساتھ جڑے ان کے وزیر اور مشیر، سرکاری افسران، ججز سب طاقتور ہوتے ہیں۔ یہ سب لوگ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کی ایک جنبشِ ابرو سے نجانے کتنے لوگّوں کا مستقبل مخدوش ہوتا ہے اور کتنے فائدہ پاتے ہیں۔
مذہب کی طاقت: مذہب اتنی بڑی طاقت ہے کہ یہ دنیا کے مختلف حصوں میں اقتدار میں موجود افراد یا اہم عہدوں پر براجمان لوگّوں پر مثبت یا منفی دونوں انداز میں اثرانداز ہو سکتی ہے۔ بعض جگہوں پرمختلف رہنما مذہب کو اقتدار میں آنے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کچھ اسے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے اور کچھ اقتدار یا بااختیار لوگوں پر اثرانداز ہونے کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں۔ بعض جگہوں پر مذہب کو اقتدارمیں بیٹھے لوگوں کو نکالنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ صرف اقتدار ہی نہیں یہ تہذیبوں اور رویوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ریاستوں میں مذہب اور مذہبی رہنماوں کے کردار کو غیرموثر یا محدود کردیا گیا ہے تاکہ یہ کسی صورت بھی اقتدار اور فیصلہ سازی پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔
پیسے کی طاقت: سرمایہ دارانہ نظام میں پیسے کی طاقت بڑی طاقت تصور ہوتی ہے۔ پیسہ مال کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے اور زمین کی شکل میں بھی۔ تاہم یہ عملی طور پر اقتدار یا اہم عہدوں پر براجمان لوگوں حتیٰ کہ مذہبی رہنماؤں پر بھی اثرانداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
حسن کی طاقت:دنیا بھر میں اقتدار پر حسن ہمیشہ مہربان رہا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ بعض حکمران حسینائوں پر اپنا سب کچھ وار دیتے ہیں۔ اس طرح حسین لوگ اقتدار پر اثرانداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ حسن اسی وقت اثر انگیز ہوتا ہے جب یہ اقتدار تک رسائی حاصل کرکے اسے اپنے سحر میں مبتلا نہ کر دے۔ دنیا میں حکمرانوں کو حسینوں کے ہاتھوں استعمال کرنے کے لئے سازشوں کے جال بھی بچھائے جاتے ہیں تاکہ اقتدار کی طاقت کو مغلوب کرکے من مرضی کے فیصلے کروائے جاسکیں۔
شہرت کی طاقت:آپ کھلاڑی ہیں، اداکار ہیں یا گلوکار یا کسی بھی اور وجہ سے مشہور ہیں تو شہرت بھی طاقت کی ایک ایسی قسم ہے جو اقتدار یا عہدے کی طاقت اور دیگر افراد پر اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ لوگ شہرت کو استعمال کرکے پیسہ حاصل کرتے ہیں تو کچھ لوگ اقتدار پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔
دماغ کی طاقت: اوپر بیان کی گئی طاقت کی تمام اقسام دماغ کی طاقت کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ حکمرانوں کو اپنی حکمرانی کے استحکام کے لئے عقلمند لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذہبی افرادکو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے اور حسینوں کو اپنے کیرئیر میں کامیابی کے لئے صاحبانِ عقل درکار ہوتے ہیں۔
جن ریاستوں میں قانون پر عملدرآمد کمزور ہوتا ہے وہاں طاقت کی پہلی پانچ اقسام فیصلہ سازی پر منفی طور پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ پارلیمنٹ لوگوں کے اجتماعی یا مخصوص مفادات کو مدِنظر رکھ کر اکثریتی فیصلے کی روشنی میں قانون سازی کرتی ہے۔
قانون کا برابر اطلاق انصاف کی بالادستی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کے معیار بھی قائم کرتا ہے۔ قانون بالادست نہ ہو تو اخلاقیات بھی پستی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ہمارے رہنما اقتدار کے حصول کیلئے اخلاقیات کے بجائے طاقت کی انہی مختلف اقسام کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔
کاش ہم اخلاقی معیارقائم کرکے قانون کی طاقت کے بجائے قانون کی بالادستی کے پیچھے بھاگیں، شاید ملک درست سمت اختیار کرلے؟