سبز رنگ کی میز پر ریکٹ اور گیند کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی مانوس آواز ٹیبل ٹینس کی سب سے بڑی پہچان ہے اور ایک دور وہ بھی تھا جب ہر جگہ سنائی دینے والی اس آواز سے اس کھیل کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
اگرچہ پاکستان نے پچاس کی دہائی سے ہی ٹیبل ٹینس کے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا لیکن ستر کی دہائی میں یہ کھیل ایک نئے دور میں داخل ہوا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب ٹیبل ٹینس سکول کالجوں سے لے کر پرائیویٹ کلبوں تک ہر جگہ بڑے شوق سے کھیلا جاتا تھا۔ اس زمانے میں کراچی ٹیبل ٹینس کا اہم مرکز تھا جہاں وائی ایم سی اے، اسلامیہ کلب، امروہہ کلب، سینٹ جانز کلب اور شرف آباد کلب میں اس کھیل کی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوا کرتی تھیں۔
ستر کی دہائی ہی میں سپورٹس کو اداروں میں لایا گیا۔ دیگر کھیلوں کی طرح ٹیبل ٹینس کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور اس دور کے باصلاحیت مرد اور خواتین کھلاڑیوں کو ان میں شامل کیا گیا۔ کھلاڑیوں کو بہترین سہولتوں کےساتھ ملازمتیں ملیں تو وہ معاشی پریشانیوں سے دور ہو کر اپنے کھیل پر توجہ دینے لگے۔ انھی اداروں کی وجہ سے ان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ملے۔
پاکستان خصوصاً کراچی میں ٹیبل ٹینس کو پروان چڑھانے میں یوں تو متعدد شخصیات کے نام آتے ہیں لیکن ان میں سے دو مجید خان اور ایس ایم سبطین کی کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
مجید خان نے پچاس کی دہائی میں ٹیبل ٹینس کی صرف دو ٹیبلوں کے ساتھ اسلامیہ کلب کی بنیاد رکھی تھی وہ اس دور میں چین جاپان اور دیگر ملکوں کی ٹیموں کو یہاں لانے میں کامیاب رہے تھے۔ اسلامیہ کلب آج بہترین جمنازیم کی شکل میں قومی مقابلوں کی میزبانی بھی کررہا ہے اور یہاں نوجوان بچے بچیاں انٹرنیشنل کھلاڑی عارف خان کی نگرانی میں تربیت بھی حاصل کرتے ہیں جو مجید خان کے بیٹے ہیں۔
ایس ایم سبطین کی اس کھیل کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں طویل وابستگی رہی ہے۔ ستر کی دہائی میں انھی کی کوششوں کے نتیجے میں پہلی بار چینی کوچز پاکستانی کھلاڑیوں کی کوچنگ کے لیے یہاں آئے تھے۔ ایشین ٹیبل ٹینس فیڈریشن کے قواعد و ضوابط کی تیاری ہو یا سنہ 1984 میں ایشین چیمپئن شپ کا پاکستان میں انعقاد، ایس ایم سبطین ہر جگہ متحرک نظر آتے ہیں۔
شکور سسٹرز کی بالادستی
پاکستان میں ٹیبل ٹینس کی تاریخ شکور سسٹرز کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ اس گھرانے کی چھ بہنوں نے ٹیبل ٹینس کھیلی لیکن شہرت تین بہنوں روبینہ، سیما اور نازو کے حصے میں آئی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ والد صاحب سید شکور احمد نے اپنی دو بڑی بیٹیوں نسرین شکور اور طلعت شکور کو پاکستانی ٹیم کے ٹرائلز میں کامیاب ہونے کے باوجود کھیلنے سے صرف اس لیے روک دیا تھا کہ وہ سید گھرانے کی لڑکیاں ہیں تاہم بعد میں ان کی تین چھوٹی بیٹیوں نے اس کھیل میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
نازو شکور کامیابی اور شہرت کے معاملے میں اپنی دونوں بڑی بہنوں روبینہ اور سیما سے بہت آگے رہیں حالانکہ دس سال کی عمر میں وہ روبینہ اور سیما کے بھاری بیگ اٹھا کر ان کے ساتھ کلب جایا کرتی تھیں لیکن صرف چند سال میں ہی وہ ان دونوں بہنوں سے مقابلہ کرنے اور انھیں ہرانے کی پوزیشن میں آ چکی تھیں۔
نازو شکور نے بارہ مرتبہ قومی چیمپئن شپ کا فائنل کھیلا، جن میں سے سات مرتبہ قومی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا جو خواتین میں قومی ریکارڈ ہے۔ وہ چار مرتبہ فائنل میں اپنی بڑی بہن روبینہ سے ہاریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک فائنل میں انھوں نے روبینہ کو خود جیتنے کا موقع فراہم کیا تھا جس کا ذکر وہ بڑے مزے سے کرتی ہیں۔
’روبینہ کی جیت کی ہیٹ ٹرک ہونے والی تھی اور ان کے شوہر عارف ناخدا بھی چیمپیئن بنے تھے اس موقع پر ہر کوئی چاہتا تھا کہ روبینہ اس بار قومی چیمپیئن بنیں بلکہ عارف ناخدا کے والد نے مجھ سے مذاقاً کہا کہ نازو! میں تمہیں ایک کلو گلاب جامن دوں گا تم اس بار میری بہو کو جیتنے دو جس پر میں نے ان سے کہا کہ انکل میں تو خود آپ کی بہو کو اس بار جتوانے کا سوچ چکی ہوں۔‘
روبینہ شکور نے جو سابق قومی چیمپیئن عارف ناخدا سے شادی کے بعد روبینہ عارف کہلائیں چار مرتبہ قومی چیمپیئن بنیں جبکہ سیما شکور نے جو ہاکی اولمپیئن کلیم اللہ کی اہلیہ ہیں ایک مرتبہ قومی چیمپیئن بنی ہیں۔
نازو شکور نے اپنے کیریئر میں کئی بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا ان کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ وہ تھا جب انھوں نے سنہ 1989 کے اسلام آباد میں منعقدہ سیف گیمز میں عارف خان کے ساتھ مکسڈ ڈبلز میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ انھیں اس شاندار کارکردگی پر صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔
عارف خان سیف گیمز گولڈ میڈلسٹ
عارف خان تین بار قومی چیمپیئن بنے ہیں۔ اپنے کیریئر میں انھوں نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان کی سب سے یادگار پرفارمنس وہ تھی جب وہ ایشین چیمپیئن شپ کا کوارٹر فائنل کھیلے تھے۔
عارف خان نے مسلسل دو مرتبہ سیف گیمز میں گولڈ میڈل جیتا۔ سنہ 1987 میں کولکتہ میں انھوں نے فائنل میں انڈیا کے کملیش مہتہ کو شکست دی تھی۔ دو سال بعد اسلام آباد میں ایک بار پھر وہ کملیش مہتہ کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ان مقابلوں میں انھوں نے نازو شکور کے ساتھ مکسڈ ڈبلز میں بھی گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اس غیرمعمولی کارکردگی پر انھیں حکومت پاکستان نے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا تھا۔
عارف خان ریٹائرمنٹ کے بعد کوچنگ سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل ٹیبل ٹینس فیڈریشن کے کوالیفائڈ کوچ بھی ہیں۔
فرجاد سیف واحد اولمپیئن
فرجاد سیف کو پاکستان میں سب سے زیادہ 13 مرتبہ قومی چیمپیئن بننے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ وہ واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جنھیں اولمپکس میں حصہ لینے کا موقع ملا ہے۔
سنہ 1988 میں جب ٹیبل ٹینس کو پہلی بار اولمپکس میں شامل کیا گیا تو فرجاد سیف نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی اور یوگو سلاویہ، برازیل اور ڈومینیکن ری پبلک کے کھلاڑیوں کو شکست دی تھی۔ انھیں سوئیڈن کے ایرک گونر لائنھ نے ہرایا تھا جو سیمی فائنل تک پہنچے تھے لیکن فرجاد سیف ان سے پہلا گیم جیتنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
فرجاد سیف پاکستان کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے 1979 میں مصر میں ہونے والی ورلڈ جونیئر ٹیبل ٹینس چیمپیئن شپ جیتی تھی۔ اس چیمپیئن شپ میں جاوید چھوٹانی نے انفرادی ٹائٹل جیتا تھا جبکہ مینز ڈبلز فائنل میں جاوید چھوٹانی اور فرجاد سیف نے کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان ٹیم ایونٹ بھی جیتا تھا۔
عاصم قریشی 54 سال کی عمر میں قومی چیمپئن
عاصم قریشی کا شمار پاکستان کے تجربہ کار کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ وہ اسوقت 54 سال کی عمر میں بھی حریف کھلاڑیوں کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں اور ابتک سات بار قومی چیمپیئن بن چکے ہیں۔
عاصم قریشی نے ورلڈ ٹیبل ٹینس چیمپیئن شپ میں سولہ مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ وہ اپنے بین الاقوامی کیریئر میں پانچ سو سے زائد میچ جیت چکے ہیں۔ ساؤتھ ایشین گیمز میں انھوں نے مجموعی طور پر آٹھ چاندی اور آٹھ کانسی کے تمغے جیتے ہیں۔
ٹیبل ٹینس کی عدم مقبولیت کی وجہ؟
عارف خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیبل ٹینس کے زوال کی کوئی ایک وجہ نہیں۔
’سکول اور کالجوں میں اب یہ کھیل تقربیاً ختم ہو چکا ہے۔ والدین سے جب میں کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو یہ کھیل کھلائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ٹیبل ٹینس میں کوئی مستقبل نہیں، والدین اپنے بچوں کا کیریئر مقدم سمجھتے ہیں اور آٹھویں نویں جماعت کے بعد وہ انھیں ٹیبل ٹینس کھیلنے سے روک دیتے ہیں۔‘
’باصلاحیت بچے آتے ضرور ہیں لیکن ان میں پہلے جیسا شوق نہیں رہا۔ اس کھیل کو سپانسرشپ کی شکل میں پیسے کی ضرورت ہے لیکن اب کئی اداروں نے ٹیبل ٹینس کی ٹیمیں ہی ختم کردی ہیں اور بہت سے اداروں نے سپورٹس ڈپارٹمنٹس ہی بند کر دیے ہیں۔‘
نازو شکور کہتی ہیں کہ نیشنل کوچنگ سینٹر ٹیبل ٹینس کی ترقی میں ایک اہم مرکز ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کی حالت بہت خراب ہے کوئی پرسان حال نہیں۔
’بچوں میں موبائل فون پر گیم کھیلنے کے رجحان کی وجہ سے بھی کھیلوں پر اثر پڑا ہے جس میں قصور والدین کا بھی ہے۔ ہمارے دور کے تمام ہی کھلاڑیوں کو بنانے والے چینی کوچز تھے لیکن اب وہ بھی یہاں نہیں آ رہے ہیں۔‘
فرجاد سیف کہتے ہیں ’پہلے سپورٹس کی بنیاد پر کالجوں میں داخلے ملتے تھے۔ اداروں نے کھلاڑیوں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں۔ اب کھلاڑیوں کا مستقبل محفوظ نہیں، یہ کھیل اب بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ پہلے عام ربر ریکٹ پر لگتا تھا اب اس کی جگہ سپیڈ ِگلو نے لے لی ہے۔ ووڈن ( لکڑی) کے فرش کی جگہ میٹ آ گیا ہے ان اخراجات کا ہر کوئی متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
فرجاد سیف کہتے ہیں ʹوالدین کو یہ سمجھانا ہو گا کہ کھیل نوجوان نسل کے لیے کتنے ضروری ہیں۔ آج کل کے بچے کمپیوٹر اور موبائل فون میں مصروف ہو کر کھیلوں کی صحت مندانہ سرگرمیوں سے کٹ گئے ہیں۔‘
عاصم قریشی کہہتے ہیں ’لوگ مجھے 54 سال کی عمر میں کامیابی حاصل کرتا دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو چکا ہے ایسا نہیں ہے نوجوان کھلاڑی سامنے آرہے ہیں لیکن میرا تجربہ اور اس عمر میں بھی فٹنس مجھے کامیاب رکھے ہوئے ہے۔ ان نوجوان کھلاڑیوں کو مناسب کوچنگ کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سنہ 2008 کے بعد سے غیر ملکی کوچز نہیں آرہے ہیں۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کی اس کھیل کی طرف توجہ نہیں۔‘
پاکستان ٹیبل ٹینس فیڈریشن سے طویل وابستگی کے بعد اب کنارہ کشی اختیار کرنے والے ایس ایم سبطین موجودہ صورتحال کا ذمہ دار پاکستان سپورٹس بورڈ کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اعلی عہدوں پر فائز افراد نے ذمہ داری نبھانے کے بجائے اپنی بالادستی کے بارے میں سوچا ہے اور اسی مائنڈ سیٹ کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کی ہے اکثر وبیشتر اسی سرپرستی میں متوازی فیڈریشن بھی قائم کی گئی جس سے ظاہر ہے کہ کھیل کا ہی نقصان ہونا تھا۔