ہمارا ایک قومی مزاج بن چکا ہے۔ خواہ افراد ہوں، سماج کے مختلف طبقات، حکومت یا قانون نا فذ کرنے والے ادارے۔ ہم ردعمل (reaction) پر یقین رکھتے ہیں۔ کوئی واقعہ، حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے تو ہم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔متاثرین سے ہمدردی کرتے ہیں، بیانات جاری کرتے ہیں، بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، چوک میں الٹا لٹکانے کی تجاویز دیتے ہیں۔ وقتی ابال کے زیر اثر ہم جذباتی اور reactionary باتیں کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد واقعات، سانحات اور حادثات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔اصولی طور پر کسی حادثے یا سانحے کے بعد، اس کے اسباب اور محرکات پر بات ہونی چاہیے۔ایمانداری سے جائزہ لینا چاہیے کہ کن اقدامات میں غفلت کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا۔
موٹروے پرہونے والے سانحے میں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ یہ واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے رونما ہوا۔ مصیبت زدہ خاتون کی ٹیلی فون کال پر فوری تحرک کا مظاہرہ کیا جاتا تو یہ خوفناک حادثہ پیش نہ آتا۔ لیکن حادثے کی وجوہات تلاشنے اور ان کا سد باب کرنے کے بجائے نت نئے جواز تراشے جا رہے ہیں۔ اس سانحے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ ایک ملزم گرفتار ہو چکا، جبکہ دوسرا مفرور ہے۔ عوام غم وغصہ کی کیفیت میں ہیں۔ مجرموں کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے تجویز دی کہ ایسے مجرموں کو جنسی طور پر ناکارہ بنانے کیلئے قانون سازی ہونی چاہیے۔ انہوں نے سر عام پھانسی کی سزا کی بھی حمایت کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس ضمن میں ایک وزیر صاحب، مسودہ قانون تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
ماہرین اور محقیقین بتاتے ہیں کہ جرائم محض قانون سازی اور سخت سزاوں سے نہیں رکتے۔جرائم پر قابو پانے کیلئے ماحول کو ساز گار بنانا لازمی امر ہے۔ٍنجانے کیوں ہم اصل مسائل سے منہ موڑے، شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈالے رکھتے ہیں۔ جہاں تک نئی قانون سازی کی بات تو قوانین پہلے سے موجود ہیں۔ اصل مسئلہ ان قوانین کے نفاذ کا ہے۔یاد رہے کہ پاکستان سب سے ذیادہ قوانین کے حامل (highly legislated) ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ مگر سب سے ذیادہ جرائم بھی یہیں ہوتے ہیں۔ کوئی نیا قانون بنا لینا یا کڑی سزا تجویز کر دینا مسئلے کا مستقل حل نہیں۔سر عام پھانسی کا مطالبہ کرتے وقت یہ تاویل دی جاتی ہے کہ اس طرح جنسی ذیادتی کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جبکہ حقائق اس سے مختلف ہیں۔ 2018 میں زینب نامی بچی کے قتل اور زیادتی کا سانحہ ہوا تھا۔ چند ماہ کے اندر ملزم عمران کا سراغ لگا۔ وہ پکڑا گیا۔ تفتیش مکمل ہو ئی۔ مقدمہ چلا۔عدالت نے سزا سنائی اور مجرم کو پھانسی دے دی گئی۔ اس سانحے کے بعد زینب الرٹ قانون بھی منظور ہوا۔ لیکن کیا اس پھانسی اور قانون سازی کے بعد معصوم بچے بچیوں کیساتھ ہونے والے ریپ کے واقعات تھم گئے؟ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہوا۔ معصوم بچوں کے قتل اور زیادتی کے واقعات آج بھی میڈیا پر مسلسل نشر ہوتے ہیں۔ آئے روز کسی بوری میں بند، کسی نالے، جھاڑی یا کوڑے دان کے پاس معصوم پھولوں کی لاشیں ملتی ہیں۔ مجرم عمران کی پھانسی اور زینب الرٹ قانون کے بعد ان واقعات کی تعداد میں ہرگزکمی نہیں آئی۔ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم “ساحل” کی ایک رپورٹ کیمطابق ان واقعات میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2018 میں بچوں کیساتھ بدسلوکی کی شرح 11 فی صد بڑھ گئی۔ ثابت یہ ہوا کہ نئی قانون سازی ا ور کڑی سزا کی تجویز اس معاملے کا حل نہیں۔حل یہ ہے کہ عوام الناس کے جان و مال کے تحفظ کویقینی بنانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال بنایا جائے۔ ان اداروں کی اصلاح احوال کی جائے۔ ان کی استعداد کار میں بہتر ی لائی جائے۔ تاکہ اس طرح کے واقعات میں حقیقتا کمی آئے۔
برسوں سے کہا جا تا ہے کہ امن عامہ کی صورتحال میں بہتری درکار ہے تو پولیس کے محکمے کی اصلاح کرنا ہو گی۔عدالتی نظام کو فعال بنانا ہو گا۔ اس امر کی تفہیم ضروری ہے کہ پھانسی تک معاملہ تب پہنچتا ہے۔ جب ملزم گرفتار ہو تا ہے۔ مقدمہ چلتا ہے۔عدالت بروقت فیصلہ سناتی ہے۔ملزم کو مجرم قرار دیا جاتا ہے۔جبکہ ہمارے ہاں نہ تو شواہد اکھٹے ہوتے ہیں، نہ ملزم گرفتار ہوتے ہیں، نہ مناسب تفتیش ہو پاتی ہے۔ کوئی کیس عدالت میں جا پہنچے تو فیصلہ ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ صورتحال کی ابتری کا اندازہ لگائیے کہ پاکستان میں جنسی ذیادتی کے مقدمات میں سزا کی شرح (conviction rate)محض 3 فیصد ہے۔ یعنی 97 فیصدملزم بری (بلکہ باعزت بری) ہو جاتے ہیں۔ دیگر مقدمات کی حالت بھی مختلف نہیں۔ اس وقت ملک کی عدالتوں میں کم وبیش بیس لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں۔ کبھی ججوں کی کم تعداد کو جواز بنایا جاتا ہے۔ کبھی ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو مسائل کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔سانحہ موٹروے کے مفرور ملزم عابد علی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس پر پہلے سے آٹھ مقدمات قائم ہیں۔ 2013 میں وہ اجتماعی زیادتی کے واقعے میں بھی شامل تھا۔ لیکن برسوں سے وہ دندناتا پھرتا ہے۔یہ ہے ہمارا نظام قانون و انصاف۔
ہر حادثے کے بعد یہ روائتی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ اس واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پھر وہ واقعہ ہماری یاداشت سے محو ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد کوئی نیا سانحہ ہمیں لرزا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی حادثے یا سانحے کے بعد اس سے سبق سیکھنے والا ہمارا مزاج ہی نہیں ہے۔ ہم نے سقوط ڈھاکہ جیسے قومی سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تو دیگر واقعات کس گنتی شمار میں ہیں۔ سچ یہ ہے کہ نظام قانون و انصاف میں حقیقی تبدیلی لانے کیلئے قومی سطح پر کبھی کو ئی سنجیدہ کاوش نہیں ہوئی۔یہاں تو مٹی ڈالو پالیسی کا رواج ہے۔ کیا ہمیں سانحہ ساہیوال یاد نہیں؟ چار بے گناہوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کچھ دن اس سانحے پر شور اٹھا۔ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بلند بانگ اعلانات ہوئے۔ اللہ رسول کو گواہ بنا کر مجرموں کو نشان عبرت بنانے کا عہد ہوا۔ مگر وہ خون ناحق ہوا کا رزق ہو گیا۔سانحہ ماڈل ٹاون کے مجرم کیا ہوئے؟کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ برسر اقتدار لوگ انصاف کی راہ میں حائل ہیں۔وہ حکومت رخصت ہوئے دو برس بیت چلے، اس کیس میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟
میں نے گزشتہ کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد جیسے اہم شہر کے بارے میں امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ فلاں فلاں سیکٹر غیر محفوظ ہیں، وہاں مت جاو۔ ایسے ہدایت ناموں سے دنیا میں ہمارا انتہائی منفی تاثر ابھرتا ہے۔ یہ خبر آئے کافی دن ہو چکے ہیں۔ ابھی تک اس شہر کو محفوظ بنانے کے ضمن میں کوئی اقدام ہوتا دکھائی نہیں دیا۔نجانے حکومتی سطح سے امریکی سفارتخانے کی ہدایت کا نوٹس لیا بھی گیا ہے یا نہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ امن عامہ کی اس خستہ صورتحال کیساتھ ہم سیاحت کے فروغ کے منصوبے باندھتے ہیں۔خوشنما دعوے کرتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ سیاحت فقط پہاڑوں، آبشاروں، قدرتی مناظر کا نام نہیں ہوتا۔ جان و مال کا تحفظ اور امن عامہ کی صورتحال اس کیساتھ جڑا نہایت اہم اور بنیادی محرک ہے۔ جب شہریوں کی جان و مال کے تحفظ پر معمور ا علیٰ پولیس افسر یہ کہے کہ ظلم کا نشانہ بننے والی خاتون” فرانس کے مائنڈ سیٹ” سے گھوم رہی تھی۔ تو اندازہ کیجیے کہ وہ دنیا کو اور خاص طور پر سیاحوں کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔اس بات کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نہایت غیر محفوظ ملک ہے۔ لہذا فرانس یا دیگر ممالک سے اگر بھولے بھٹکے کوئی یہاں آنکلے تو اپنا ” مائنڈ سیٹ” وہیں چھوڑکر آئے۔