کالج میں ریپ ہوا تو لڑکی کا قصور ہوگا؟
”ہر گائے دودھ دیتی ہے، گائے ایک جانور ہے لہذا ہر جانور دودھ دیتا ہے۔“ ”تم ایک کرپٹ شخص ہو، تم نے ناجائز کمائی سے محل نما گھر خریدا ہے۔جواب:تم نے بھی تو لڑکی کو بھگاکر شادی کی تھی۔“ ”زید:پاکستان میں ہر پانچ عورتوں میں سے ایک عورت کبھی نہ کبھی اپنی زندگی میں جنسی ہراسگی کا شکار ہوتی ہے۔بکر:تمہیں اِس ملک میں کیڑے نکالنے کا شوق ہے، بھارت میں یہ شرح ہم سے کہیں زیادہ ہے۔“ ”ایکس: دنیا میں جنوں بھوتوں کا کوئی وجود نہیں، اگر ہوتا تو کبھی نہ کبھی ہمارا اِس مخلوق سے براہ راست واسطہ ضرور پڑتا۔“ زی : ہمارا براہ راست واسطہ تو کبھی گھانا کے صدر سے بھی نہیں پڑا تو کیا ہم اُس کے وجود سے بھی انکار کر دیں!“ یہ ہمارا بحث کرنے کا عمومی انداز ہے۔اِس قسم کی گفتگوکو اپنے تئیں ہم ”مدلل“سمجھتے ہیں۔موٹر وے پرخاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد تازہ ترین دلیل مارکیٹ میں یہ آئی ہے کہ یہ سب مخلوط تعلیم کا نتیجہ ہے، یہ کہنا ہے میرے فیورٹ مولانا کا، دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ جہاں آگ اور پٹرول اکٹھے ہوں گے وہاں یہ سب تو ہوگا۔مولانا ماشا اللہ پوری دنیا گھومتے ہیں، ہر ملک میں آپ کے مرید ہیں، یقینا آپ دبئی بھی گئے ہوں گے، اگر نہیں گئے تو کسی دن دونوں بھائی اکٹھے دبئی چلتے ہیں اور وہاں ساحل سمندر پر چہل قدمی کرکے دیکھتے ہیں کہ آگ اور پٹرول کا ملاپ کیسے ہوتا ہے۔ دبئی ایک اسلامی ملک ہے لیکن ہر عورت وہاں اپنی مرضی کا لباس پہن کر گھومتی ہے،چپے چپے پر نائٹ کلب آباد ہیں، ہر قسم کی ”تفریح“ وہاں میسر ہے، آگ اور پٹرول مل کر اگر کہیں ”بھانبڑ“ مچا سکتے ہیں تو وہ دبئی ہے مگر کسی کی مجال نہیں کہ عورت کو اُس کی مرضی کے خلاف ہاتھ لگا سکے، ہاتھ لگانا تو دور کی بات اسے گھور بھی نہیں سکتا۔رہی بات مخلوط تعلیم کی تویہ بھی بتا دیں کہ خدا نخواستہ اگر مخلوط تعلیم کے کسی کالج کی لڑکی کا ریپ ہو ا تو آپ لڑکی کو مورد الزام دیں گے یا اُس کے والدین کو؟ ریپسٹ کو بھی ہلکا سا طمانچہ لگائیں گے یا محض درس دے کر چھوڑ دیں گے؟حد ادب رکھ کر یہ بھی پوچھنا تھا کہ ہمارے مدرسوں میں تو مخلوط تعلیم نہیں دی جاتی سو وہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جو واقعات پیش آتے ہیں انہیں کس خانے میں فِٹ کیا جاوے؟یہی سوال اُن لوگوں سے بھی ہے جو کہتے ہیں کہ یہ سب مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔مدرسوں میں تو باقاعدہ مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں دین سے دور ی کیسے ہو گئی؟ ریپ جدید مغربی ممالک میں بھی ہوتے ہیں اور مذہبی اور قبائلی معاشروں میں بھی،گھٹن زدہ ماحول میں بھی ہوتے ہیں اور آزاد سوسائٹی میں بھی،خدا کو ماننے والے بھی کرتے ہیں اور نا ماننے والے بھی،پڑھے لکھے بھی کرتے ہیں اور اجڈ اور جاہل بھی،فحش فلمیں دیکھنے والے بھی کرتے ہیں اور صوم و صلواۃ کے پابند بھی،دیکھنا صرف یہ ہے کہ ریاستیں اِس جرم کے سد باب کے لیے کیا کرتی ہیں اور معاشرہ کا مجموعی رد عمل اِس ضمن میں کیا ہوتا ہے۔ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ پاکستان کسی ایسی عورت کے ساتھ ریپ ہو جائے جو الٹرا ماڈرن ہو، جدید تراش خراش کے کپڑے پہنتی ہواور رات کو اکیلی گھومتی ہو! اُس صورت میں اِس معاشرے کے کتنے مردوں (اور عورتوں) نے اُس ریپ کے خلاف اٹھانی تھی؟ اکثریت نے اُس عورت کی کردار کشی کرنی تھی اور اُس کی ”حرکتوں“ کو ریپ کا ذمہ دار قرار دے کر مطمئن ہو جا نا تھا۔یہ ہے وہ اصل ذہنیت جو ریپ جیسے بھیانک جرم کی بھی تاویل گھڑ لیتی ہے، اِس ذہنیت کے تحت کسی نہ کسی طور قصور عورت کا ہی نکلتاہے۔ اگر اِس ذہنیت کی تاویل درست مان لی جائے تو پھر عورت کو صرف گھر کے کمرے میں بند کرکے محفوظ بنایا جا سکتا ہے،گھر سے باہر کسی ہنگامی ضرورت کے تحت ہی نکلا جا سکتا ہے اور وہ بھی شٹل کاک برقع میں کسی مسلح محرم کے ساتھ۔ممکن ہے کچھ مرد حضرات کہیں کہ اِس میں کیا حرج ہے، تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ اِس میں حرج کوئی نہیں بشرطیکہ وہ خود کو بھی فقط ایک ماہ تک گھر میں قید رہ کر دیکھیں، اُس کے بعد جو مزاج یار میں آئے۔ویسے اِس قسم کا بندو بست طالبان نے اپنے دور حکومت میں افغانستان میں کیا تھا،توکیا یہ بہتر نہیں تھا کہ یہ مرد حضرات اُس سنہری دور میں وہاں ہجرت کر جاتے، طالبان تو کسی قسم کے ویزے میں بھی یقین نہیں رکھتے تھے،انہوں نے فوراًگلے لگا لینا تھا۔
ایک دلچسپ مثال سُن لیں۔ پچھلے دنوں امریکی فحش فلموں کے اداکار رون جیرمی کو ریپ کے الزام میں جیل کی ہوا کھانی پڑی، اِس مقدمے کی پیشی کے دوران موصوف قیدیوں کا لباس پہن کر عدالت میں پیش ہوئے، جناب کے چہرے پر جو پریشانی تھی وہ نا قابل بیان ہے۔الزام اُن پر یہ تھاکہ انہوں نے ایک پارٹی کے دوران کسی خاتون کے ساتھ دراز دستی کی کوشش کی تھی۔ یہ اُس شخص کی بات ہو رہی ہے جس نے پوری زندگی سوائے فحش فلموں میں کام کرنے کے کچھ نہیں کیا، سیکس کرنا اُس کی جاب تھی، جس پارٹی میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا، وہ عورت بھی شاید اسی لیے وہاں آئی تھی، مگر صرف ایک بات کا فرق تھا، اُس عورت نے مسٹر جیرمی کو اُس لمحے انکار کیا تھا، یہ اُس کے انکار کی طاقت تھی جس کی وجہ سے مسٹر جیرمی آج جیل میں ہیں۔یہ تھا ریاست کا قانون اور معاشرے کا رد عمل۔مغربی ممالک کی مثالیں دینے کا یہ مطلب قطعاًنہیں ہوتا کہ یہ آئیڈیل ملک ہیں جہاں ریپ نہیں ہوتے، مقصد اپنے اور اُن کے ماحول کا موازنہ ہوتا ہے۔اگر ہم اِن ممالک پر فقط اِس وجہ سے طنز کرتے رہیں گے کہ انہوں نے کون سا ریپ کا سو فیصد خاتمہ کر لیا ہے تو یہ دلیل ہمارے کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ آخری تجزیئے میں بہرحال سکینڈے نیویا کے ممالک ہی دنیا میں رہنے کے لیے بہترین مانے جائیں گے،لاہور سیالکوٹ موٹر وے انٹر چینج کے مقابلے میں ناروے کے آخری کونے تک جاتی ہوئی اٹلانٹک ہائی وے ہی زیادہ محفوظ تصور ہوگی۔
ریپ کا تصور جدید دنیا کا ہے، پرانے وقتوں میں ریپ کا تصور نہیں ہوتا تھا کیونکہ یہ بات ہی کسی کے ذہن میں نہیں تھی کہ عورت کی کوئی مرضی ہو سکتی ہے۔سینکڑوں سال پہلے جب لونڈیوں کی خریدو فروخت ہوتی تھی، محل میں کنیزیں اور باندیاں رکھی جاتی تھیں تو کیا اُنہیں ہاتھ لگانے سے پہلے بادشاہ سلامت پوچھتے تھے کہ ”اجازت ہے“!ظاہر ہے کہ یہ بات ہی اُس وقت مضحکہ خیز تھی،عورتوں کو مال مویشی سمجھا جاتا تھا، اب بھی کچھ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اسی لیے ہر بات کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بات ہم طے کریں گے کہ عورت کو کتنی آزادی دینی چاہیے اور کتنی نہیں!اصل سوال وہی ہے کہ اِس کا سد باب کیسے کیا جائے۔ دبئی اِس کی بہترین ہے، یہ ایک اسلامی ملک کا ماڈل ہے، یہاں گھٹن بھی نہیں اور مغرب والی مادر پدر آزادی بھی نہیں، مساجد بھی آباد ہیں اور کلبوں میں بھی زندگی ہے، عورت عبایا میں بھی باہر نکلتی ہے اور نیکر میں بھی، غریب بھی چھوٹی موٹی عیاشی افورڈ کر لیتا ہے اور امیر کے لیے تو خیر دنیا میں ہی جنت کا بندو بست کر دیا گیا ہے، اِس کے بعد اگر کوئی کسی عورت کو بغیر اُس کی رضامندی کے ہاتھ لگاتا ہے تو اسے الٹا لٹکا دیا جاتا ہے(محاورتاً)۔ہم نے اگر ریپ کا خاتمہ کرنا ہے تو مخلوط تعلیم ختم کرنے یا سر عام پھانسیاں دینے سے کچھ نہیں ہوگا، دبئی کی نقل کرنے سے ہوگا۔یہ نقل صرف اسی حد تک کرنی ہے، بادشاہت کا ماڈل اپنانے کی ضرورت نہیں۔