21 ستمبر کو دنیا بھر میں الزائمرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس سال بی بی سی نے اسی سلسلے میں ’میوزک میموریز‘ کے نام سے ایک خصوصی مہم شروع کی ہے جس میں موسیقی کے ذریعے ڈیمینشیا کا شکار افراد کی یادیں لوٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی سیریز کے تحت بی بی سی اردو نے پاکستان کی سب سے مقبول آواز کے مالک، استاد نصرت فتح علی خان کے کیریئر کے ابتدائی سالوں کا احاطہ کیا ہے۔
سنہ 1960 کی دہائی میں فیصل آباد کے صوفی بزرگ سائیں محمد بخش عرف لسوڑی شاہ کے دربار پر ایک کم عمر نوجوان نعتیہ اور عارفانہ کلام پڑھ رہا ہے۔ یہ بظاہر کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ پنجاب کا یہ لڑکا دنیائے موسیقی میں ’شہنشاہِ قوالی‘ بن جائے گا۔
اس کا تعلق تو قوال گھرانے سے ہی تھا۔ اس جیسے کئی نوجوانوں کو بچپن سے ہی سُر، تال اور لے کا نصاب پڑھایا جاتا تھا، وہ چاہیں نہ چاہیں۔
لیکن یہ کم عمر لڑکا اپنے سُروں کی پختگی اور لے کی اٹھان میں اتنی مہارت رکھتا تھا کہ اسے سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔
قیام پاکستان سے قبل انڈیا کے شہر جالندھر سے ہجرت کر کے آئے پٹیالہ گھرانے کے اس سپوت کا نام تھا نصرت فتح علی خان۔
لیکن یہ وہ وقت تھا جب نصرت کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہاں سب کو یہ ضرور علم تھا کہ وہ اس دور کے معروف قوال استاد فتح علی خان کا بیٹا ہے۔
نصرت نے بچپن ہی سے موسیقی کو اپنا جنون بنا لیا تھا اور صرف دس برس کی عمر میں ہی وہ طبلہ بجانے پر کمال مہارت حاصل کر چکے تھے۔
سنہ 1960 کی دہائی کے شروع میں ہی اپنے والد استاد فتح علی خان کی وفات کے بعد انھوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے چچا استاد مبارک علی خان اور استاد سلامت علی خان سے لینا شروع کی اور ستر کی دہائی میں استاد مبارک علی خان کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی کی۔
فیصل آباد کے مشہور جھنگ بازار کے ایک دربار سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے اس ہیرے پر میاں رحمت نامی جوہری کی نظر پڑی جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی فیصل آباد میں گراموفون ریکارڈز کی دکان کے مالک تھے۔
ان کے نصرت کے والد استاد فتح علی خان کے ساتھ پہلے سے مراسم تھے۔
گانے والا تھک گیا، نصرت کا طبلہ نہیں رُکا
میاں اسد جو رحمت گراموفون ریکارڈنگ سٹوڈیو کے مالک میاں رحمت کے صاحبزادے ہیں، نصرت سے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی بے شمار ایسی یادیں ہیں جو آج بھی ان کے ذہن کے دریچوں میں تازہ ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد میاں رحمت نصرت کے گھرانے کو 1960 کی دہائی سے جانتے تھے۔
‘سب سے پہلے میرے والد کی ملاقات نصرت کے والد فتح علی خان سے ہوئی تھی جو اس وقت فیصل آباد کے مشہور قوال تھے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ‘نصرت سے میرے والد کی شناسائی تو ان کے پجپن سے ہی تھی مگر ستر کی دہائی میں جب انھوں نے باضابطہ طور پر اپنے چچا استاد مبارک کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی سنبھالی تو میرے والد نے نصرت کو بطور فنکار نوٹس کرنا شروع کیا۔‘
میاں اسد کا کہنا ہے کہ ‘آغاز میں نصرت فیصل آباد کے ایک صوفی بزرگ سائیں محمد بخش المعروف بابا لسوڑی شاہ کے دربار پر نعتیہ کلام پڑھتے اور قوالی گایا کرتے تھے۔ ان کی رہائش گاہ بھی اس دربار کے سامنے ہی تھی۔’
میاں اسد کے مطابق استاد نصرت نے قوالی سے قبل طبلہ بجانے کی تربیت حاصل کی تھی اور وہ بہت مہارت کے ساتھ طبلہ بجاتے تھے۔
ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے جو انھوں نے اپنے والد سے سن رکھا ہے میاں اسد بتاتے ہیں کہ ‘نصرت جب دس گیارہ برس کے تھے تو ایک قوالی کی محفل میں کوئی طبلہ نواز نہیں مل رہا تھا جس پر نصرت کو طبلہ بجانے کے لیے کہا گيا۔ وہاں انھوں نے ایسی پرفارمنس دی کہ گانے والا تھک گیا لیکن نصرت نہیں تھکے اور سننے والوں پر انھوں نے ایک سحر طاری کر دیا۔’
’کلام منتخب کرنا، پڑھنا نصرت نے سکھایا‘
میاں اسد کا کہنا ہے کہ زمانہ طالبعلمی سے ہی نصرت کے ساتھ رحمت گراموفون ریکارڈنگ سٹوڈیو یا گھر پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ تاہم ’نصرت کے ساتھ باضابطہ طور پر میرا پیشہ وارانہ تعلق سنہ 1992 میں قائم ہوا جب وہ اپنے والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔‘
وہ کہتے ہیں’ ابا جی سے ان کے قصے اور باتیں سنتے رہتے تھے، ان سے غیر رسمی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی کبھی دکان پر تو کبھی ہمارے گھر پر۔’
میاں اسد کے مطابق ان کے والد میاں رحمت ستر کی دہائی کے آخر اور اسی کی دہائی کے اوائل میں نصرت کو اپنے ریکارڈنگ سٹوڈیو لے آئے جہاں سے انھوں نے اپنی قوالیوں اور غزلوں کی ریکارڈنگ کا آغاز کیا اور پھر ترقی اور شہرت کی منزلوں کو چھوتے گئے۔
میاں اسد بتاتے ہیں کہ رحمت گراموفون میں ریکارڈ کی گئیں نصرت کی چند ابتدائی قوالیوں میں سے ایک ‘یاداں وچھڑے سجن دیاں’ اور دوسری ‘علی مولا علی مولا’ تھیں جو دنیا بھر میں بہت مقبول ہوئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ اور بھی سینکڑوں قوالیاں ریکارڈ کی گئیں تھیں۔
‘ان کی بے شمار ریکارڈنگز کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ ہمارے سٹوڈیو ریکارڈنگز کے لیے آتے رہے۔’
میاں اسد کے مطابق رحمت گراموفون ہاؤس ریکارڈنگ کمپنی نے نصرت کے ایک سو سے زائد میوزک البمز ریکارڈ کر کے مارکیٹ میں ریلیز کیے۔
جن میں صوفی بزرگ بابا بلھے شاہ کا کلام ‘کی جاناں میں کون’ سمیت متعدد دوسرے کلام شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر نصرت اور رحمت گراموفون کے تعلق اور سفر کو یاد کرنے بیٹھے تو ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو چلتا رہے گا۔’
ایسے ہی ایک اور شخص الیاس حسین ہیں جو نصرت کی جوانی سے ان کے شاگرد اور ان کی قوال پارٹی میں بطور پرومپٹ خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔
واضح رہے کہ پرومپٹ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی شو یا ریکارڈنگ کے دوران مرکزی قوال کے پیچھے بیٹھے کلام یا غزلوں کی کتاب تھامے قوال کو اگلے مصرعے یاد کرواتا یا بتاتا ہے۔
58 سالہ الیاس حسین ان کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘ہمارا خاندان فتح علی خان کے گھرانے میں کئی پشتوں سے خدمات کرتا آیا ہے۔ میں سنہ 1975 سے نصر ت فتح علی خان کو جانتا ہوں، تب میں سکول جاتا بچہ تھا اور والد کے ساتھ ان کے گھر کام کاج کرنے جاتا تھا۔ میں ان کا شاگرد تھا، سنہ 1983 سے 1997 میں ان کی وفات تک ان کی قوال پارٹی میں شامل رہا۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘میرے دادا اور والد بھی ان کے گھرانے کے شاگرد تھے، ہمیں اس گھرانے سے عشق تھا۔’
وہ بتاتے ہیں کہ دس برس کی عمر سے جب میں نے وہاں جانا شروع کیا تو کچھ عرصے بعد ہی مجھے استاد فرخ فتح علی خان جو راحت فتح علی خان کے والد ہیں نے کہا کہ میں پرومپٹ کا کام کرنا سیکھوں۔ آہستہ آہستہ مجھے استاد نصرت اور فرخ فتح علی خان نے یہ سکھانا شروع کر دیا۔’
وہ بتاتے ہیں بعد میں ’کلام کو منتخب کرنا اور پڑھنا لکھنا مجھے استاد نصرت فتح علی خان نے سکھایا۔’
الیاس حسین یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رحمت گراموفون میں ریکارڈ کروائی جانے والی مشہور قوالی میں سے ‘لجپال نبی میرے درداں دی دوا’ اور غزلوں میں سے ‘یاداں وچھڑے سجن دیاں آیاں انکھیاں چو میہنہ وسدا’ بھی دیگر سینکڑوں کے ساتھ شامل ہیں۔
پہلی مرتبہ سولو: ’آؤ خاں صاحب اج سولو ریکارڈ کرو‘
میاں اسد، نصرت فتح علی خان کی پہلی سولو ریکارڈنگ کا واقعہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ’یہ اسّی کی دہائی کا وقت تھا اور ایک دن استاد نصرت ریکارڈنگ کے لیے حسب روایات رحمت گراموفون وقت سے قبل ہی آگئے اور انتظار کے باوجود، ان کے ہمنوا وقت پر نہ پہنچے تو میرے والد نے پنجابی میں ان سے کہا ’آؤ خاں صاحب اج سولو ریکارڈ کر دے ہاں۔‘
’اس پر نصرت فتح علی خان پہلے تو پریشان ہوئے مگر پھر میرے والد کے اصرار پر حامی بھر لی اور فوری طور پر سٹوڈیو میں موجود ایک شاعر سے غزل لکھوائی گئی اور انھوں نے پہلی مرتبہ سولو ریکارڈنگ کی ابتدا کی۔’
میاں اسد کہتے ہیں ‘ان کی ابتدائی سولو ریکارڈنگ میں سے سب سے زیادہ مقبول ‘سُن چرخے دی مِٹّھی مِٹھّی کُوک‘ تھی۔
’جب یہ غزل مارکیٹ میں آئی تو ان کی گائیکی کو ایک نیا بام عروج ملا۔ بلکہ اس وجہ سے کئی گلوکار اور ہمنوا ہم سے ناراض بھی ہوئے کہ اب خاں صاحب کو شاید ان کی ضرورت نہیں۔’
سٹوڈیو میں نصرت کا خاص صوفہ
رحمت گراموفون کے مالک میاں اسد یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نصرت کا ان کے والد سے تعلق بہت گہرا اور دوستانہ تھا، کیونکہ وہ بات چیت کے شوقین تھے اس لیے اکثر دکان پر آ جاتے تھے۔
’بھاری جسامت کے باعث انھیں وہاں زیادہ دیر بیٹھنے میں مشکل پیش آتی اس لیے میرے بڑے بھائی نے ان کے لیے ایک خاص صوفہ بنوایا تاکہ وہ آرام سے اس پر بیٹھ سکیں۔’
اس صوفے کی تلاش تو ممکن نہ ہوسکی لیکن اب جو بھی اس صوفے پر بیٹھتا ہوگا، وہ نہایت خوش نصیب شخص ہوگا۔
ساری ساری رات ریاض
میاں اسد کا کہنا ہے کہ ‘نصرت فتح علی خان سے پیشہ وارانہ تعلق کے تجربے کا اگر تجزیہ کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید وہ واحد قوال ہیں جن کا کوئی کلام، کوئی غزل ایسی نہیں جو کہیں چل رہی ہو تو موسیقی سننے والا یہ کہہ دے کہ اس کو فارورڈ کریں۔
’لوگ ان کی آواز کو سنتے تھے، ان کی ادائیگی کو سنتے تھے۔ انھیں موسیقی سے عشق تھا اور وہ اس متعلق بہت حساس تھے۔‘
ان کے دریرنہ ساتھی، شاگرد اور ہمنوا الیاس حسین کا کہنا ہے کہ ‘خان صاحب دنیا کے کسی بھی حصے میں خواہ کتنا ہی طویل دورانیے کا شو پرفارم کر کے جب واپس ہوٹل آتے تو ہمیں کہتے کہ میرا ہارمیونیم باجا میرے کمرے میں رکھ دو، ہم اپنی نیند پوری کر کے اٹھتے تو دیکھتے کے وہ اس پر ریاض کر رہے ہیں۔’
الیاس حسین کے مطابق ‘وہ سوتے وقت بھی بستر پر اپنا ہارمونیم ساتھ رکھ کر سوتے تھے اور نیند میں بھی ایک انگلی اس پر رکھی ہوتی تھی۔’
الیاس کا کہنا ہے کہ ‘دوران سفر جہاز میں جب ہارمونیم موجود نہ ہوتا تو اپنے سینے یا پیٹ پر ہی انگلیوں سے سروں کی ریاضت کرتے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے ساری زندگی انھیں کبھی ہارمونیم کے بغیر نہیں دیکھا۔’
میاں اسد، نصرت فتح علی خان کی موسیقی اور سروں کی سمجھ کے متعلق ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ‘ایک بہت بڑی نجی محفل میں جہاں وہ خود بھی موجود تھے نصرت علی خان پرفارم کر رہے تھے اور لوگ ان کی دھنوں اور قوالیوں پر دیوانہ وار جھومنے کے ساتھ ساتھ ان پر ویلوں کی صورت نوٹ نچھاور کر رہے تھے، کہ اچانک انھوں نے اپنے سازندے سے اشارے سے کہا کہ ہارمونیم کے سر ٹھیک نہیں ہیں دیکھوں اس میں کیا مسئلہ ہے جب غور کیا گیا تو اس باجے کی ہوا والی جگہ پر ایک ہزار کا نوٹ پھنسا ہوا تھا جو سُر کو دبا رہا تھا۔’
’تمھیں معلوم ہے یہ کون ہیں؟‘
میاں اسد نصرت فتح علی خان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘وہ ایک درویش صفت انسان تھے، انتہائی مخلص اور عزت دینے والے باوفا انسان تھے۔’
میاں اسد کے مطابق ‘نصرت فتح علی خان دوستوں کی محفل یا بیٹھک کے شوقین تھے اور گپ شپ کرنا پسند کرتے تھے تاہم ان کی گفتگو کا زیادہ تر عنصر موسیقی ہی ہوتا تھا۔’
وہ بتاتے ہیں کہ نصرت ‘ریکارڈنگ سے دو تین گھنٹے قبل ہی دکان (رحمت گراموفون ہاوس) آ جایا کرتے تھے اور میرے بڑے بھائی میاں ارشد اور والد سے گپ شپ لگاتے تھے۔’
میاں اسد کا کہنا ہے کہ ‘وہ بہت ایماندار اور لحاظ رکھنے والے شخص تھے۔ نہایت حساس طبیعت کے نفیس انسان تھے۔’
میاں اسد کا کہنا ہے کہ ‘جیسا کہ میرے والد صاحب نے انھیں اپنے ریکاڈنگ سٹوڈیو کے ذریعے بریک دی تھی وہ ہمیشہ میرے والد کو اپنا محسن قرار دیتے اور بڑے بھائی کا درجہ دیتے حالانکہ ان دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا۔’
میاں اسد کا کہنا ہے کہ ‘اس دور میں نصرت کو بھی بہت شہرت ملی تو رحمت گراموفون کا نام بھی بہت اوپر گیا۔’
وہ نصرت کی انکساری، عاجزی اور تعلق کے متعلق ایک واقعہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘نوے کی دہائی میں جب نصرت شہرت کی بلندیوں پر تھے تو میرے والد اور بڑے بھائی ان سے لاہور ملنے گئے۔
’اس وقت کوئی غیر ملکی وفد ان سے ملاقات کر رہا تھا تو ان کے عملے نے میرے والد اور بھائی کو انتظار گاہ میں بٹھا دیا اور انتظار کرتے ہوئے تقریباً ایک گھنٹہ بیت گیا۔ اس بات کا علم جب نصرت کو ہوا تو وہ فوراً وفد سے جاری ملاقات سے اٹھ کر ننگے پیر باہر آئے اور فوراً میرے والد اور بڑے بھائی کو اندر لے گئے اور عملے کو کہا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون ہیں؟’
زمین پر بیٹھنے والے کو پیسے کی لالچ نہیں
میاں اسد کا کہنا ہے کہ نصرت فتح علی خان میں دیگر بہت سے فنکاروں کی طرح پیسے کا لالچ نہیں تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ‘اپنے عروج کے دور میں بھی اگر میرے والد صاحب نے انھیں کسی جگہ کوئی پروگرام کرنے کا کہہ دیا تو انھوں نے پیسوں سے متعلق نہ کبھی پوچھا، نہ تقاضہ کیا۔ بلکہ چُپ کر کے پرفارم کر آئے’
الیاس حسین بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘جس کسی نے خلوص سے آکر نصرت سے قوالی کی محفل یا پروگرام کی درخواست کی تو انھوں نے بنا پیسے کے یہ مطالبہ قبول کر لیا۔’
ان کے مطابق جب کوئی متوسط طبقے کا مداح انھیں مدعو کرتا تو وہ ’اپنے سیکریٹری اور ہمیں باقاعدہ تاکید کرتے کہ پیسوں کے لیے اس کو تنگ نہ کیا جائے اور وہاں بھی کسی قسم کی حجت نہ کی جائے۔’
الیاس حسین کہتے ہیں ‘میرا استاد ایک درویش تھا مجھے ان کے ساتھ رہتے بھی پتا نہیں تھا کہ وہ کس قدر عظیم انسان ہیں۔ انھیں زمین پر بیٹھاتے تو وہ بیٹھ جاتے۔’
شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ
الیاس حسین کا کہنا ہے کہ جب 1992 کے ورلڈ کپ کے بعد عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال بنانے کا اعلان کیا تو اس کام کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے انھوں نے نصرت کے ساتھ مل کر یورپ اور امریکہ میں متعدد شو کیے۔
الیاس حسین کا کہنا ہے کہ ‘میرے استاد نے عمران خان کے ہسپتال میں بہت معاونت کی اور اس کے لیے متعدد شو بالکل مفت کیے۔’
عمران خان بھی نصرت کے بڑے مداحوں میں سے ایک ہیں۔ ایک فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ نصرت سے مخصوص فرمائش کر رہے ہیں اور ان کی قوالی مزے سے سن رہے ہیں۔
اپنے سازندوں اور ہمنواؤں کے ساتھ تعلق
نصرت فتح علی خان کا اچھا اخلاق صرف مداحوں اور دیگر شخصیات تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ وہ اپنے سازندوں اور ہمنواؤں کے ساتھ بھی بہت اچھے انداز میں پیش آتے۔
میاں اسد کے مطابق ‘نصرت فتح علی خان کو جب بھی کسی قوالی کی محفل یا ریکارڈنگ کے لیے جانا ہوتا تو وہ مقررہ وقت سے دو تین گھنٹے قبل ہی دکان پر آ جاتے جبکہ ان کی قوال پارٹی میں شامل ہمنوا انھیں بہت انتظار کرواتے تھے۔ جس پر وہ پریشان تو ہوتے مگر انھیں کبھی کچھ کہتے نہیں دیکھا۔’
جبکہ الیاس حسین کا کہنا ہے کہ ‘استاد صاحب صرف گھر پر ریہرسل کے دوران ڈانٹتے تھے کہ اب ٹھیک طرح سے ریاض کر لو جو غلطی ہو یہاں ہو، لوگوں کے سامنے نہ ہو لیکن کبھی بھی کسی شو کی دوران یا ریکارڈنگ کے دوران کسی کو نہیں ڈانٹا۔’
میاں اسد بتاتے ہیں کہ اکثر ریکارڈنگ کے بعد وہ اپنے ہنمواؤں کے ساتھ خوش گپیاں اور مذاق کرتے تھے اور کسی ایک کو اشارہ کر کے دوسرے پر ’جگت‘ لگانے یا مذاق کرنے کا کہنا، تاہم ان کا حِس مزاح بہت اچھا اور باخلاق تھا۔
الیاس حسین بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘جی وہ شغل کے شوقین تھے اور ہمیں ایک دوسرے کا ’چیزا‘ لینے کا کہتے اور خود مسکراتے رہتے لیکن انھوں نے کبھی بھی کوئی غیر اخلاقی بات کو مزاح نہیں بنایا۔‘
‘سنگنگ بدھا’ سے ‘مسٹر اللہ ہو’ تک کا سفر
نصرت فتح علی خان نے موسیقی کو رنگ، نسل، مذہب اور زبان کی قید سے آزاد کر کے وہ جلا بخشی کے ہر کوئی ان کے سُروں، دھنوں اور موسیق کا دیوانہ ہو گیا۔
ایشیا، یورپ اور امریکہ ہر جگہ انھیں موسیقی کا بے تاج بادشاہ اور شہناہ قوال کا کہا جانے لگا۔
الیاس حسین کا کہنا ہے کہ نصرت فتح علی خان پر صوفیانہ کلام کا روحانی اثر ایسا ہوتا کہ وہ وجد کی کیفیت میں چلے جاتے اور اللہ کی ثنا کے دوران ان کی آنکھیں نم ہو جاتی۔’
الیاس حسین کا کہنا ہے کہ ‘یورپ کے دورے پر جب انھوں نے ‘اللہ ہو اللہ ہو’ گایا تو گوروں کو سمجھ نہیں آتی تھی مگر وہ دیوانہ وار جھومتے رہتے تھے ، انھیں فرانس میں لوگوں نے مسٹر اللہ ہو کا خطاب دیا۔’
الیاس حسین کے مطابق وہ یورپ میں کہیں بھی جاتے تو لوگ نصرت فتح علی خان کو ‘مسٹر اللہ ہو’ کہہ کر پکارتے۔’
جاپان میں جب فوکوہکو میں انھیں نے میوزک کی میلے میں پرفارم کیا تو جاپانی عوام نے ان کے سُروں اور گائیکی پر انھیں ‘سنگنگ بدھا’ یعنی موسیقی کے دیوتا کا خطاب دیا۔
الیاس حسین بتاتے ہیں کہ ‘جب بھی جاپان کسی شو کے لیے جاتے تو ہال میں ان کے داخل ہوتے ہی تمام افراد اپنی نشستوں سے اٹھ جاتے اور شو شروع ہونے سے پہلے ان کے احترام میں کم از کم ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی۔’
الیاس حسین کا کہنا ہے کہ یورپ میں ان کے بہت سے شاگرد تھے۔
عطا اللہ عیسی خیلوی کا جھومر اور گوروں کی دھمال
نصرت فتح علی خان کی آواز کے جادو سے شاید ہی کوئی بچا ہو، ان کی گائیکی کا سحر جہاں عام مداحوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا تھا وہی چوٹی کے گلوکار اور فنکار بھی ان کے سُروں پر جھومے بنا نہیں رہ پاتے تھے۔
میاں اسد ایسا ہی ایک واقعہ بتاتے ہیں کہ ‘ان کے بڑے بھائی کی شادی پر جہاں ملک بھر کے نامور گلوکار، موسیقار اور فنکار شریک تھے، ایسا ماحول بنا کہ نصرت فتح علی خان ‘واریاں سائیاں تیرے واریاں’ قوالی گا رہے تھے اور عطا اللہ عیسیٰ خیلوی جھومر ڈال رہے تھے۔
جبکہ الیاس حسین نوے کی دہائی میں امریکہ میں ایک لائیو شو کے دوران نصرت کی جانب سے مشہور گیت ‘میرا پیا گھر آیا’ گانے کا قصہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘جب خاں صاحب نے وہ گانا شروع کیا تو سٹیج کے سامنے گوروں نے دھمال ڈالنا شروع کر دی، ان میں سے ایک خاتون نے اتنی دھمال ڈالی کے اس کے پیروں سے خون بہنا شروع ہو گیا۔’
پچاس گھنٹے کی نایاب ریکارڈنگ
رحمت گراموفون کے مالک میاں رحمت کے بیٹے اسد کا دعویٰ ہے کہ آج بھی ان کی پاس نصرت فتح علی خان کے گانوں کی پچاس گھنٹے کی ایسی نایاب ریکارڈنگ موجود ہے جو کبھی بھی مارکیٹ میں نہیں آئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی والد اور بڑے بھائی میاں ارشد جو اس کاروبار سے زیادہ منسلک تھے کی وفات اور رحمت گراموفون کمپنی ختم کیے جانے کے بعد سے تمام چیزوں کو بند کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ آج بھی ان کے پاس نصرت فتح علی خان کی قوالیوں اور گانوں کی پچاس گھنٹے کی ایسی نایاب ریکارڈنگ محفوظ ہے جو آج تک کسی بھی سطح پر مارکیٹ میں نہیں آئی ہے۔’
کلام بھولنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا
الیاس حسین سے جب ان کی کام کی نوعیت سے متعلق ایک سوال پوچھا کہ کیا کبھی نصرت فتح علی خان دوران شو یا ریکارڈنگ کوئی کلام بھولے تو ان کا کہنا تھا کہ ‘سنہ 83 سے 97 تک میں نے انھیں کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا، ان کی یاد داشت انتہائی اچھی تھی اور تمام تر کلام انھیں ازبر تھا۔’
ایک واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ 90 کی دہائی کے آغاز میں امریکہ میں ایک شو کی دوران میں نے انھیں چند مصرعے غلط بتا دیے لیکن انھیں وہ یاد تھے لہذا انھوں نے اپنا سُر اور لے طویل کر دی اور جب تک میں نے انھیں صحیح مصرعہ نہیں بتایا انھوں نے اسے ادا نہیں کیا۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘میں نے کبھی ایسا قوال نہیں دیکھا بس وہ اپنا رنگ خود ہی تھے۔’
‘مست قلندر’ اور ‘حق علی علی ‘ کا وارد ہونا
الیاس حسین کے مطابق نصرت فتح علی خان کو کلام ’مست قلندر‘، ’اللہ ہو‘ اور ’حق علی علی‘ اتنا پسند تھا کہ وہ اس کو گاتے وقت بے اختیار رو پڑتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘حق علی علی’ کا کلام ان پر ایسا وارد ہوتا کہ وہ انھیں خود ہی خبر بھی نہ رہتی۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘میرا استاد ولیوں جیسا استاد تھا۔’
الیاس حسین کا کہنا ہے کہ نصرت کی شہرت میں مقبولیت کے باوجود دیگر فنکاروں کو نہیں بھولتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ استاد نصرت فتح علی خان نے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ملک کے مشہور سولو غزل گائیک اعجاز قیصر کی اپنی دھنیں، طرزیں اور کلام دے کر گنوایا اور اس کی بہت حوصلہ افزائی کی۔
الیاس حسین کے مطابق وہ ان کی ریکارڈنگز کر کے بیرون ملک پروموٹرز کو سناتے تھے تاکہ انھیں بھی بیرون ملک پرفارم کرنے کا موقع ملے۔
سرگم سٹوڈیو کا قیام
استاد نصرت نے نوے کی دہائی کے آغاز میں لاہور میں اپنے ریکارڈنگ سٹوڈیو سرگم کا قیام کیا اور بہت سی ریکارڈنگز پھر وہی کرنے لگے۔
وہ نوے کی دہائی کے آغاز میں ہی فیصل آباد سے لاہور منتقل ہو چکے تھے۔
فلم ’کچے دھاگے‘، دورہ انڈیا اور پھر آخری دورہ
الیاس حسین کے مطابق نصرت جب انڈین فلم ’کچے دھاگے‘ کے لیے انڈیا پہنچے تو ہوٹل لابی میں ان کے مداحوں اور بالی وڈ فنکاروں کی ایک لمبی قطار تھی۔
وہ بتاتے ہیں ‘ہوٹل لابی پوری طرح بھر چکی تھی، عام مداحوں کے ساتھ ساتھ ہیما مالینی جیسی اداکارہ بھی ان سے ملاقات کرنے آئیں تھیں۔’
الیاس حسین نصرت کے آخری دورہ انگلینڈ جس کے دوران ان کی موت واقع ہوئی تھی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘دورہ سے قبل سرگم سٹوڈیو میں تمام قوال پارٹی کو بلایا اور کہا کہ انگلینڈ جا رہا ہوں اس کے بعد امریکہ کا دورہ ہے جہاں تم لوگوں سے ملاقات ہوگی، اب میری طبعیت ٹھیک نہیں رہتی واپس آکر بس انڈیا کو ہی امریکہ بنا دیں گے اور وہاں شو کیا کریں گے۔’
لیکن انھیں شاید یہ علم نہیں تھا کہ ان کے جانے کے بعد بھی پوری دنیا ان کی قوالی پر جھومتی رہے گی۔
بیٹی کے رونے پر شو میں تاخیر
استاد نصرت فتح علی خان کی اکلوتی اولاد ان کی بیٹی ندا نصرت ہیں جو اب کینیڈا میں مقیم ہیں۔
ندا نصرت نے اپنے والد کی یادوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میں اس وقت تیرہ چودہ برس کی تھی جب ان کا انتقال ہوا، میرا ان کے ساتھ زیادہ وقت تو نہیں گزرا لیکن بجپن میں ہوش سنبھالنے کے بعد چھ سات برس کے عرصے کی یادیں ایسی جو میری زندگی کا حاصل ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک لیجنڈری فنکار کی بیٹی کہلانے میں بہت فخر محسوس کرتی ہیں۔
‘ان کے جیسا فنکار اور والد شاید ہی کوئی ہو گا۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ عالمی افق پر چمکنے والے فنکار کی بیٹی ہونے کا اعزاز ملا۔’
وہ کہتی ہیں کہ ‘اکثر بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اتنے عرصے بعد کیوں منظر عام پر آئی ہوں، لوگوں کو میرے بارے میں علم ہی نہیں ہے تو میں کہتی ہوں کہ میرے والد ایک عام انسان نہیں تھے میں آج بھی 16 اگست کے دکھ میں جی رہی ہوں، میں آج تک اس سے باہر نہیں نکل پائی۔’
استاد نصرت کے ساتھ بتائے وقت کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ‘ان کو اپنے کام سے عشق تھا، ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا تھا لیکن جب بھی وہ گھر پر کوئی طرز بنا رہے ہوتے یا ریاض کرتے تو میں ان کے کمرے کے پردے کے پیچھے سے انھیں چھپ چھپ کر سنتی اور دیکھتی۔’
وہ کہتی ہیں کہ’ ہمارے گھر میں ایک ایسا حصہ تھا جہاں بچوں اور خواتین کو جانے کی اجازت نہیں تھی، انھیں اس بات کا علم ہوتا کہ میں پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ہوں، وہ مجھے دیکھتے تو میں وہاں سے بھاگ جاتی۔’
ندا نصرت بطور والد ان کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے یاد کرتیں ہیں کہ ‘ مجھے بچپن میں قلم اور کلر پنسلز کا بہت شوق تھا تو وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے وہاں سے میرے لیے بہت سے مہنگے اور مخلتف پین اور کلرپنسلز لاتے۔ ڈھیروں کلرنگ بکس لاتے، ان کے سامان میں سے آدھا سامان میری چیزوں کا ہوتا۔’
وہ ایک یاد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘کام کی مصروفیت کے باعث وہ فیملی کو زیادہ وقت نہ دے پاتے اور اس کا انھیں بہت شدت سے احساس تھا۔
’ایک دفعہ بیرون ملک سے شو کے بعد واپس گھر آئے تو آتے ہی مجھے اپنی گود میں لیتے ہوئے کہا اب میں اپنی بیٹی کے ساتھ وقت گزاروں گا، میں نے ان سے پوچھا بابا اب آپ کتنے دنوں کے لیے میرے ساتھ رہیں گے تو انھوں نے اس بات پر زارو قطار رونا شروع کر دیا۔’
ندا نصرت کے مطابق وہ بہت حساس طبعیت کے مالک تھے۔
ندا نصرت کا کہنا تھا کہ جب ہم دونوں باپ بیٹی ایک ساتھ ہوتے تو وہ بھول جاتے کے ارد گرد کی دنیا میں کہا ہے، وہ تمام توجہ مجھے دیتے۔
‘شاید انھیں دنیا سے جلدی چلے جانے کا علم تھا، وہ ہر کام جلدی کرنا چاہتے تھے جب والدہ پوچھتی کہ آپ کو خدا نے اتنی شہرت دی ہے آپ کو جلدی کیوں ہے تو بابا کہتے کہ ابھی تم لوگوں کو نہیں سمجھا سکتا۔’
ندا نصرت کا کہنا ہے کہ ‘جب بھی کبھی ان کے ساتھ بیرون ملک کسی شو پر جانے کا موقع ملتا تو وہ مجھے سٹیج کے بالکل سامنے بیٹھاتے اور شو کے دوران مجھے دیکھ دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک آتی۔ بریک کے دوران بھی مجھے سٹیج پر بلا کر پوچھتے رہتے۔’
بچپن کے ایک واقعہ کے متعلق ندا نصرت نے بتایا کہ ‘میری عمر اس وقت قریباً چھ برس تھی اور لندن میں ایک شو کے لیے میں ان کے ساتھ تھی، گھر سے جلدی نکلنے کے باعث میں اپنی چوسنی بھول گئی اور جب شو کے لیے ہال میں پہنچے تو میں نے رونا شروع کر دیا، جس پر بابا سخت پریشان ہو گئے۔
’وہ مجھے پریشان نہیں دیکھ سکتے تھے، دوسری طرف شو آرگنائزرز انھیں شو شروع کرنے کا کہہ رہے تھے کہ تاخیر ہو رہی ہے، انھوں نہ کہا جب تک میری بیٹی چپ نہیں ہو گی میں شو شروع نہیں کر سکتا۔
’لہذا ایک بندے کو واپس گھر بھیج کر میری چوسنی منگوائی گئی اور جب میں چپ ہوئی تو انھوں نے تاخیر سے شو شروع کیا۔ دوران شو بھی وہ بریک میں میرے پاس آ کر مجھے پیار کرتے رہے۔’
وہ کہتی ہیں کہ جب بھی ان کی کوئی البم ریلیز ہو کر آتی تو اس کی پہلی کاپی وہ مجھے دیتے اور اگلے دن مارکیٹ میں ریلیز کرتے، میں ان کی تمام البمز کو اپنے سراہنے تلے رکھ کر سوتے تھی۔
ندا کا اس سوال پر کہ کیا کبھی نصرت نے انھیں گانے کے لیے کہا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے گھرانے کی روایات ہے کہ خواتین نہیں گاتیں لیکن کبھی جب وہ گھر پر ہوتے اور ریاض کے دوران مجھے بلا لیتے اور کہتے میرے ساتھ ساتھ گاؤ تو میں ان کے ساتھ کچھ گنگنا لیتی تھی۔’
وہ بتاتی ہے کہ ‘میں نے پیشہ ورارانہ طور پر کبھی نہیں گایا لیکن آج بھی گھریلو تقاریب میں کچھ گنگنا لیتی ہوں۔’
نصرت کی بیٹی کا کہنا تھا کہ ‘بچپن میں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ ہو جاتی اور اگر وہ پاس ہوتے تو ان کے پیچھے چھپ جاتی۔
’وہ ہمیشہ مجھے کہتے تم میری بیٹی نہیں بیٹا ہو، کبھی کسی چیز سے گھبرانہ نہیں اور ہمیشہ ہر چیز کا بہادری سے سامنا کرنا۔’
’مجھے اور میری والدہ کو یہ دُکھ رہا اور ہمیشہ رہے گا کہ کاش ہم بھی لندن میں ان کے آخری دورے پر ان کے ساتھ چلے جاتے۔‘