مشرف غداری کیس: جسٹس وقار سیٹھ اور دیگر ججوں کے تفصیلی فیصلے میں پیراگراف 66 کے علاوہ کیا ہے؟
پاکستان کے سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ ملک میں سیاسی و قانونی بحث کا محور بنا ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ اس تفصیلی فیصلے کا پیراگراف نمبر 66 ہے۔
19 دسمبر کو آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 66 میں بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔
اس کے نتیجے میں ملک میں اپنی نوعیت کے اس پہلے مقدمہ کے فیصلے پر ہونے والی بحث میں صرف پیراگراف 66 کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔
تاہم جسٹس وقار سیٹھ نے اس سے اگلے پیرگراف 67 میں اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے۔ اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہو گا یا نہیں اور کیسے۔
تاہم جہاں سوشل میڈیا پر تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 66 کو وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا لیکن پیراگراف نمبر 67 میں دی گئی توجیہ کو اس کے ساتھ جوڑ کر کم ہی پیش کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ اب تک اس فیصلے میں موجود دیگر اہم نکات سے آگاہ نہیں یا جن پر شاید اتنی بات نہیں ہو رہی۔
اس عدالتی فیصلے میں ایک اہم نکتہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے پہلے حصہ میں بیان کیا گیا ہے جہاں بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ نے مقدمے کی تاریخ، مجرم پر عائد الزامات، ان کی جانب سے پیش کیا گیا دفاع اور دیگر عوامل کا ذکر کیا ہے۔
جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے فیصلے کی ابتدا میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام وفاقِ پاکستان (2008) کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیل سے وہ نکات بیان کیے ہیں جن کی بنا پر جنرل پرویز مشرف کی تین نومبر 2007 کو نافذ کردہ ایمرجنسی اور عبوری آئینی حکم (پی سی او) غیر آئینی اور غیر قانونی تھا۔
عدالت کے سامنے موجود تین سوال
- کیا ملزم نے آئین کو معطل کرتے ہوئے سنگین غداری کی ہے؟
- کیا ایسا کرتے ہوئے ان کی نیتِ جرم تھی یا انھوں نے ایسا کابینہ کی ہدایات یا وزیرِ اعظم کے مشورے پر کیا؟
- کیا ملزم کے حق میں ایسے عوامل تھے جن کے تحت انھوں نے اپنے سنگین غداری کے اقدامات کو قانونی قرار دیا؟
غیر حاضری میں شفاف ٹرائل کیسے؟
تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 33 میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے یکم اپریل 2019 کے فیصلے کے مطابق جب ایک مرتبہ ٹرائل شروع ہو جائے تو اسے کسی بھی ملزم کی غیر حاضری کی وجہ سے تعطل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔
اگر کوئی ملزم خود یہ فیصلہ کرے کہ وہ پیش ہونے کا اپنا حق استعمال نہیں کرنا چاہتا اور ٹرائل میں کیوں موجود نہیں ہونا چاہتا، تو اس سے ٹرائل کی شفافیت بھی متاثر نہیں ہوتی اور نہ ہی آئین کی شق 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
اسی فیصلے کے حوالے میں سپریم کورٹ نے مزید لکھا تھا کہ ضابطہ فوجداری کے تحت ملزم کو اپنے خلاف موجود ثبوتوں پر وضاحت دینے کا حق حاصل ہے تاہم اگر ملزم عدالت میں رضاکارانہ طور پر غیر حاضر رہے تو وہ یہ حق کھو دیتا ہے۔
جسٹس وقار سیٹھ عدالتی فیصلے میں لکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر سپریم کورٹ نے ٹرائل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے خصوصی عدالت نے بھی مشرف کی غیر حاضری میں ٹرائل جاری رکھا۔
غیر حاضری میں فیصلہ؟
جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ملزم کی رضاکارانہ طور پر غیر حاضری کی صورت میں کوئی عام سیشن کورٹ کا ٹرائل رک جاتا کیونکہ ضابطہ فوجداری کے تحت غیر حاضری میں فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا ہے، مگر ضابطہ فوجداری ترمیمی قانون (خصوصی عدالتیں) 1976 ایکٹ کے تحت حکم یہ ہے کہ ایسی صورت میں ٹرائل کو جاری رکھا جائے اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
اس کے علاوہ جسٹس وقار سیٹھ نے تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا کہ عدالت کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ ملزم کی غیر حاضری سے قطع نظر ٹرائل جاری رکھا جائے۔
مشرف کا دفاعی موقف اور عدالتی تبصرہ
جسٹس وقار سیٹھ نے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ قانونِ شہادت 1984 کے تحت جن حقائق کو تسلیم کر لیا جائے انھیں ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
عدالت کے مطابق سامنے موجود ثبوتوں کو دیکھا جائے تو مشرف نے استغاثہ کے عائد کردہ الزامات سے انکار نہیں کیا، جس میں ایمرجنسی کا نفاذ، اس کا اعلان، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے نیا حلف نامہ لانا اور ایمرجنسی کے موقع پر کی گئی تقریر شامل ہے۔
چنانچہ عدالت کے مطابق کیونکہ سابق صدر مشرف نے ان الزامات سے انکار نہیں کیا، اس لیے یہ سوال ہی نہیں ہے کہ آیا انھوں نے مندرجہ بالا کام کیے یا نہیں۔
نظریہ ضرورت کی مذمت
عدالت نے پیراگراف 49 سے آگے متعدد پیراگرافس میں ملک میں ماضی میں لگنے والے مارشل لاز اور ان کی عدالتی توثیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان ادوار میں اعلیٰ عدالتوں نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کروایا ہوتا اور غاصبوں کے خلاف کارروائی کی ہوتی تو آج قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا جب ایک باوردی افسر نے دوبارہ اس جرم کا ارتکاب کیا۔
مددگار باوردی افراد بھی مجرم
عدالت نے پیراگراف 55 میں یہ قرار دیا ہے کہ یہ ناقابلِ یقین اور ناقابلِ تصور ہے کہ اس طرح کا انتہائی قدم کسی باوردی شخص نے اکیلے اٹھایا ہو۔ چنانچہ اس وقت کی کور کمانڈرز کمیٹی اور تمام باوردی افسران جو ان کی ہر وقت حفاظت کرتے رہے اس پورے عمل میں ملزم کے ساتھ مکمل طور پر شریک ہیں۔
اس بارے میں عدالت نے آئین کی شق 6 کی ذیلی شق دو کا حوالہ دیا ہے جس کے تحت شق ایک کے تحت جرم کرنے والے شخص کی مدد کرنے والے اور اس میں ساتھ دینے والے بھی سنگین غداری کے مرتکب ہوں گے۔
عدالت نے لکھا کہ وہ وفاقی حکومت کی دائر کردہ درخواست کے تحت مدد گار افراد کو اس مقدمے میں شامل نہیں کر سکتی مگر وفاقی حکومت ان افسران کے خلاف تفتیش کرنے اور ان کے خلاف درخواست دائر کرنے سے بری الذمہ نہیں ہے۔
سنگین غداری کا مقدمہ آئینی ذمہ داری
عدالت نے تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 63 میں لکھا ہے کہ آئین سازوں نے آئین میں شق 6 آئین کے تحفظ کے لیے شامل کی تھی اور اس لیے سنگین غداری کا مقدمہ ان افراد کے خلاف آئین کے تحت عائد ہونے والی ذمہ داری ہے جو کسی بھی طرح سے آئین کو زیر دست کریں یا ایسا کرنے کی کوشش کریں۔
جسٹس شاہد کریم کے فیصلے کے مرکزی نکات
خصوصی عدالت کے جج جسٹس شاہد کریم نے بھی جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب پایا ہے اور انھیں سزائے موت دینے کی حمایت کی تاہم انھوں نے پیراگراف 66 سے اختلاف کیا ہے۔
اپنے فیصلے کی ابتدا جسٹس کریم اس جملے سے کرتے ہیں کہ ’ججز! آئیں تاریخ کو درست کریں۔‘
اس کی تفصیل میں وہ لکھتے ہیں کہ آئین کی شق چھ (سنگین غداری) ایک آئینی جرم ہے، اور یہ وہ واحد جرم ہے جس کا ذکر پاکستان کے آئین میں کیا گیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں: اس شق کو آئین میں شامل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ’تاریخ کو فیصلہ کرنے دو‘ کے بجائے ’ججز! آئیں تاریخ درست کریں‘ کی روایت کو پروان چڑھایا جائے۔
ممانعت سے پہلے کیے گئے جرم پر سزا
جسٹس شاہد کریم کسی قانون کی موجودگی سے پہلے کیے گئے جرم میں سزا کی ممانعت کرتی آئین کی شق 12 کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کی ذیلی شق دو میں اس ممانعت کا ان قوانین پر اطلاق نہیں ہوتا جو 23 مارچ 1956 کے بعد سے آئین کی معطلی یا منسوخی کے عمل کو غیر قانونی قرار دیں، یعنی ان معاملات میں تب بھی سزا دی جا سکتی ہے جب اس کی ممانعت کا قانون موجود نہیں تھا۔
اسی بنیاد پر جسٹس شاہد کریم نے بھی جنرل مشرف کو مجرم پایا ہے۔
پیراگراف نمبر 60 میں جسٹس شاہد کریم لکھتے ہیں کہ ان کی رائے میں آئین کو معطل کرنا ابتدائی طور پر آئین کی شق چھ میں موجود لفظ ’subvert‘ یعنی توڑنے مروڑنے کے معنوں میں ہی آتا ہے۔
’آئین توڑنے کا آئینی طریقہ موجود نہیں‘
پیراگراف 68 میں خصوصی عدالت کے جج جسٹس شاہد کریم سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام وفاقِ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ پہلے ہی قرار دے چکی ہے کہ ملزم کی جانب سے ایمرجنسی کا نفاذ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا، اور اس لیے اس حوالے سے مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے۔
فیصلے میں انھوں نے مزید لکھا ہے کہ ملزم نے یہ نفاذ آرمی چیف کی حیثیت سے کیا اور آئین کسی فوج کے سربراہ کو یہ اختیارات نہیں دیتا، اس لیے یہ اقدام غیر آئینی ہے۔
’مختلف ناموں سے آئین کی معطلی غیر آئینی‘
عدالت کے تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 74 میں جسٹس شاہد کریم نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے یہ پایا ہے کہ سنہ 2007 میں استعمال کی گئی مختلف زبان سے ان اقدامات کا حتمی مقصد متاثر نہیں ہوتا، جو کہ غیر آئینی طریقے سے مارشل لا کا نفاذ تھا۔
انھوں نے لکھا کہ آئین کی ایک لمحے کے لیے بھی معطلی، یا ایسا کوئی اقدام کرنا جس سے اس کا نفاذ رک جائے، یہ آئین کو پٹخ دینے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں، اس لیے یہ سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
چنانچہ ان کے مطابق عدالت کے سامنے یہ سوال موجود نہیں ہے کہ شکایت میں جن اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے، ان کی آئینی حیثیت کیا ہے۔
انھوں نے پیراگراف 82 میں لکھا کہ ان اقدامات میں آئین کی شق چھ میں متذکرہ عناصر کی موجودگی ایمرجنسی کے نفاذ کے حکم نامے میں استعمال کی گئی زبان سے ظاہر ہوتی ہے جس میں لکھا گیا تھا کہ ’ملک کی حکومت کو آئین کے ذریعے نہیں چلایا جا سکتا اور آئین اس صورتحال سے نکلنے کا حل نہیں فراہم کرتا۔‘
چنانچہ جسٹس کریم کے مطابق یہ سادہ الفاظ میں آئین کی منسوخی تھی۔
’سنگین غداری سنگین سزا کی مستحق‘
پیراگراف 87 تک جسٹس کریم دنیا کے مختلف ممالک میں ماضی میں غداری پر دی جانے والی سزاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ اس سے واضح ہے کہ سنگین غداری کے جرم کی سزائیں عام جرائم سے زیادہ سخت ہوا کرتی تھیں جو اکثر بربریت کی حد کو چھونے لگتی ہیں۔
لیکن وہ اگلے پیراگراف میں جسٹس وقار سیٹھ کی جانب سے جنرل مشرف کی لاش کو ڈی چوک پر لٹکانے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی قانون میں گنجائش نہیں ہے اور ان کے نزدیک مجرم کو موت کی سزا دینا کافی ہے۔
جسٹس نذر اکبر کا سزا سے عدم اتفاق
خصوصی عدالت کے بنچ کے رکن جسٹس نذر اکبر نے اپنے 42 صفحات کے اختلافی نوٹ کے پیراگراف نمبر 18 میں اس حوالے سے تفصیلی بحث کی ہے کہ ان کے نزدیک آئین کی شق 6 کا اطلاق ان جرائم پر نہیں ہوتا جو ممانعت سے پہلے کیے گئے ہوں۔
وہ لکھتے ہیں کہ آئین کی شق چھ میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے کی گئی تبدیلی کے بعد اس شق کی زبان کا جائزہ لیا جائے تو ایسا کوئی لفظ یا فقرہ بمشکل ہی موجود ہے جس کے ذریعے قانون سازوں نے اس کا اطلاق پہلے کیے گئے جرائم پر کرنا چاہا ہو۔
انھوں نے مزید لکھا کہ انھیں ترمیم میں استعمال کی گئی زبان سے کہیں بھی اس شق کو پہلے کے جرائم پر اطلاق کرنے کا واضح ارادہ محسوس نہیں ہوتا۔
17 ویں ترمیم پر بحث
انھوں نے فیصلے میں مزید لکھا کہ شق 6 کا اطلاق ماضی میں اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ ماضی میں پارلیمان خود بھی دسمبر 2003 میں 17ویں ترمیم کے ذریعے آئین کی شق کو ’معطل‘ کرنے کا جرم کر چکی ہے۔
اس ترمیم کے ذریعے آئین کی شق 41 میں ایک ذیلی شق کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت آئین کی شق 63 (1) (ڈی) کو ایک سال کے لیے معطل رکھا گیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے فیصلے میں کہا کہ 3 نومبر 2007 کا عبوری آئینی حکم نامہ پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کے حقوق پر اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کام پر منفی طور پر اثرانداز نہیں ہوا تھا، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمان نے پہلے خاموش رہ کر اور بعد میں آئین کی شق چھ میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکہ دیا جو کہ 3 نومبر 2007 کے اقدامات کی واحد ہدف تھی۔
’پارلیمان نے ایمرجنسی کو تحفظ دیا‘
جسٹس نذر نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے وقت پارلیمان کے کئی ارکان سترہویں ترمیم کی منظوری کے وقت بھی ارکانِ پارلیمان تھے جب جنرل مشرف کے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے آئین کو توڑنے مروڑنے کے اقدامات کیے جا رہے تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ نہیں مانا جا سکتا کہ ارکانِ پارلیمان کسی ترمیم کے ماضی میں اطلاق کے اثرات سے نابلد تھے اور یہ کہ انھیں ملزم کے تین نومبر 2007 کے اقدامات کے تناظر میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے مشاہدات کا علم نہیں تھا۔
انھوں نے مزید لکھا کہ آئین کی شق چھ میں ترمیم کرنے کے بعد پارلیمان نے عدالت کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ ملزم کے ’آئین کی چند شقوں کو معطل کرنے‘ کے اقدام پر انھیں سنگین غداری کی سزا دے۔
‘اعتزاز احسن کو فون کال کی گئی’
جسٹس نذر نے اپنے فیصلے میں عدلیہ بحالی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ کے دن جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس پاکستان تعینات کیا گیا جنھوں نے 25 مارچ 2008 کو نئی حکومت بننے کے بعد بھی 21 مارچ 2009 کو اپنی ریٹائرمنٹ تک اپنے عہدے کی مدت پوری کی۔
یہاں پر جسٹس نذر لکھتے ہیں کہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ کس نے کہاں سے نامور وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کو دن کے وقت کال کر کے بتایا کہ اگلے دن تک عدلیہ بحال ہو جائے گی۔
پیراگراف 31 میں وہ اعتزاز احسن کو مبینہ کال کرنے والے شخص کی شناخت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے ابھی بھی سامنے آنا باقی ہے لیکن وہ اتنا یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ نہ پاکستان کے صدر نہ ہی وزیرِ اعظم تھے اور قائدِ حزبِ اختلاف نواز شریف اس وقت اعتزاز احسن کے ساتھ موجود تھے۔ ’اس سے زیادہ کوئی تبصرہ نہیں۔‘
’سنگین غداری نہیں تصور کیا جا سکتا‘
پیراگراف 31 میں جسٹس نذر لکھتے ہیں کہ آئین کی شق چھ میں ترمیم کے ماضی میں اطلاق پر اپنے قانونی مؤقف اور آئین کی شق چھ کی ذیلی شق ایک اور دو میں بیان کی گئی سنگین غداری کے ملزم افراد کے خلاف شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے میں وزارتِ داخلہ کی ناکامی کے سبب یہ واضح ہے کہ استغاثہ ملزم کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ بنانے میں ناکام ہو چکا ہے۔
’وزیر قانون نے دھوکہ دیا‘
جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں سول حکومت اور اس کے نمائندوں کے کردار پر بات کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کا ذکر کیا ہے۔ جسٹس نذر نے لکھا ہے کہ تین نومبر 2007 کو جب ایمرجنسی نافذ کی گئی تو اس وقت زاہد حامد وزیرِ اعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں وفاقی وزیرِ قانون تھے۔
انھوں نے لکھا کہ زاہد حامد نے مولوی اقبال حیدر سمیت تمام درخواست گزاروں کو اس حلف نامے کے ذریعے دھوکہ دیا کہ وفاقِ پاکستان نے جنرل مشرف کے 3 نومبر 2007 کے ان اقدامات کے خلاف انکوائری اور تحقیقات کا حکم دیا ہے جو ممکنہ طور پر آئین کی شق چھ کے تحت سنگین غداری کے زمرے میں آتے ہوں۔
جسٹس نذر اکبر لکھتے ہیں کہ عام درخواست گزاروں نے اس حلف نامے کی بنا پر اپنی پٹیشز آگے نہیں بڑھائیں، درحقیقت وفاق کا ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں اور یہ اس بات سے عیاں ہے کہ تین نومبر 2007 کو اور حلف نامہ جمع کروائے جانے والے دن یعنی 26 جون 2013، دونوں تاریخوں پر وزیرِ قانون ایک ہی شخص یعنی زاہد حامد تھے۔
جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اسی وجہ سے اس شکایت سے پہلے کی گئی انکوائری کا معیار مایوس کن حد تک خامیوں سے بھرپور تھا اور ایسا سماعتوں کے چھ سال کے دوران استغاثہ کے رویے اور اس فیصلے میں پیش کیے گئے ثبوتوں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔