پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی حکومت مخالف آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے بعد تیار کردہ ایکشن پلان میں جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے سیاست میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اے پی سی کی جانب سے منظور کردہ قرار داد جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے پڑھ کر سنائی گئی جس میں اکتوبر سے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا بھی اعلان کیا گیا اور اس اتحاد کو ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کا نام دیا گیا۔
اتوار کو قرارداد میں حکومت سے متعدد مطالبات کیے گئے ہیں جن میں سی پیک کے حوالے سے وزیرِ اعظم کے مشیر عاصم باجوہ کے خلاف حال ہی میں لگائے گئے الزامات کی تفتیش کا مطالبہ شامل تھا۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں شفاف، آزادانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات یقینی بنائے جائیں اور اس موقع پر فی الفور ایسی اصلاحات کی جائیں جن میں فوج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
اس کے علاوہ اے پی سی کی قرار داد میں اٹھارویں ترمیم کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
قرارداد میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ’سقوطِ کشمیر‘ کا ذمہ دار بھی موجودہ حکومت کو ٹھہرایا گیا اور حکومت کی افغان پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ’پاکستانی شہریوں کو مسنگ پرسنز بنانے کی روایت کو ختم کیا جائے اور پہلے سے مسنگ پرسنز کو عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے۔‘
اجلاس میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ آٹے، چینی، گھی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو فوری طور پر کم کیا جائے۔
اس کے علاوہ ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کی کوششوں کو بھی رد کیا گیا اور کہا گیا کہ وفاقی پارلیمانی جمہوریت ہی ملک کے تحفظ کی ضامن ہے۔
قرار داد میں ملک میں میڈیا پر تاریخ کی بدترین قدغنیں لگانے، دباؤ اور سینسرشپ کے ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کی گئی اور گرفتار صحافیوں کو رہا کرنے کے علاوہ جن صحافیوں پر غداری کے مقدمات درج کیے گئے ہیں انھیں خارج کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
قرارداد میں ملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی اسلام آباد سمیت ملک بھر میں حالیہ فرقہ وارانہ تناؤ کو خطرناک قرار دیا گیا اور حکومت کی مجرمانہ غفلت کی شدید مذمت کی گئی۔
اجلاس کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں مقررہ وقت پر صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں اور اسے قومی سیاسی دھارے میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور وہاں انتخابات میں ایجنسیز کی مداخلت ختم کی جائے۔
قرار داد اور ایکشن پلان کے اعلان کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اب اے پی سی میں موجود جماعتیں ’سیلیکٹڈ حکومت اور ان کے سہولت کاروں‘ کے خلاف تحریک شروع کر رہے ہیں۔
انھوں نے پی ٹی آئی کے اندر سے کسی اور آپشن سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس حوالے سے تمام جمہوری روایات کو ذہن میں رکھیں گے لیکن ہمیں ایک سلیکٹڈ وزیرِ اعظم کے بدلے دوسرا سیلیکٹڈ وزیرِ اعظم نہیں چاہیے۔‘
نواز شریف کا خطاب
اس سے قبل، پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ان کی جدوجہد پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ انھیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیر اعظم یوسف گیلانی نے کہا تھا ’ملک میں ریاست کے اندر ریاست ہے‘۔ لیکن اب معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے۔‘
نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ملک میں جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کیسے ان کے خلاف سازش ہوتی ہے اور قومی سلامتی کے خلاف نشان دہی کرنے پر انھیں غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔‘
اس کانفرنس کی میزبان جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری ویڈیو لنک کے ذریعے ابتدائی خطاب کرتے ہوئے تمام شرکا اور خصوصاً مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کا اس کانفرنس میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
آصف زرداری نے کہا ہے کہ ’ہم صرف حکومت گرانے کے لیے نہیں ملے ہیں۔ ہم حکومت نکال کر جمہوریت بحال کر کے رہیں گے۔ میثاق جمہوریت سے ہم آہنگی پیدا کی تھی۔ شرکاء اے پی سی میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ ہم نے کوشش کی دو سال میں جمہوریت بچے۔‘
آصف زرداری کے خطاب کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کا اے پی سی سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتے ہیں اور ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مصلحت چھوڑ کر فیصلے کیے جائیں۔
‘جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بےباک فیصلے کریں۔ آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہمیشہ جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنھیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں۔
انھوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اسے پہلے بے اثر پھر فارغ کر دیا جاتا ہے، بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ایک بار بھی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں اور جیلوں میں ہیں لیکن کیا کبھی کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟
انھوں نے مزید کہا کہ ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا، کیا کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا خصوصی عدالت بنی، کارروائی ہوئی، سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا؟
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس کانفرنس کو بامقصد بنانا ہوگا۔ یہ ٹرینڈ آصف زرداری صاحب نے سیٹ کیا ہے اسی کو لے کر جانا ہو گا۔72 برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے۔‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ عوام کی رائے پر جمہوریت کی بنیاد ہے۔ دنیا بھر میں یہی اصول ہے۔ جب جمہوریت کی بنیاد پر ضرب لگتی ہے تو سارا نظام جعلی ہو کر رہ جاتا ہے۔ حکومت بن بھی جائے تو سازش سے اسے بے اثر اور پھر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ریاستی ڈھانچہ اس سے کمزور ہوتا ہے اور عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
نواز شریف نے اپنے خطاب میں آصف زرداری کا شکریہ بھی ادا کیا اور ان کی صحت کے لیے نیک تمنائیں بھی دی۔ ان کا کہنا تھا ‘محترم آصف زرداری صاحب اللہ آپ کو بھی صحت عطا کرے۔ میری دعائیں آپ کے لیے اور بلاول کے لیے ہیں۔ ان سے پرسوں بات کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ جس پیار محبت سے انھوں نے بات کی میں نہیں بھولوں گا۔’
ان کا کہنا تھا کہ میں کانفرنس کے میزبانوں کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس کانفرنس میں اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔
’جدوجہد عمران خان سے نہیں، اسے لانے والوں کے خلاف ہے‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ: ’وقت آگیا ہے کہ ان سوالوں کے جواب لیے جائیں۔ دو وزیر اعظم موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں جن کا وزیر اعظم یا صدر کو علم نہیں ہوتا۔
’ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اکتوبر 2016 میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران توجہ دلائی گئی کہ دوستوں سمیت دنیا کو ہم سے شکایت ہے ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ دنیا ہم پر انگلی نہ اٹھائے تو اسے ڈان لیکس کا نام دیا اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی بنی اور مجھے غدار اور ملک دشمن بنا دیا گیا۔‘
’ایک ٹویٹ میں ‘مسترد’ کا ٹائٹل دے دیا گیا۔ سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب چینی صدر کا دورہ منسوخ کرایا گیا۔ چین ہمارا دوست ہے۔ صدر شی جن پنگ کا کردار باعث تعریف ہے۔ لیکن یہ منصوبہ نااہلی کا شکار ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے ساتھ پشاور بی آر ٹی جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ کبھی بسوں میں آگ تو کبھی بارش پول کھول دیتی ہے۔
’آمر کے بنائے ادارے نیب کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی۔ یہ اندھے حکومتی انتقام کا اعلیٰ کار بن چکا ہے۔ اس ادارے کے چیئرمین جاوید اقبال کی خلاف کارروائیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا، نہ عمران خان کے کان پر کوئی جو رینگتی ہے۔‘
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’بہت جلد انشا اللہ ان سب کا یوم حساب آئے گا۔ بین الاقوامی ادارے اور ہماری عدالتیں اس کے کردار کو بیان کر چکی ہیں۔ یہ ادارہ اپنا جواز کھو چکا ہے۔ اپوزیشن کے لوگ اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور گھر کی خواتین کے ساتھ نیب کے دفتروں اور جیلوں میں رُل رہے ہیں۔ نیب نہیں تو ایف آئی اے، اینٹی نارکوٹکس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’سینیٹ میں انتخابات سے قبل ایک سازش کی گئی جس کے تحت بلوچستان کی صوبائی حکومت گِرا دی گئی۔‘
نواز شریف نے چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے اثاثوں پر سوال اٹھائے۔ ‘نہ کوئی جے آئی ٹی بنی نہ کوئی احتساب نہ کوئی سزا۔ عمران خان نے بھی ان کے اثاثوں کا نہیں پوچھا اور ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔’
انھوں نے خطاب میں ملکی اداروں سے سوال کیا کہ ’کیا بنی گالہ کی فائل ایسے ہی بند رہے گی۔ ہم کب تک انتظار کریں گے۔ کیا ان لوگوں پر کوئی فوجداری مقدمہ درج نہیں ہو گا۔ عمران خان نے اربوں کے اثاثے رکھتے ہوئے بھی اتنا کم ٹیکس ادا کیا ہے۔ کیا نیب اس پر کوئی ایکشن نہیں لے گا؟‘
’کیا کچھ لوگ آگے بھی سزائیں پاتے رہیں گے اور کچھ لوگ ایمانداری کے سرٹیفیکیٹ پاتے رہیں گے۔ کیا ہم ایسا پاکستان اپنی آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ میں تو کہوں گا کبھی بھی نہیں۔‘
’ایجنسیوں کی جانب سے لوگوں کو اٹھانا، میڈیا کے نمائندوں کو بے بنیاد مقدمات میں نامزد کر دینا کیا، یہ جمہوری معاشرے کی نشانیاں ہیں؟ ہم میڈیا پر کوئی قدغن منظور نہیں کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے ‘لڑاؤ اور حکومت کرو’ کی پالیسی نافذ کر دی گئی ہے۔ سیاستدانوں کو بلایا، ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا۔ یہ طریقہ آج بھی استعمال ہوتا ہے۔ محکمہ زراعت کو تو آپ سمجھتے ہی ہیں۔ ہم ایک ہو کر تقسیم نہیں ہوتے تو یہ کانفرنس کامیاب ہوگی۔۔۔ وکلا، دانشوروں، میڈیا اور عدلیہ کے لیے بھی یہ طریقہ استعمال ہو رہا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت عزیز صدیقی دونوں جج ایماندار ہیں اور انتقام کا شکار بن رہے ہیں۔‘
’یہاں ایماندار نہیں بلکہ ایسے لوگ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے ساتھ نظریہ ضرورت بنایا جائے۔ یہ تماشہ آپ نے دیکھا ہے اور عوام کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی، جلا وطن اور سزا دے کر ان کے خاندان کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔‘
’کانفرنس کو جامع لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے۔ اس وقت اولین ترجیح اس نظام سے نجات حاصل کرنا ہے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ’عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے۔ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنھوں نے نااہل بندے کو لا کر بٹھایا ہے۔
’یہ تبدیلی عمل میں نہ آئی تو یہ نااہل اور ظالمانہ نظام ملک کو کمزور کر دے گا۔ مضبوط معاشی نظام کی بھی ضرورت ہے۔۔۔ ہماری قومی سلامتی کے لیے ضرورت ہے کہ معیشت کے ساتھ مسلح افواج کو بھی مضبوط بنائیں۔ آئندہ بھی ترجیح رہے گی کہ ضروری ہے کہ مسلح افواج قائد اعظم کی تقریر کے مطابق سیاست سے دور رہیں۔ کسی کے کہنے پر وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہو کر وزیر اعظم کو گرفتار نہ کرے۔ وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ملک کو تماشا بنا دیا ہے۔
’آخر میں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اے پی سی جو بھی لائحہ عمل تشکیل دے گی مسلم لیگ ن اس میں بھرپور ساتھ دے گی اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ٹھوس اقدامات تجویز کیے جائیں۔ ہمارے کئی دوست جیلوں میں ہیں۔ ان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ میں آپ سب قائدین کا شکر گزار ہوں۔‘
اس حوالے سے ردِ عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیرِ برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ میاں صاحب کو کوئی سمجھائے کے عوام نے 2018 الیکشن میں واقعی ووٹ کو عزت دی اور سمجھ بوجھ کر ووٹ استعمال کیا.
انھوں نے کہا کہ ’اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میاں صاحب اقتدار سے تو فارغ ہوئے ہی، جعل سازی کر کے ملک سے بھی بھاگنا پڑا…. ووٹ کی اتنی عزت کافی نہیں یا مزید عزت افزائی کی ضرورت ہے؟‘
’الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات ایک بھی انچ بھی آگے نہیں بڑھیں‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے ایک ٹھوس اعلامیہ جاری کرنے پر زور دیا تاکہ ‘لوگوں کے لیے آزادی لی جا سکے۔’
انھوں نے سوال کیا کہ ‘اگر منتخب نمائندے پارلیمان میں بول نہیں سکتے اور اپنے ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہیں کروا سکتے تو عوام کو ایسے میں کیا امید ہو گی؟’
انھوں نے مطالبہ کیا کہ سیاست اور میڈیا بلکہ پارلیمان میں بھی اپوزیشن کے خلاف بے ایمانی نہ کی جائے۔
انھوں نے کہا کہ یہ جو قوتیں اور اسٹیبشلمنٹ ہیں جنہوں نے عوام سے جمہوریت چھینی ہے، کٹھ پتلی نظام مسلط کیا ہے انہیں سمجھنا پڑے گا’۔
’ہمیں ان کے سامنے مطالبہ پیش کرنا پڑے گا کہ ہمیں، اس ملک کو اور اس ملک کے عوام کو آزادی دیں۔‘
انھوں نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ متحد ہو کر ایک تحریک چلائے جو ماضی میں تحریک بحالی جمہوریت جیسی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہم ان تمام فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اس فورم پر لیے جائیں گے اور ہم آخری سانس تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں آمریت نے نہ صرف جمہوریت سیاہ دھبہ ڈالا ہے بلکہ عدلیہ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
انھوں نے 2018 کے الیکشن سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ کو یاد ہے جب ایک سیلکٹڈ حکومت اقتدار میں آئی تھی اور ایک سیلیکٹڈ وزیرِ اعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ الیکشنز میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف اقدامات اٹھائے گا اور آر ٹی ایس نظام کی گمشدگی اور الیشکن سے پہلے کی گئی انجینیئرنگ کی تحقیقات کی جائیں گی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں ‘ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھیں۔’
‘اگر ڈھیلے ڈھالے فیصلے کیے تو سینیٹ کا ایک حصہ بھی ان جعلی لوگوں کے ہاتھ چلا جائے گا’
آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کمیٹی بنائی گئی جس کی توثیق آپ لوگوں نے کی لیکن میں نے پہلے دن سے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔
انھوں نے اپوزیشن جماعتوں پر ہی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ڈھیلے ڈھالے فیصلے کیے گئے تو مارچ میں سینیٹ انتخابات کی صورت میں ان جعلی لوگوں (حکومت) کے ہاتھ میں سینیٹ کا ایک حصہ چلا جائے گا۔
‘پھر آپ کہاں کھڑے ہوں گے اور ملک کہاں کھڑا ہو گا۔’
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘آج ہی فیصلہ کریں کہ ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے، اگر ان ہی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جہاں کوئی کارکردگی نہیں ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم شفاف الیکشن کے مقصد کے لیے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘اگر ہم نے سول سپریمیسی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہیں تو پھر آپ عوام کے صفوں کے جانے کے لیے آئیں، تاجربرادری، وکلا، اساتذہ، ڈاکٹروں، مزدوروں، کسانوں اورصںعت کاروں کے پاس جائیں اور ان کے سے کہیں ہم اکٹھیں لڑیں اور ہمیں قوت سے ان کو اپنی صفوں میں لانا ہو گا۔’
پارلیمنٹ میں قانون سازی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ایف اے ٹی ایف سے متعلق جو قانون سازی ہورہی ہے یہاں رکے گی نہیں، آپ کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف بھی قرار داد آئے گی اور ایک دن اس پر دباؤ آئے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘اب پھنس چکے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے مضبوط فیصلے کرنے ہوں گے، ڈی نیوکلیئرائزیشن کا آپ انتظار کریں گے، اپنی عیاشیوں کو زندہ رکھنے کے لیے غلام بننا کوئی زندگی نہیں ہے۔’
اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میری تقریر نشر نہیں کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت تو ہماری آواز کو عوام تک جانے سے روکتی ہے لیکن آج اے پی سی نے بھی ہماری تقریر کو باہر جانے سے روک دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہم پیپلزپارٹی اور اس کے منتطمین سے احتجاج نوٹ کروانا چاہتے ہیں۔’
بلاول بھٹو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دونوں کیمرے لائیو دکھا رہے ہیں، مولانا کی تقریر سوشل میڈیا پر براہ راست دکھائی جارہی ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا پر نہیں تھی۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہم زبانی گفتگو پر اکتفا نہیں کرسکتے کہ آپ ہمیں کہیں کہ ہم لڑیں گے اورپیچھے نہیں ہٹیں گے، آپ بہت پیچھے ہٹے ہیں، ان دو برسوں میں آپ ان کی بقا کا سبب بنے ہیں۔’
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘اب باقاعدہ لکھ کر طے کرنا ہوگا تاکہ ہم عوام کو دکھا سکیں اورجو اس سے پیچھے ہٹتا ہے تو اس کو قومی مجرم تصور کیا جائے گا، اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اورپھر کمپرومائز کی طرف جاتے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں عملی اقدامات کی طرف جانا ہوگا، کمپرومائز کا راستہ بند ہوگا، آپ ہماری سیاسی تحریک کو مہمیز تو بخشتے ہیں لیکن جب آگے بڑھتے ہیں تو مصلحتیں سامنے آتی ہیں اور اپوزیشن کی جماعتوں سے بھی یہ برقرار رہتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرکے کوئی تحریک چلاسکیں گے۔’
’تقریب کا پہلا بندہ میں ہی جیل میں ہوں گا‘: آصف زرداری
نواز شریف کے خطاب سے قبل پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اے پی سی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انشا اللہ ان (نواز شریف) کی صحت بہتر ہو جائے گی اور وہ ہم سب میں ہوں گے۔‘آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’یہ اے پی سی بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھی۔ اس اے پی سی کے خلاف جو ہتھکنڈے حکومت استعمال کر رہی ہے وہی اس کی کامیابی ہے۔‘
حکومت کی جانب سے نواز شریف اور آصف زرداری کی تقاریر نشر نہ کرنے کے اعلانات پر ردعمل دیتے ہوئے آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’جنرل مشرف کو دکھایا جا سکتا ہے، مگر میرے انٹرویو پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پیمرا کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ ہمیں سن رہے ہیں اور سنتے رہیں ہیں۔‘
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب سے سیاست میں ہیں کبھی ایسے نہیں دیکھا۔ یہ سب ان کی کمزوریوں کی نشانی ہے۔ آج کل میڈیا پر پابندی ناممکن ہے۔ کسی کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کو اے پی سی میں خوش آمدید کرتے ہوئے آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ مریم بی بی بھی یہاں ہیں۔ وہ میاں صاحب کی اور قوم کی بیٹی ہیں۔ میری اپنی بہن، بیوی جیل جا چکی ہیں۔ انھوں نے بھی تکلیف سے وقت گزارا میں انھیں سلام کرتا ہوں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم آپ کے لیے لڑتے رہیں گے۔‘
آصف زرداری نے آج کی بیٹھک پر اپنے تقریر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس تقریب کے بعد پہلا بندہ میں ہی جیل میں ہوں گا۔ مولانا صاحب آپ ضرور ملنے آئیے گا۔۔۔یہ لوگ اوپر سے آ کر ہم پر قابض ہو گئے ہیں۔۔۔ ہم انھیں حکومت سے نکال کر جمہوریت بحال کر کے رہیں گے۔ ہم نے ان سے پاکستان کو بچانا ہے۔‘
میرٹ ہوٹل میں منقعد ہونے والی اس اے پی سی میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، مریم نواز، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، جمعیت علما اسلام ف کے رہنما مولانا فضل الرحمن سمیت محمود اچکزئی، سینیٹر جمالدینی، محسن داوڑ، اویس نورانی، امیر حیدر خان ہوتی، آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور ساجد میر و دیگر اراکین نے بھی شرکت کی۔
اے پی سی کے آغاز سے قبل پیپلز پارٹی کے چیرپرسن بلاول بھٹو نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ: ’آج اپوزیشن جماعتیں حکومت سے جواب طلبی کے لیے اس کے خلاف یکجا ہو رہی ہیں۔‘
’دو برس تک چلنے والا یہ سلیکٹڈ تجربہ پاکستان، اس کے شہریوں، جمہوریت، معیشت اور خارجہ پالیسی کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔‘
اے پی سی سے قبل ایک پریس کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے حزب اختلاف کی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔