کیا کورونا ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے؟
برطانیہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب خطرے کے درجہ کو تین سے بڑھا کر چار کر دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
چوتھے درجے کا مطلب ہے کے سماجی دوری کی اصول اپنایا جائے۔ جس کے بعد پانچواں درجہ آنے کی صورت میں پھر سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے برطانیہ میں حکومت کے سب سے بڑے سائنسی مشیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت کوئی مزید اقدامات نہیں کرتی تو اکتوبر کے وسط تک کورونا وائرس کے نئے مریضوں کی تعداد پچاس ہزار یومیہ تک پہنچ سکتی ہے۔
چیف سائنٹیفِک ایڈوائزر، سر پیٹرک والیس کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو وسط اکتوبر کے ایک ماہ بعد برطانیہ میں اموات کی تعداد دو سو یومیہ تک ہو سکتی ہے۔
حکومتی مشیر کی یہ تنبیہ ایک ایسے وقت آئی ہے جب وزیر اعظم بورس جانسن نے منگل 22 ستمبر کو ہنگامی صورت حال کی کمیٹی “کوبرا’ کا ااجلاس بلا رکھا ہے۔ توقع ہے کہ وزیر اعظم اس اجلاس کے بعد پارلیمان میں ملک میں کورونا وائرس کی نئی لہر کے حوالے سے بیان دیں گے۔
یاد رہے کہ اتوار کو ملک بھر میں 3899 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی اور 18 اموات ہوئیں۔
سر پیٹرک کا کہنا تھا کہ جو اعداد و شمار وہ پیش کر رہے ہیں وہ کوئی پیشنگوئی نہیں ہے، بلکہ ان کے بقول ’ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت وبا میں ہر ہفتے دو گنا اضافہ ہو رہا ہے۔‘
’اور اگر، صورت حال یوں ہی رہی، یعنی ہر سات دن میں تعداد دوگنی ہوتی رہی، تو اکتوبر میں نئے مریضوں کی تعداد کم و بیش پچاس ہزار یومیہ ہو جائے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں جس چیلنج کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ وبا میں ہر سات دنوں میں دو گنا اضافہ نہ ہو۔ اس کے لیے تیزی دکھانے کی ضرورت ہے، اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس تعداد کو کم کیا جا سکے۔‘
حکومتی مشیر کے علاوہ برطانیہ میں ہمیں یہ بار بار بتایا جا رہا ہے کہ اس وائرس پر قابو پانا ضروری ہے۔ لیکن جب لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ انہیں کورونا وائرس لگ چکا ہے، تو ایسے میں آپ اس پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟ کئی لوگوں میں اس کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔
جب برطانیہ میں کورونا کی پہلی لہر آئی تھی تو پوری قوم جہاں تھی، وہیں رک گئی۔ اس سے معیشت، تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں میں ملک کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی اور اب جبکہ نئے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے خدشہ ہے کہ ملک بھر میں نئی پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا کہ کہ کہیں ہم ایک ایسی جنگ تو نہیں لڑ رہے جو ہم پہلے ہی ہار چکے ہیں؟ کیا اس کی بجائے ہمیں اس وائرس کے ساتھ رہنا نہیں سیکھ لینا چاہیے؟
’مکمل افراتفری’ کا منظر
آکسفورڈ یونیورسٹی کے مرکز، سیٹر فار ایویڈینس بیسڈ میڈیسن، سے منسلک پروفیسر کارل ہینیگن کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال ’مکمل افراتفری’ کی عکاسی کرتی ہے جہاں مسلسل نئی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور ایک بچے کا ٹیسٹ مثبت آنے پر سکول پوری پوری جماعت کو گھر بھیج رہے ہیں اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب نئے مریضوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کی شرح بہت کم ہے۔
پروفیسر ہینیگن کے بقول یہ سب ان کوششوں کا نتیجہ ہے جن کا مقصد اس وائرس کو دبانا ہے۔ لیکن ان کا موقف ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ وائرس جائے گا نہیں، اس لیے ہمیں وائرس سے درپیش خطرناک کو کم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں خطرات اور بچاؤ کے اقدامات کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پروفیسر ہینیگن کو خاص طور پر خدشہ ہے کہ کووِڈ 19 کا ٹیسٹ جسم میں اس وائرس کو بھی پکڑ لیتا ہے جو عملی طور پر مر چکا ہوتا ہے، یعنی اگر کسی شخص میں دوسروں کو وائرس لگانے کی صلاحیت کے ختم ہو جانے کے مہینوں بعد بھی ٹیسٹ مثبت آتا ہے، تو اس سے ہمیں کیا مطلب نکانا چاہیے۔
اس حوالے سے ’ہمیں چاہیے کہ اپنی سوچ میں تحمل پیدا کریں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیسا ہی نئے کیسز کی تعداد میں اضافہ دکھائی دیتا ہے، حکومت پریشان ہو جاتی ہے۔‘
اصل چیز ہسپتالوں میں داخلہ ہے نہ کہ ’نئے مریض‘
پروفیسر ہینیگن اور کئی دوسرے ماہرین کا موقف ہے کہ ہمیں زیادہ اہمیت مرض کو دینی چاہیے نہ کہ نئے مریضوں کی تعداد کو۔ اگرچہ برطانیہ میں ہپستالوں میں کووِڈ کے نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، لیکن موسم بہار کے مقابلے میں یہ تعداد انتہائی کم ہے اور موجودہ اضافہ پہلے کی نسبت آہستہ آہستہ ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ، ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر سال ان مہینوں میں ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے اور بدقسمتی سے اموات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور ہر سال خزاں اور موسم سرما میں اس قسم کے وائرس زیادہ پھیلتے ہیں۔
کچھ سال زیادہ برے ثابت ہوتے ہیں، مثلاً 2017 اور 2018 کے درمیانی مہینوں میں سال کے باقی دنوں کی نسبت پچاس ہزار زیادہ اضافی اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُس سال سردی بھی زیادہ پڑی تھی، زکام کے وائرس کی زیادہ خطرناک قسم دیکھنے میں آئی تھی اور اس کے خلاف ویکیسن مؤثر ثابت نہیں ہوئی تھی۔
بلکہ ماہر عمرانیات اور حکومت کے مشیر، پروفیسر رابرٹ ڈنگوال کے بقول ہو سکتا ہے کہ اب عوام پریشان ہونے کی بجائے اس چیز کو قبول کر چکے ہوں کہ آئندہ ہزاروں لوگ کووِڈ سے اسی طرح مر جائیں گے جیسے وہ ہر سال فلو یا نزلہ زکام سے مر جاتے ہیں۔
پروفیسر رابرٹ ڈنگوال کا خیال ہے کہ یہ صرف صحت عامہ سے منسلک چند عناصر اور ملک کے کچھ سائنسی رہنما ہیں جنہیں کووڈ کی شرح نیچے لانے کی فکر ہے اور یہ لوگ سیاستدانوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاستدان ’اتنے بہادر‘ نہیں کہ وہ عوام کو ایمانداری سے بتائیں کہ اگر ویکسین بن بھی جاتی ہے تب بھی یہ وائرس ہمیشہ موجود رہے گا۔
حالات پر نظر نہ رکھنے سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
اگر آپ کی تمام توجہ ہپستالوں میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ہو گی تو آپ اصل میں وقت سے پیچھے چل رہے ہوں گے کیونکہ ہپستال میں مریض ایک دو ہفتے بیمار پڑ جانے کے بعد پہنچتے ہیں، یعنی انفیکشن ایک دو ہفتے پہلے ہوچکی ہوتی ہے۔ یوں اگر ہپستالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو ہمیں پہلے سے زیادہ سخت اقدامات کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر کرسٹینا پگل کہتی ہیں کہ ایک اور مسئلہ ’طویل یا لانگ کووِڈ‘ کا ہے، یعنی ایسے مریض انفیکشن ختم ہو جانے کے مہنیوں بعد بھی مشکل کا شکار رہتے ہیں۔ پروفیسر کرسٹینا پگل کے خیال میں وائرس کو یوں ہی پھیلنے کی اجازت دے دینا ’غیر ذمہ دارانہ‘ حرکت ہو گی کیونکہ ابھی اس وائرس کو منظر عام پر آئے ایک ہی سال ہوا اور ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کتنے عرصے تک مریض میں اس کے اثرات موجود رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کا مزید کہنا کہ اگر نوجوانوں میں انفیشکن کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے تو اس بات کو ممکن بنانا مشکل ہو جائے گا کہ یہ مرض ان لوگوں تک نہ پھیلے جن کو وائرس سے خطرہ زیادہ ہے۔
ایڈنبرا یونیورسٹی سے منسلک متعدی امراض کے ماہر پروفیسر مارک وولہاؤس بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن ان کا موقف ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کووڈ کے نقصانات اور اس پر قابو پانے کی کوششوں کے اثرات کے درمیان ایک محتاط توازن قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ ان کے بقول اب اس بات کا ثبوت بڑھتا جا رہا ہے کہ اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو خود مرض کی نسبت اس پر قابو پانے کے زیادہ برے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اموات کی کل تعداد بہت زیادہ ہے، کیونکہ اب تک کووڈ سے منسلک چالیس ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ سب سے زیادہ اموات عمر رسیدہ افراد میں دیکھی گئی ہیں، اور مرنے والوں کی اوسط عمر 80 سال رہی ہے۔
اگر آپ اسے ملک کی آبادی اور لوگوں کی عمر کے حوالے سے دیکھیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں کی نسبت 2020 بلاشبہ ایک ایسا سال رہا ہے جس میں ایسی اموات ہوئیں جن کا موازنہ دیگر برسوں سے نہیں کیا جا سکتا۔
ان کو کیسے بچایا جائے جن کو زیادہ خطرہ ہے؟
پروفیسر وولہاؤس کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے مسئلہ محض مؤخر ہو گیا تھا۔ اس سے ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، تاہم اب ہم وقت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہ سوچ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیسے محفوظ رکھا جائےجنہیں وائرس سے زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں عمر رسیدہ افراد کے مراکز میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے چاہیں تا کہ وائرس ان مراکز میں نہ داخل ہو سکے۔ یاد رہے کہ اب تک ہونے والی ہر دس اموات میں سے چار عمر رسیدہ افراد کے مراکز میں ہوئی ہیں۔ اپنے گھروں میں رہنے والے عمر رسیدہ افراد کے حوالے سے بھی اسی قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ پرفیسر وولہاؤس کہتے ہیں کہ ہمیں ’بھروسے کی زنجیر‘ کی ضرورت ہے جہاں ہم ایسے افراد سے ملنے میں احتیاط کا مظاہرہ کریں جنہیں خطرہ زیادہ ہے۔ ان کے بقول اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی مصروف مقام پر گئے تھے اور آپ کو خدشہ ہے کہ آپ کو وائرس لگ گیا ہو گا، تو آپ کو اپنے عمر رسیدہ عزیزوں سے نہ ملیں۔
یہ بھی قدرتی بات ہے کہ جن لوگوں کو وائرس سے خطرہ زیادہ ہے، وہ بھی باقی لوگوں کی نسبت زیادہ احتیاط کریں گے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو فروری مارچ میں نہیں کی جا رہی تھی، اور جب تک وائرس پھیل نہیں گیا، لوگوں کو احساس نہیں ہوا۔
کئی ماہرین صحت کا خیال ہے کہ پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے، تاہم احتیاطی تدابیر اور اصل خطرے کے درمیان توازن قائم رہنا چاہیے۔
اگرچہ خطرہ پچاس برس کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے لیکن اس عمر میں خطرہ زیادہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے بعد جوں جوں آپ کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے خطرہ اسی قدر زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ باقی امراض کی نسبت کووڈ میں یہ رجحان غیر معمولی ہے۔ شاید اسے سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہوگا کہ اس وائرس سے ہونی والی انفیکشن سے موت کا خطرہ کسی بھی دوسرے مرض یا زخم سے موت کے خطرے کے مقابلے میں عمر میں ایک برس اضافے سے دوگنا ہو جاتا ہے۔ یعنی کسی شخص کی عمر جتنی زیادہ ہو گی اور اس کی صحت جتنی زیادہ خراب ہو گی، اس وائرس سے خطرہ اسی قدر زیادہ ہو جائے گا۔
ایک اور بات جو ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اب ڈاکٹر اس مرض سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا علاج بہتر کر سکتے ہیں۔ مثلاً دو قسم کی ایسی جان بچانے والی ادویات (سٹیرائڈز) دریافت ہو چکے ہیں جن سے لوگوں کو کووڈ سے مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اب ڈاکٹروں کو معلوم ہو چکا ہے کہ وائرس جسم میں کام کیسے کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہپستال کا عملہ کووڈ سے خون جم جانے اور گردوں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کا بہتر تدارک کر سکتا ہے۔
ان چیزوں کو مد نطر رکھیں تو لگتا ہے کہ اس مرتبہ اموات اتنی نہیں ہوں گی جتنی پہلی لہر کے دوران ہوئی تھیں۔
ہرڈ امیونٹی یا اجتماعی مدافعت؟
اگر ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ وائرس ختم نہیں ہوگا، تو ہمیں اس متازع اصطلاح پر بھی بات کرنی پڑی گی جسے اجتماعی مدافعت کہا گیا تھا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین بن جائے گی، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ہوگا؟ یا یہ کہ اگر اس ویکسین سے عمر رسیدہ افراد میں مضبوط مدافعت نہیں پیدا ہوتی تو پھر کیا ہوگا؟
ایسی صورت میں آپ کو اس چیز پر انحصار کرنا پڑے گا کہ نوجوان افراد کی اتنی تعداد کو ویکسین دی جائے کہ کہ اس سے ملک میں اجتماعی مدافعت پیدا ہو جائے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایسی مدافعت کے لیے ایسی ویکسین پر بھروسہ کر سکتے ہیں جو ایک ایسے وائرس کے خلاف اتنی جلدی میں تیار کی جا رہی ہے جو ہو سکتا ہے ہمارے جسم پر اتنی بری طرح اثر انداز نہ ہوتا ہوں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں؟
مدافعت پیدا ہونے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وائرس لگنے دیا جائے۔ کورونا وائرس کی دیگر اقسام کی طرح، تمام شواہد بتاتے ہیں کہ کووڈ سے بھی آپ کے جسم میں مدافعت پیدا ہو جاتی ہے، لیکن پھر وہ کم پڑ جاتی ہے، اور اس کے بعد آپ کو پھر انفیشکن ہو جاتی ہے مگر آپ زیادہ بیمار نہیں ہوتے۔ اس بات سے لگتا ہے کہ آنے والے برسوں میں امکان یہی ہے کہ ہر سال موسم سرما میں کورونا وائرس سے ہمارا پالا پڑے گا، اسی طرح جیسے فلو سے پڑتا ہے۔ تاہم ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک نیا وائرس ہے اور سائنسدان مسلسل اسے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سائسدانوں کو اس کام میں برسوں، بلکہ عشرے لگ سکتے ہیں۔ تاہم کئی دوسرے لوگ زیادہ پُر امید ہیں۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سنیترا گپتا کے خیال میں ہو سکتا ہے کہ قدرتی مدافعت اور پچھلے عرصے میں وائرس کے اتنے زیادہ پھیلنے کے نتیجے میں کافی مدافعت پیدا ہو چکی ہو۔ ان کے بقول یہ چیز شاید ابھی کورونا کے ٹیسٹ میں سامنے نہ آ رہی ہو کیونکہ اس وائرس کے حوالے سے یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کسی شخص میں اینٹی باڈیز کی مقدار سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسے واقعی کورونا ہو چکا ہے یا نہیں۔
پروفیسر سنیترا گپتا کہتی ہیں کہ اگر ہم موسم سرما کے دوران جوان اور صحت مند لوگوں کو کورونا وائرس لگنے دیتے ہیں تو آنے والے برسوں میں ہمیں فائدہ ہوگا۔
’ہم نے ماضی میں بھی وائرس کا مقابلہ ہمیشہ اسی طرح کیا ہے؟ اس مرتبہ مختلف بات کیا ہے؟ اگر ہم آئے روز پابندیاں اور لاک ڈاؤن لگاتے رہتے ہیں اور ویکسین کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں، تو سب سے زیادہ نقصان نوجوانوں کو ہوگا، خاص طور پر زیادہ غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے، یہ تو ناانصافی ہو گی۔‘