میٹرک کے امتحانوں کے بعد آنے والی چھٹیوں میں لڑکپن اور جوانی کے بیچ میں جھولتے لڑکے زندگی کی کوئی نئی چیز دریافت کرتے ہیں۔ کوئی باڈی بلڈنگ کرنے لگتا ہے۔ کسی کو سونے کی لت لگ جاتی ہے۔ کوئی عشق ڈھونڈتا پھرتا ہے اور کوئی مسجد جا کر اذانیں دینے لگتا ہے۔
انھی لمبی اور بور دوپہروں میں ہمارے ایک کلاس فیلو نے کُفر ڈھونڈ لیا۔ ایک کونے میں جا کر شلوار کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک پمفلٹ نکالا اور کہا اسے پڑھو اور سمجھو کہ یہ شیعہ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
ایک پیرا پڑھ کر ہی کان سرخ ہو گئے۔ مذہبی شخصیات کے بارے میں اتنی غلیظ باتیں کہیں سُنی نہ پڑھیں تھیں۔ میں نے پوچھا یہ تمھیں کس نے دیا، اُس نے ایک سُنی انجمن کا نام بتایا جو چھ دفعہ نام بدل کر آج بھی موجود ہے۔
ابھی میٹرک کے نتائج میں نمبر آئے تھے کہ شہر میں ایک ڈاکٹر قتل ہوا۔ ڈاکٹر شیعہ تھا لیکن لا اینڈ آرڈر کا معاملہ قرار دیا گیا۔ دو ہفتے بعد دوسرے ڈاکٹر کا قتل ہوا تو پہلی دفعہ لفظ ’فرقہ وارانہ‘ سنائی دیا۔
اس کے بعد ایک سلسلہ شروع ہوا کہ ہم جوان ہو کر بزرگ ہو گئے۔ شہر بدلے، پیشہ بدلا لیکن کہیں پر کوئی ڈاکٹر، کوئی وکیل، کوئی پروفیسر مارا جاتا رہا۔ ہم اور ہمارے جیسے تجزیہ نگار اس کی تاویلیں ایرانی انقلاب اور سعودی عرب کی مجبوریوں میں ڈھونڈتے رہے۔
ساتھ ساتھ یہ بھی یاد دلاتے رہے کہ دیکھیں کہ اگرچہ ہم سُنی ہیں لیکن ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے کہ یہ ایک بیرونی سازش ہے۔
پاکستان میں فرقہ واریت کے بارے میں ہر بات کرنے سے پہلے ہمارے قارئین کو یہ یاد کروانا لازم ہے کہ والد سُنی ہیں (یا یہ کہ ہم صرف مسلمان ہیں)۔ تاکہ کوئی ہمیں ’وہ‘ نہ بولے۔
اس پورے دور میں مارنے والے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مارتے ہیں، اور بھی ماریں گے۔ (ملک اسحاق ضمانت پر رہا ہوئے۔ ٹی وی پر لائیو انٹرویو میں اینکر نے پوچھا کہ آپ کا کیا لائحہ عمل ہے۔ جواب آیا وہی جو پہلے تھا)۔
مرنے والے چیخ چیخ کر ایسے قاتلوں کے نام سناتے رہے۔ (کوئٹہ کے ہزارہ سخت سردی میں سینکڑوں لاشیں سڑک پر رکھ کر ایسے قاتلوں کے نام اور پتے بھی بتاتے رہے)۔
حکومت علما سے مشورے کرتی رہی، تجزیہ کار عالمی سیاست کے نقشے سجاتے رہے۔ اور ہمارے پیارے سنی بھائی، معصوم سنی بھائی یہ یاد دلاتے رہے کہ ایک تو ہم سنی ہیں، ہم تو خود محرم میں سبیلیں لگاتے ہیں اور ان کو بھی تو چاہیے کہ اپنا گھوڑا چار دیواری کے اندر رکھیں۔
جب یہ آگ طاقت کے ایوانوں تک پہنچی تو ریاستی ادارے حرکت میں آ گئے۔ کچھ کو دہشت گرد قرار دے کر پولیس مقابلوں میں مروایا گیا۔ کچھ کو اگلے مورچوں کی سیر کروائی گئی اور فوٹو کھنچوائے گئے تاکہ سب پھر سے بھائی بھائی بن جائیں۔
لیکن جن بچوں کے کانوں میں اڑتیس سال پہلے کافر کافر سنایا گیا تھا اب وہ یہ ملک چلا رہے ہیں، انجمن تاجران کے چیئرمین ہیں، بیوروکریسی کے بڑے بابو ہیں، باقی ریاستی ادارے جن کا نام لینا منع ہے، ان میں بھی بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔
جب یہ بچے تھے تو اس تقسیم شدہ اور بکھرے ہوئے ملک کو یاعلی مدد کا نعرہ جوڑتا تھا۔ مل مزدوروں کی اور محاذ پر لڑتے فوجیوں کی بھی ہمتیں جواب دینے لگتی تھیں تو کہیں نہ کہیں سے ’نعرہ حیدری‘ بلند ہوتا تھا اور کوئی اسے فرقہ ورانہ نعرہ قرار نہیں دیتا تھا۔
کراچی میں امیر یزید کے نعرے لگے تو اگلے دن پھر بین الاقوامی سازش کہہ کر تسلی دی گئی۔ یہ تکلف نہیں کیا گیا کہ بتایا جائے کہ یہ نعرہ کہاں بیٹھ کر کس نے ایجاد کیا۔ دو دن بعد اسلام آباد میں یہ مطالبہ بلند ہوا کہ شیعوں کے ساتھ وہی کیا جائے جو احمدیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
اسلام آباد سے کسی نے پلٹ کر یہ بھی پوچھا کہ ’ہیں؟ ہم نے احمدیوں کے ساتھ کیا کیا تھا؟‘
اب سے 12، 14 سال پہلے شیعہ برادری کے ساتھ وہ ہوا تھا کہ یہ بحث جاری تھی کہ کیا اسے نسل کشی کہنا جائز ہے؟ اور کافر کافر کی گونج میں اتنے ہی شیعہ مارے گئے تھے کہ بقول شخصے احمدی بھی کہہ اٹھے تھے یا اللہ تیرا شکر کہ ہم کافر ہیں شیعہ نہیں۔