ناسا کا خلائی جہاز وائجر: انسانی تاریخ کا عظیم ترین سائنسی مشن
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر پیساڈینا کے مضافات میں واقع ایک عام سے دکھنے والے دفتر کی ذیلی منزل کے ایک کیوبیکل میں تاریخ رقم ہو رہی ہے۔
درحقیقت یہاں روزانہ ہی تاریخ رقم ہوتی ہے۔
یہ امریکی خلائی ادارے ناسا کے خلائی جہاز وائجر کا مشن کنٹرول ہے جو جیٹ پروپلژن لیبارٹری (جے پی ایل) میں واقع ہے۔ آپ کو اس کا پتا کمپیوٹر مانیٹرز کے نیچے گتے پر ہاتھ سے لکھی تحریر سے چل سکتا ہے جس پر لکھا ہے: ‘وائجر مشن کنٹرول کا اہم ہارڈویئر۔ چھونے سے گریز کریں۔’
یہ انسانی تاریخ کے سب سے پرعزم اور بلند ہمت سائنسی مشنز میں سے ایک کا غیر متوقع کنٹرول سینٹر ہے۔
گذشتہ 40 برسوں کے دوران دو وائجر خلائی جہازوں نے سیارہ مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے ان دنیاؤں کے تفصیلی مناظر زمین پر بھیجے جن میں برف سے ڈھکے، آتس فشاؤں سے اٹے اور ایندھن پر مشتمل سموگ سے بھرے چاند بھی شامل ہیں۔ ان مشنز نے زمین پر ہمارے نکتہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے، اور اپنے ساتھ منسلک سنہرے گرامو فون ریکارڈز کے ساتھ یہ انسانی تہذیب کو اپنے ساتھ ستاروں تک بھی لے جا رہے ہیں۔
حیران کُن طور پر دونوں وائجر خلائی جہاز اب تک کام کر رہے ہیں۔
جب بھی وائجر 1 کوئی سگنل زمین پر بھیجتا ہے، تو یہ انسان کی تیار کردہ کسی بھی چیز کا سب سے دور سے آنے والا سگنل ہوتا ہے۔
سنہ 2013 میں وائجر 1 ہمارے نظامِ شمسی کی حدود سے نکل گیا تھا اور (تحریر کے وقت، جولائی 2020 میں) یہ زمین سے 20 ارب کلومیٹر دور تھا۔
وائجر 2 ایک مختلف راستے پر ہے اور یہ زمین سے 17 ارب کلومیٹر دور ہے۔
اس کا تصور یوں کرنا آسان رہے گا: روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے ایک ریڈیو سگنکل کو وائجر 1 سے زمین تک آنے اور واپس وائجر 1 تک جانے میں 38 گھنٹے لگتے ہیں جبکہ وائجر 2 کے لیے یہ وقت 30 گھنٹے کے لگ بھگ ہے۔ ان کے تازہ ترین محلِ وقوع کے بارے میں آپ ان کی آفیشل ویب سائٹ پر جان سکتے ہیں۔
یہ سگنل ناسا کا ڈیپ سپیس نیٹ ورک وصول کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک دنیا بھر میں نصب عظیم الجثہ سیٹلائٹ ڈشوں پر مبنی ہے جن کا کام دور دراز خلائی جہازوں سے ڈیٹا کا حصول ہے۔
میرے دیکھتے ہی دیکھتے ڈیوٹی مشن کنٹرولر اینریکے میڈینا فون اٹھاتے ہیں اور آسٹریلیا میں کینبرا کے نزدیک قائم ایک گراؤنڈ سٹیشن کو کال ملاتے ہیں تاکہ وائجر 2 کے ساتھ رابطہ قائم کیا جا سکے۔ یہ خلائی جہاز اتنا دور ہے کہ انجینیئروں کو نظامِ شمسی کے کنارے سے سگنل حاصل کرنے کے لیے دو ریسیورز کو سیدھ میں لانا ہوتا ہے۔
میڈینا کہتے ہیں: ‘خلائی جہاز پر نصب ٹرانسمیٹر 12 واٹ طاقت سے چلتا ہے مگر اپنی زیادہ سے زیادہ طاقت پر یہ 20 واٹ توانائی استعمال کرتا ہے جو کہ کسی ریفریجریٹر میں لگے بلب جتنی توانائی ہے۔’
ذرا اس پر غور کریں۔ میں لندن سے 40 کلومیٹر دور رہتا ہوں اور موبائل فون سگنلز کے حصول میں دشواری ہوتی ہے جبکہ ناسا 40 سال پرانے اور 12 واٹ طاقت کے ایک ٹرانسمیٹر کا 20 ارب کلومیٹر دور سے بھیجا گیا سگنل بھی پکڑ سکتا ہے۔
میڈینا کہتے ہیں: ‘میری اس بات پر حیرانی کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ اور یہ تو 1970 کی دہائی کی ٹیکنالوجی ہے۔’
ہماری گفتگو کے دوران ہی سکرین اعداد و شمار سے بھر جاتی ہے۔ یہ دور خلا میں موجود ان خلائی جہازوں سے آنے والا نیا ڈیٹا ہے۔
وائجر منصوبے پر کام کرنے والے سائنسدان ایڈ سٹون کہتے ہیں: ‘انسان ہمیشہ نئی جگہوں کی تلاش میں رہے ہیں اور یہ انسان کی جانب سے روبوٹس کے ذریعے نئی دنیاؤں کی تلاش کی تازہ ترین کوشش ہے۔ وائجر 1 اب اس مادے کو چھو رہا ہے جو ہماری زیادہ تر کائنات میں بھرا ہوا ہے۔’
سٹون خلائی سائنسدانوں کے درمیان ایک لیجنڈ کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب وہ اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں ہیں اور وہ سنہ 1972 میں جیٹ پروپلژن لیبارٹری میں وائجر کے ڈیزائن اور اس پر کام شروع ہونے سے اب تک اس مشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘وائجر تقریباً ان تمام چیزوں کی بنیاد ہے جو میں نے کی ہیں۔ اس مشن نے زمین سے باہر موجود دنیا کے بارے میں ہمارے نکتہ نظر کو وسیع کیا ہے۔ ہم جہاں بھی دیکھتے ہیں ہمیں نظر آتا ہے کہ قدرت بہت زیادہ متنوع ہے۔’
وائجر مشنز کے پیچھے موجود ایک اور لیجنڈ وفات پا چکے سائنسدان کارل سیگن ہیں جنھوں نے دونوں خلائی جہازوں کے ساتھ دو ‘گولڈن ریکارڈز’ لگوائے۔ 1970 کی دہائی تک کارنیل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ فلکیات اور ایسٹروفزکس کارل سیگن دنیا کے سب سے نامور سائنسدانوں میں سے ایک بن چکے تھے۔
سیارہ مریخ پر کامیابی سے اترنے والے پہلے مشن وائکنگ 1 سمیت مختلف ناسا مشنز پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے عوام کے لیے سائنسی کتابیں لکھیں اور ٹی وی اور ریڈیو پروگرامز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔
گولڈن ریکارڈز کے ذریعے کارل سیگن اس سائنسی مشن کو ایک فن و ثقافت پر مبنی مشن میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تانبے سے بنی یہ ڈسکس ایک ارب سال تک سلامت رہ سکتی ہیں اور وینائل ریکارڈز جیسی ہیں، اور انہی کی طرح سوئی کے ذریعے چلتی ہیں، جسے کندہ کی گئی ریکارڈ کیسنگ میں رکھا گیا ہے۔ ان ریکارڈز کا مقصد کرہ ارض کے انسانوں کی جانب سے دور دراز کی اجنبی تہذیبوں کو پیغام پہنچانا ہے۔ ان ریکارڈز میں آوازیں، موسیقی اور یہاں تک کہ تصاویر بھی موجود ہیں۔
گولڈن ریکارڈ منصوبے کے ڈیزائن ڈائریکٹر اور آرٹسٹ جون لومبرگ کہتے ہیں: ‘ہم یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ زمین کیسی ہے، یہاں پر رہنے والے لوگ کیسے ہیں، اور ان ریکارڈز کو کس نوع نے بنایا ہے۔ بنیادی قاعدہ یہ تھا کہ یہ پیغام ناسا یا امریکہ کی جانب سے نہیں بلکہ کرہ ارض کی جانب سے ہے اور صرف اسے بھیجنے والے ملک یا ادارے کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی نمائندگی کرتا ہے۔’
مگر سیگن اور لومبرگ کے سامنے ایک مسئلہ تھا: ناسا نے انھیں یہ منصوبہ مکمل کرنے کے لیے صرف چھ ہفتے دیے۔ لومبرگ کہتے ہیں: ‘چھ ہفتوں کے اختتام پر ہم نے انھیں ایک ریکارڈ دینا تھا۔ یہ کتنا مضحکہ خیز ہے۔’
ان سنہری ڈسکس پر موجود ایک تہائی کے قریب موسیقی مغربی موسیقاروں بشمول باخ، بیتھووین اور موزارٹ کی ہے۔ مگر دنیا بھر کی موسیقی کی نمائندگی کرنے کی بھی مخلصانہ کوشش کی گئی۔ اس انتخاب میں آذربائجانئی بیگ پائپس سے لے کر زائر میں بچیوں کے عورت بننے کی خوشی میں گایا جانے والا گانا تک شامل ہیں۔ یہ شاید عالمی موسیقی کا پہلا البم تھا۔
ویسے تو ڈیوک ایلنگٹن، چک بیری اور امریکی قبائل کی موسیقی اس میں شامل ہے مگر وائجر 2 کی لانچ سے کچھ ہی عرصہ پہلے وفات پانے والے ایلویس پریسلے اس ڈسک پر نہیں ہیں۔
لاس اینجلس میں کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر اور عالمی موسیقی کی ماہر سٹیفنی نولن کہتی ہیں: ‘میرے خیال میں یہ بہت حیرت انگیز ہے کہ انھوں نے امریکی موسیقی میں سے کیا اس ڈسک میں شامل کیا ہے۔ یہ [اکثریتی طور پر] سیاہ فام امریکی موسیقی ہے اور یہ کافی دلچسپ بات ہے۔’
مگر موسیقی اس پورے منصوبے کا سب سے کم متنازع حصہ تھی۔ وائجر کے پیشرو خلائی جہازوں پائنیئر 10 اور پائنیئر 11 پر ایک برہنہ مرد اور عورت کی عکاسی کرنے والی تختیاں نصب تھیں۔ وائجر کی ٹیم کو بھی سنہری ڈسک پر ایک برہنہ انسانی جوڑے کی تصویر شامل کرنے کی امید تھی۔
لومبرگ کہتے ہیں کہ ‘مجھے لگتا تھا کہ یہ انسانیت کی فطرت کا ایک اہم ـزو ہے۔ لومبرگ نے کئی دنوں تک کوئی ایسی موزوں تصویر تلاش کرنے کی کوشش کی جو نہ ہی پورن کے زمرے میں آتی ہو اور نہ ہی طبی نوعیت کی ہو۔ انھوں نے ایک حاملہ خاتون کی تصویر منتخب کی۔ وہ کہتے ہیں: ‘ہمیں یہ بالکل درست لگا مگر ناسا اس سے بالکل بھی متفق نہیں تھا۔ انھوں نے کہا، ‘کسی صورت بھی نہیں۔’
وائجر 2 کو 20 اگست 1977 کو جبکہ وائجر 1 کو 5 ستمبر 1977 کو کیپ کیناویرال خلائی اڈے سے لانچ کیا گیا۔ ویسے تو دونوں میں ہی برہنہ تصاویر موجود نہیں تھیں مگر 1977 کے سال کا انتخاب کوئی اتفاق نہیں تھا۔
سٹون کہتے ہیں کہ ‘یہ وہ سال تھا جب یہ خلائی جہاز چاروں بڑے سیاروں کے قریب سے گزر سکتے تھے۔ ہم پہلے خلائی جہاز کو مشتری اور زحل کی جانب لانچ کرتے اور اگر یہ کامیاب رہتا تو دوسرا خلائی جہاز یورینس اور نیپچون کی جانب بھیجا جاتا۔’
خلائی جہازوں کو مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سیاروں کی اس پوزیشن نے جیٹ پروپلژن لیبارٹری میں شرحِ پیدائش پر بھی اثرات چھوڑے۔ وائجر 1 سے اپنا کریئر شروع کرنے والے لِنڈا سپیلکر جو اب زحل پر کیسینی مشن کی سربراہ ہیں، کہتی ہیں کہ ‘میں اپنی بیٹیوں کو بتاتی ہوں کہ ان کی پیدائشیں سیاروں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ یہ حساب سے کیا گیا تھا۔ آپ کو زحل اور یورینس کے درمیان موجود پانچ سال کے دور میں پیدا ہونے والے بہت سے وائجر بچے ملیں گے۔’
سنہ 1979 میں اپنی لانچ کے 18 ماہ بعد وائجر 1 اور وائجر 2 نے سیارہ مشتری کا جائزہ لینا شروع کیا اور بے مثال تفصیل سے اس کے بادلوں کی تصاویر اتاریں۔ خلائی جہازوں پر موجود ٹی وی کیمروں سے آنے والی تصاویر کا معیار حیرت انگیز تھا۔
وائجر مشن کی امیجنگ ٹیم کے سربراہ گیری ہنٹ کہتے ہیں کہ ‘جب بھی کوئی مشاہدہ کیا جاتا وہ کوئی نئی ہی چیز ہوتی۔’ امپیریئل کالج لندن سے تعلق رکھنے والے ہنٹ اس مشن پر کام کرنے والے واحد سینیئر برطانوی سائنسدان ہیں۔ ‘تاریخ ہی بدل گئی تھی۔’
سیاروں کے چاندوں سے کچھ سب سے زیادہ حیران کُن مشاہدات سامنے آئے۔ وائجر خلائی جہازوں کی مدد سے معلوم ہوا کہ یہ چاند پتھروں کے ٹکڑوں سے کہیں زیادہ تھے۔ سٹون بتاتے ہیں کہ ‘وائجر خلائی جہازوں سے پہلے تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ آتش فشاں صرف زمین پر پائے جاتے ہیں۔ مگر پھر ہم مشتری کے چاند آئیو کے قریب سے گزرے جو حجم میں ہمارے چاند جتنا ہی ہے اور اس پر زمین سے 10 گنا زیادہ آتش فشانی سرگرمی ہوتی ہے۔’
سٹون کہتے ہیں کہ ‘وائجر نے ہمارا نظامِ شمسی کے بارے میں وہ نکتہ نظر بالکل پلٹ دیا جس میں زمین ہی سب سے زیادہ اہم سیارہ تھی۔ وائجر سے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ واحد مائع سمندر صرف زمین پر ہے مگر پھر ہم نے مشتری کے چاند یوروپا کی دراڑ زدہ سطح کو دیکھا اور بعد ازاں یہ پایا گیا کہ اس کی سطح کے نیچے مائع پانی کا سمندر ہے۔’
اس مشن سے آنے والی اصل تصاویر اب مشرقی لندن میں کوئین میری کالج کے ایک کمرے کی گرد آلود الماری میں رکھی ہیں۔ تمام تصاویر ڈیجیٹائز ہوجانے کی وجہ سے کارڈ بورڈ کی تصاویر کو خال خال ہی دیکھا جاتا ہے مگر جب بی بی سی نے گیری ہنٹ کی ملاقات ان اصل تصاویر سے دوبارہ کروائی تو وہ ان کا معیار دیکھ کر حیران رہ گئے۔ خاص طور پر ایک تصویر جو وائجر 1 نے سیارہ زحل کے قریب جاتے ہوئے لی تھی۔
ہنٹ زحل کے پتھریلے چاند میماس کی تصاویر پلٹتے ہوئے کہتے ہیں: ‘یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔ ہم نے اسے ‘ڈیتھ سٹار’ کا نام دیا۔’
یہ تصویر اسی سال لی گئی تھی جس سال سٹار وارز کی دوسری فلم دی ایمپائر سٹرائیکس بیک ریلیز ہوئی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ چاند کیسے ایک مکمل طور پر فعال جنگی سٹیشن کی طرح لگتا ہے۔ اس کا ایک بہت بڑا مخروطی ٹکڑا بہت بڑے تصادم کی وجہ سے الگ ہوگیا تھا۔ ہنٹ کہتے ہیں ‘یہ بہت بڑی ٹکر تھی۔ یہ شاید اس شدت سے تھوڑا ہی کم تھا جو اس چاند کو پوری طرح بکھیر کر رکھ دیتی، اور سنیما گھروں میں سٹار وارز کی نمائش کے ساتھ اس کا نام ڈیتھ سٹار پڑ گیا۔’
مگر زحل پر یہ واحد حیرت انگیز مشاہدہ نہیں تھا۔ نئے چھلے اور ایک اور چاند دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ وائجر خلائی جہاز نے زحل کے چاند ٹائٹن کا بھی جائزہ لیا۔ اس کی فضا گاڑھے پیٹرو کیمیکل سے بنی ہے اور یہاں پر میتھین کی بارش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایک اور چاند اینسیلاڈس کی قریبی تصاویر بھیجیں۔ برطانیہ کے حجم جتنی یہ ننھی منی سی برفیلی دنیا نظامِ شمسی کا سب سے زیادہ روشنی منعکس کرنے والا جسم ہے۔ دونوں ہی چاندوں کا بعد میں کیسینی ہوئیگنز مشن نے جائزہ لیا اور اب سائنسدان اینسیلاڈس کو زندگی کی موجودگی کے لیے موزوں ترین جگہوں میں سے قرار دیتے ہیں۔
دی پلینٹری سوسائٹی کی سینیئر مدیر ایمیلی لکڑاوالا کہتی ہیں: ‘ان تمام چاندوں میں سے ہر ایک منفرد ہے۔ وائجر نے ہمیں سکھایا کہ ہمیں زحل کے چاندوں کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے یہاں کیسے مشن بھیجنے چاہییں۔’
نومبر 1980 میں وائجر 1 سیارہ زحل کو پیچھے چھوڑتا ہوا نظامِ شمسی سے باہر جانے کے اپنے طویل سفر پر نکل پڑا۔ دو ماہ کے بعد وائجر 2 نے نظامِ شمسی کے سب سے باہری سیاروں کے لیے اپنی راہ پکڑی۔ سنہ 1986 میں یہ یورینس پہنچا اور اس نے گیس سے بنے اس عظیم الجثہ سیارے اور اس کے چھلّوں کی اولین تصاویر کھینچیں اور اس کے 10 نئے چاند دریافت کیے۔
جب یہ خلائی جہاز 1989 میں آخری سیارے نیپچون تک پہنچا تو ایک مرتبہ پھر ایک چاند تھا جس نے سائنسدانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ وائجر 2 نے جس آخری جِرم کا مشاہدہ کیا وہ پورے مشن کے اہم ترین مشاہدوں میں سے تھا۔
سٹون کہتے ہیں کہ ‘جب ہم نیپچون کے چاند ٹرائٹن کے پاس سے گزرے تو ہم نے نائٹروجن کے فوارے پھوٹتے ہوئے دیکھے۔ ایک کے بعد ایک ہم نے زمین پر ہونے والی چیزوں کو پورے نظامِ شمسی میں ہوتے ہوئے دیکھا۔’
وائجر کی طرز پر بعد میں کئی خلائی جہاز بنائے گئے۔ کیسینی ہوئیگنز مشن زحل تک بھیجا گیا جبکہ گیلیلو اور جونو خلائی جہازوں نے مشتری کا مزید گہرائی سے جائزہ لیا۔ مزید کئی منصوبوں پر کام جاری ہے مگر یورینس یا نیپچون کے لیے کسی نئے مشن پر کام نہیں ہو رہا۔ ان دونوں سیاروں کی وائجر 2 کی لی گئی تصاویر کی آج تک کوئی نظیر نہیں ہے۔
انسانیت کی تاریخ میں شاید ہی کسی مہم نے ان دونوں وائجر خلائی جہازوں جتنی سائنسی کامیابیاں حاصل کی ہوں مگر ان سے ہمیں بے پناہ ٹیکنالوجیکل ورثہ بھی حاصل ہوا ہے۔
سٹون بتاتے ہیں کہ ‘یہ پہلا کمپیوٹر کنٹرولڈ خلائی جہاز ہے۔ یہ خود ہی اڑتا ہے، خود ہی کام کرتا ہے، خود ہی خود کو چیک کرتا ہے اور خود سے ہی بیک اپ نظام پر منتقل ہو سکتا ہے۔’
وائجر مشن میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو ہم روز مرّہ کی زندگیوں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ سٹون بتاتے ہیں کہ ‘چونکہ دور دراز خلا سے آنے والے سگنل نہایت کمزور ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں کوڈنگ سسٹم بنانے پڑے۔ سیل فون اور سی ڈی پلیئرز بھی یہی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں مگر یہ کوڈنگ چیزوں کو خلا میں بھیجنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔’
اسی طرح سمارٹ فونز کے اندر موجود امیج پراسیسنگ کی ٹیکنالوجی کی بنیاد بھی درحقیقت وائجر کے انجینیئرز کی تیار کردہ ٹیکنالوجیوں پر رکھی گئی۔
مگر وائجر خلائی مشن کے لیے سب سے عظیم ترین لمحہ 14 فروری 1990 کو آیا۔ یہ وہ دن تھا جب وائجر 2 نے اپنے کیمروں کا رُخ زمین کی طرف کیا تاکہ پورے نظامِ شمسی کی تصویر لی جا سکے۔ اس پوری تصویر میں زمین صرف ایک پکسل پر مبنی پھیکے سے نقطے کی مانند نظر آتی ہے جس سے ہمیں کائنات میں اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ایمیلی لکڑاوالا کہتی ہیں کہ ‘یہ خلا میں تیرنے والی ایک نہایت چھوٹی سی چیز ہے اور زمین ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ تمام زندگی موجود ہے جسے ہم جانتے ہیں۔ یہ خوف زدہ کر دینے والا خیال ہے اگر آپ وائجر کی لی گئی اس تصویر میں اسے سورج کی شعاع کے درمیان دیکھیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی لیزر کی شعاع ہے جس میں زمین نصب ہے۔’
وہ مزید کہتی ہیں: ‘کوئی ایک واقعہ بھی کائنات کی اُس پوری زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے جسے ہم جانتے ہیں۔ یہ ایک قیمتی تصویر ہے جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ کائنات میں ہمارا مقام کس قدر نازک اور چھوٹا ہے۔’
سنہ 2013 میں وائجر 1 نے وہ سرحد عبور کر لی جو سورج کے پیدا کردہ مقناطیسی میدان اور ستاروں کے درمیان موجود خلا کے درمیان ہے۔ سٹون بتاتے ہیں کہ ‘سورج یہ بڑا سا بلبلہ پیدا کرتا ہے جو سیاروں کو گھیرے رکھتا ہے۔ یہ کوسمک شعاعوں سے ہمیں بچاتا ہے۔ ہم اب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس بلبلے کے دیگر ستاروں کے مادوں سے ٹکرانے پر کیا ہوتا ہے۔’
وائجر 1 اب خلا میں چلتا ہی جا رہا ہے اور آنے والے چند سالوں میں وائجر 2 بھی نظامِ شمسی سے باہر نکل جائے گا۔ چونکہ یہ وائجر 1 سے مختلف زاویے سے نظامِ شمسی سے باہر نکلے گا، اس لیے سائنسدانوں کو اس کے ذریعے شمسی بلبلے کی ساخت کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی۔
مگر وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ خلائی جہاز جوہری بیٹریوں سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ پلوٹونیم کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والی گرمی سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ہر سال چار واٹ کم گرمی پیدا ہوتی ہے۔
وائجر کی پروگرام مینیجر سوزی ڈوڈ کہتی ہیں کہ ‘مقصد یہ ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ عرصے تک اڑتے رہیں۔ آپ ان کا تصور ان دو جڑواں بچوں کی طرح کریں جن میں سے ایک کی 40 سال کے عرصے میں قوتِ سماعت ختم ہو چکی ہے تو دوسرے کو کچھ خاص نظر نہیں آتا، اس لیے ہمیں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔’
وہ کہتی ہیں: ‘ہم غیر ضروری سسٹمز بند کرتے جا رہے ہیں۔ ہم اب صرف وہ آلے چلائے رکھتے ہیں جن سے خلائی جہازوں کے محلِ وقوع کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ ہم ان کے کیمرے ہمیشہ کے لیے بند کر چکے ہیں کیونکہ وہاں دیکھنے کے لیے کچھ نہیں ہے، صرف نہایت اندھیری خلا ہے۔’
کچھ توانائی سے ہیٹرز چلائے جاتے ہیں تاکہ خلائی جہاز کے آلے منجمد نہ ہوجائیں۔
ڈوڈ جانتی ہیں کہ شاید اگلے 10 سالوں میں کسی دن وائجر 1 اور 2 کو بند کرنا پڑے گا۔ وہ کہتی ہیں ‘مجھے لگتا ہے کہ یہ ناسا اور انسانیت کے لیے بہت افسوسناک دن ہوگا۔ یہ ایسا ہوگا جیسے بھرپور زندگی جینے والے کسی دادا دادی یا کسی قریبی رشتے دار کو کھو دیا جائے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب ہم وائجر سے سگنل پکڑنے کی کوشش کریں گے مگر ہمیں سگنل نہیں ملے گا۔’
مگر ایک طرح سے دیکھیں تو وائجر مشن شاید ہمیشہ چلتا رہے اور شاید یہ انسانی تہذیب سے بھی زیادہ عرصے تک قائم رہے۔
ڈوڈ کہتی ہیں کہ ‘مجھے یہ سوچنا پسند ہے کہ مستقبل میں کبھی کوئی چیز یا کوئی مخلوق انھیں تلاش کرے گی، گولڈن ریکارڈ چلائے گی اور ایسی تہذیب کو دیکھے گی جو اس وقت تک ایک قدیم تہذیب بن چکی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ جب تک گولڈن ریکارڈ کسی کے ہاتھ لگے تب تک زمین ختم بھی ہو چکی ہو۔’
سٹون کہتے ہیں کہ ‘وائجر خلائی جہاز ملکی وے کہکشاں کے لیے ہمارے خاموش سفیر بنیں گے۔ یہ اربوں سالوں تک کہکشاں کے گرد گردش کرتے رہیں گے۔’
مگر انھیں ایسی کوئی خاص امید نہیں کہ وائجرز کو کبھی کوئی دوسری مخلوق دریافت کرے گی۔ ‘ایسا ہونا بہت حیران کُن ہوگا، کیونکہ خلا واقعی بہت خالی ہے۔’
مگر شاید یہ مقصد بھی نہیں ہے۔ زمین سے اپنے ٹائم کیپسول لے کر وائجر خلائی جہاز 1977 کی دنیا کو مستقبل بعید میں لے کر جا رہے ہیں۔
اس طرح وائجر خلائی جہازوں نے نوعِ انسانی کو لافانی بنا دیا ہے۔