پاکستان

حکومت نے زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی

Share

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی تا کہ مارکیٹ میں ان کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔

رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ کووِڈ 19 کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے ریمڈیسویر کے 100 ملی گرام کے انجیکشن کی قیمت 10 ہزار 873 سے کم کر کے 8 ہزار 244 کردی۔

وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں ملک میں توانائی کے بحران، بجلی کے شعبے میں گردشی قرضوں اور انسداد ریپ بل سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔

معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ کابینہ نے ان ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی ہے جن کی مارکیٹ میں قلت ہے کیوں کہ نقصان کی وجہ سے مینوفیکچررز نے ان کی پیداوار روک دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 94 ادویات میں سے زیادہ تر کی قیمت ایک دہائی سے نہیں بڑھائی گئیں جس کی وجہ سے مینوفیکچررز نے انہیں بنانا چھوڑ دیا اور مارکیٹ میں ان کی قلت ہوگئی۔

معاون خصوصی نے کہا کہ جب یہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتیں تو مریض مہنگی اسمگل شدہ ادویات استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر ایک دوا کی قیمت 10 روپے ہے، ہم نے اس کی قیمت بڑھا کر 15 روپے کردی، بظاہر یہ50 فیصد اضافہ ہے لیکن ہمیں لوگوں کو ویسی ہی اسمگل شدہ دوا 300 روپے میں خریدنے سے بچانا ہے۔

اس ضمن میں ڈان ڈاکٹر سلطان سے پوچھا کہ کیا حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قیمتوں میں اضافہ ان کی مارکیٹ میں دستیابی کو یقینی بنائے گا تو انہوں نے کہا کہ حکومت طاقت کے ذریعے دوا کی مارکیٹ میں دستیابی یقینی نہیں بنا سکتی کیوں کہ قیمتوں میں کمی کے لیے دباؤ ڈالا جائے تو ادویات بنانے والے پیداوار روکنے کے متعدد طریقے اپنا لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ کابینہ نے زندگی بچانے والی ادویات کے ساتھ ساتھ کینسر اور امراض قلب کی ان ادویات کی درآمد کی منظوری دے دی جو پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں اور انہیں پابندی سے مستثنیٰ کردیا۔

اگر کوئی کمپنی کسی دوا کی پیداوار روک دے اور دعویٰ کرے کہ پیداواری لاگت اور مہنگے خام مال کی وجہ سے یہ ناقابل عمل ہے تو اس کی قیمت ایک خصوصی کیس کے طور پر بڑھائی جاسکتی ہے جسے ‘ہارڈ شپ کیس’ کہتے ہیں۔

چنانچہ وزارت صحت کے جاری کردہ بیان کے مطابق ڈرگز پرائسنگ پالیسی 2018 کے تحت ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کی سفارشات پر ان ادویات کی قیمتوں میں تبدیلی کی منظوری دی گئی جو ‘ہارڈ شپ کیٹیگری’ میں آتی ہیں۔

وزارت صحت کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابینہ نے ڈرگ ایکٹ 1976 کی دفعہ 23 کی شق 1 سے استثنیٰ دینے پر بھی غور کیا۔

اس دفعہ کے مطابق ‘پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے پاس رجسٹریشن کے بغیر کوئی دوا فروخت نہین ہوسکتی’ جس سے استثنیٰ ملنے پر ہسپتال اپنے مریضوں کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ سے ادویات خرید سکیں گے۔