برطانوی حکومت کے چیف سائنسی مشیر نے متنبہ کیا ہے برطانیہ اکتوبر کے وسط تک ایک دن میں 50,000 نئے کورونا وائرس کے کیسزدیکھ سکتا ہے۔سر پیٹرک ویلنس نے کہا کہ ایک ماہ کے بعد کورونا وائرس سے 200سے زیادہ اموات فی دن ہوسکتی ہے۔یہ خبر اس وقت آئی جب برطانوی وزیر اعظم بورس جونسن منگل کی صبح’کوبرا‘کی ہنگامی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرنے کی تیارے کر رہے تھے جس کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں اپنابیان دیناتھا۔
کورونا وائرس کے دوبارہ لوٹ آنے سے اب تک کئی ہزار لوگ ہسپتال میں داخل ہوچکے ہیں۔ کورونا کیسز میں دن بدن اضافے سے حکومت اور سائنسدانوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ اس مہینے سے شروع ہونے والے کیسز میں اب تک چار ہزار سے زیادہ روزانہ کیسز ہورہے ہیں اور گیارہ لوگوں کی موت ہوئی ہے۔اس کے ساتھ ہی حکومت نے چھ سے زیادہ لوگوں کی میٹنگ پر پابندی لگا دی ہے۔ تاہم یہ بات بھی زیر ِ بحث ہے کہ کیا برطانیہ میں دوبارہ لاک ڈاؤن ہوگا جس کا مجھے بہت کم امید لگتی ہے۔
انسان چاہے کتنا ہی ذہین یا ہوشیار کیوں نہ ہو کبھی کبھی اس کی ذہانت اور عقلمندی دھری رہ جاتی ہے۔ جیسا کہ کورونا وائرس کی وبا سے ہوا ہے۔
تاہم اب بھی سائنسداں اپنی سائنسی ذہانت اور اپنی عقلمندی سے دن رات کوشاں ہیں کہ کیسے کورونا وائرس کے خلاف ویکسِن تیار کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر اسرار بیماری کی جنگ میں سائنسی پیش رفت کو تیز کر دیا ہے۔ان پیش رفتوں میں سب سے اہم اینٹی باڈی ٹیسٹنگ ہے۔ سستے، قابل اعتماد اینٹی باڈی ٹیسٹ جو کہ کوویڈ 19 کی شناخت کرتاہے۔ دنیا بھر کی متعدد ٹیمیں پہلے ہی لیب بیسڈ اینٹی ٹیسٹنگ استعمال کر رہی ہیں۔ لیکن اس میں کچھ دشواریاں بھی ہیں اور اس کی پیمائش کرنا مشکل ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ انفیکشن کے چند ہفتوں بعد ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ متوازی طور پر بہت ساری کمپنیاں ہوم ٹیسٹنگ کٹس کے ذریعہ کام کر رہی ہیں جو حمل کے ٹیسٹ کی طرح ہوتی ہیں۔
اس ہفتے برطانیہ کی حکومت نے اس بات کا اشارہ کیا کہ اسطرح کے ٹیسٹ کافی قابل اعتماد ہو سکتے ہیں۔جسے صحت سے متعلق کارکنوں اور پھر ہائی اسٹریٹ کیمسٹ کے ذریعہ عوام کو یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے 3.5 ملین ٹیسٹنگ کٹس خریدی گئی ہیں۔انگلینڈ کے چیف میڈیکل آفیسر کرس وائٹی نے بدھ کے روز کہا کہ ’ایک چیز جو ٹیسٹ کے مقابلے میں بد تر ہے وہ ایک خراب ٹیسٹ ہے‘۔اسپین میں حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ چینی ساختہ 9,000کورونا وائرس ٹیسٹنگ کٹس کو استعمال سے واپس لے لے جب یہ انکشاف ہوا کہ ان کی شناخت کی درست شرح صرف 30فیصد ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ کوویڈ 19آپ کے بو اور ذائقہ کے احساس کو متاثر کر سکتا ہے۔یہ بات کئی ہفتوں سے گردش کر رہی ہے کہ کوویڈ 19سے متاثر لوگ اپنی بو کا احساس کھو سکتے ہیں۔برطانوی ایسو سی ایشن آف اوٹورینو لرینگو لوجی نے کہا ہے کہ جنوبی کوریا، چین اور اٹلی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق نام نہاد انوسمیا وائرس کے ذریعہ کورونا کا پتہ لگانا آسان ہوسکتا ہے۔ تاہم ڈبلو ایچ اونے کہا ہے کہ ہم مختلف ممالک سے ملی اس رپورٹ کو ماہرین ابھی دیکھ رہے ہیں اور ابھی ہم کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔ ان ممالک میں مریضوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کورونا کے دوران سات سے چودہ دنوں میں ان لوگوں میں خوشبو کے احساس کی واپسی کی اطلاع ملی ہے۔
ایسی امید کی جا رہی ہے کہ زندگی کچھ دیر ہی سہی معمول پر آسکتی ہے۔ لاک ڈاؤن کے حمایتی جہاں اس بات پر زور دے رہے کہ لاک ڈاؤن سے کرونا سے لوگوں کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے تو وہیں سیاستداں اور برطانوی وزیر اعظم اس بات کے خلاف بھی ہیں کہ ملک میں دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ ہو۔ تاہم چانسلر (وزیر خزانہ) بھی لاک ڈاؤن کے حمای نہیں ہیں کیونکہ پچھلے لاک ڈاؤن سے برطانیہ کی معیشت کو بھاری نقصان اٹھا نا پڑا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چھوٹے بڑے کارخانوں میں تالے لگ گئے اور سیکڑوں کاروبار تباہ ہو گئے۔بے روزگاری کی شرح اتنی بڑھ گئی ہے کہ حکومت فرلو اسکیم کے تحت بے روزگار لوگوں کو بینیفٹ دے رہی ہے جس کی معیاد مزید بڑھانے سے حکومت جھجھک رہی ہے اور برطانیہ کو واپس مضبوط معاشی ملک بنانے کے لیے تمام احکامات کئے جارہے ہیں۔
فی الحال تو مسئلہ یہ بنا ہوا ہے کہ آکر کرونا پر کیسے قابو پایا جائے یا اس کا خاتمہ کیسے کیاجائے۔ جب آپ یہ جانتے ہوں کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ دورانِ علاج مریضوں کی کیسے دیکھ بھال کی جائے؟ نہ جانے کتنے ایسے سوالات ہیں جس کا جواب شاید ہم اور آپ روزانہ بے چینی سے تلاش کر رہے ہیں۔ عام طور پر معیشت، تعلیم اور صحت کے لیے بے تحاشا لاگت سے ایک بار پھر لوگوں کو دھکا لگا ہے۔اب کورونا وائرس کے دن بدن بڑھنے سے نئی قومی پابندیوں کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔جبکہ ملک کے بڑے حصے پہلے ہی جزوی طور پر لاک ڈاؤن میں ہیں۔
لیکن ہمارے ذہن میں ان تمام باتوں کے علاوہ یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ کیا ہم ہارنے والی جنگ لڑ رہے ہیں؟ یا ہمیں اس کے بجائے وائرس کے ساتھ جینا سیکھنے کی ضرورت ہے؟آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کارل ہینغان، جو مرکز کے لیے ثبوت پر مبنی میڈیسن کے سربراہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال ’عدم افراتفری‘ ہے جس میں مستقل طور پر نئی پابندیوں کا سامنا ہے اور جیسے کئی اسکولوں نے تمام طلبا کوگھر بھیج دیا گیاجبکہ صرف ایک شخص کو مثبت کورونا پایا گیا۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب انفیکشن کی سطح اب بھی بہت کم ہے۔پروفیسر کارل کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت جب بھی کیسز میں اضافہ دیکھتی ہے تو گھبرا جاتی ہے۔
پروفیسر وِل ہاؤس کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن نے اس مسئلے کو محض ٹال دیا ہے لیکن اس بات پر دھیان دینے کی بھی ضرورت ہے کہ کمزور اور بیمار لوگوں کی کورونا سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے وائرس کو روکنے کے لیے انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو جو گھروں میں رہتے ہیں ان کی جانچ کو اولین ترجیح دی جائے۔ ایسے اہم اقدامات ان کمزور اور بیمار لوگوں کے تحفظ کے لیے اٹھائے جائیں جن کی دیکھ بھال گھروں میں ہوتی ہے۔جس کے لیے لوگوں میں اعتماد کوبرقرار رکھنا بہت اہم ہے۔ دوسرا عنصر جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر شدید بیماری کا علاج کرنے کے لیے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں۔ کوویڈ 19کا علاج کرنے کے لیے تمام تر سہولت فراہم ہوں۔ مثلاً خون کے جمنے، اور گردے کی خرابی جیسے مسائل کے لیے اسپتال جانا ضروری سمجھا جائے جیسا کہ عام طور پر لوگوں میں اس بات کا
خوف بیٹھ گیا ہے کہ اسپتال جانے کا مطلب موت سے قریب ہوجانا ہے۔
کورونا وائرس کے دوبارہ لوٹنے سے جہاں لوگوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے تو وہیں لوگ اس بات پر بھی اڑے ہوئے ہیں کہ وہ کورونا کے ساتھ جنگ میں ہمت نہیں ہارے گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سائنسداں دن رات کی محنت سے کوئی ویکسین جلد بنا لیں گے یا کورونا خود ہار کر ہمارے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا۔ فی الحال تو ہم صرف اللہ سے دعا ہی مانگ سکتے ہیں کہ یا اللہ دنیا بھر میں کورونا کی وبا سے ہم سب کو محفوظ رکھ اور ہم سب کو اس عذاب سے جلد از جلد نجات دلا دے۔آمین۔