اس کالم کی اشاعت تک اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس(APC) ہو چکی ہو گی۔یقینا کوئی اعلامیہ بھی سامنے آگیا ہو گا۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہی ہوں، اس کانفرنس کی خبر روائتی اور سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ اے۔پی۔سی میں نواز شریف کے ممکنہ خطاب کی اطلاع نے حکومتی صفوں میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ حکومتی ترجمان میڈیا کو تنبیہہ کر رہے ہیں کہ کسی ٹی۔وی چینل نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر دکھائی تو اسے پیمرا کے ذریعے نمٹیں گے۔ اس تناظر میں سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر آزادی اظہار رائے پرقدغن کی بحث چل نکلی ہے۔ بہت سوں کو 2014 میں اسلام آباد کی سڑکوں پر ہونے والا 126 روزہ دھرنا یاد آرہا ہے۔، پیمرا کی موجودگی کے باوجود، دن رات جس کی میڈیا کوریج کی جاتی تھی۔
اس سیاسی اکٹھ کے اغراض و مقاصد سے قطع نظر،سیاسی سرگرمی کرنا ہر سیاسی جماعت کا قانونی اور آئینی حق ہے۔ ماضی میں بھی ملک میں ہر طرح کی سیاسی سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں۔ہم سب آگاہ ہیں کہ ہماری قومی سیاسی تاریخ خوشگوار نہیں ہے۔یہاں پر حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی رہیں۔ ستر برسوں میں کوئی ایک وزیر اعظم بھی اپنی مدت اقتدار مکمل نہیں کر سکا۔ آمروں کے آشیر باد سے آنے والے، ان کے اشارہ ابرو اور خوشنودی خاطر سے بندھے وزرائے اعظم کو بھی مقررہ مدت سے قبل رخصت ہونا پڑا۔ یہی حال انتخابی تاریخ کا ہے۔ اول تو انتخابات سے ہمیشہ نگاہیں چرائی گئیں۔کسی نہ کسی بودی تاویل کو بنیاد بنا کر انتخابی عمل کو معطل رکھا گیا۔ انتخابات ہوئے بھی تو من مرضی کے نتائج کے حصول کیلئے مداخلت کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ کم و بیش ہر الیکشن کی ساکھ اور شفافیت پر سوالات اٹھتے رہے۔ 2018 میں ملکی تاریخ کا مہنگا ترین الیکشن منعقد ہوا۔ غریب عوام کے ٹیکسوں سے 21 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ستر برس کی سیاسی اور انتخابی تاریخ میں ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا رہا، اس کا فائدہ خواہ کسی بھی سیاسی جماعت، ادارے یا شخصیات کو ہوا ہو، اس کا نقصان لیکن میرے ملک پاکستان کو ہوا۔ مسائل کا انبوہ کثیر ہے جو اس ملک اور عوام کو درپیش ہے۔ بدقسمتی سے کم ہونے کے بجائے، مسائل کے اس پہاڑ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بہرحال اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے اسباب و محرکات اور ملکی سیاست پر اس کے اثرات میرے کالم کا موضوع نہیں۔ البتہ اس سیاسی سرگرمی کیلئے سیاستدانوں کے تحرک کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کاش قومی سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور معیشت، تعلیم، صحت، نظام قانون و انصاف اور مفاد عامہ کے دیگر معاملات پر بھی چند کانفرنسوں کا اہتمام کریں۔
2006 میں میثاق جمہورہت ہوا تھا۔ نوے کی دہائی میں بدترین سیاسی حریف رہنے والی دو جماعتیں ماضی کے طرز عمل سے تائب ہوئیں اور مثبت جمہوری روایات کو فروغ دینے کا عہد کیا۔ملکی سیاسی منظر نامے پر اس معاہدے کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔سیاسی مخالفت اور کھینچا تانی کے باوجود کچھ مثبت سیاسی روایات قائم ہوئیں۔ ایک زمانے میں اسحاق ڈار ” میثاق معیشت” کی تجویز دیا کرتے تھے۔ مقصد اس تجویز کا یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں ملک کی معیشت کو اپنے سیاسی اور جماعتی مفادات کا نشانہ بنانے سے گریزاں رہیں۔ اس اچھی تجویز پر لیکن عمل نہیں ہو سکا۔خیال آتا ہے کہ کاش حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں مل بیٹھیں اور ایک آل پارٹیز کانفرنس معیشت کے حوالے سے برپا ہو۔ غور کیا جائے کہ ایسی کیا غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے ملکی معیشت محض دو برسوں میں انتہائی خستہ حا ل ہو گئی ہے؟۔ کیوں یکدم پاکستانی روپیہ خطے میں موجود تمام ممالک (بشمول بنگلہ دیش اور افغانستان) کی کرنسی سے کم تر ہو گیا ہے؟ ان اسباب کا احاطہ کیا جائے، جن کی وجہ سے عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ خطے کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ سی پیک کیوں پس منظر میں چلا گیا ہے؟ سوچا جائے کہ کیوں مختصر عرصے میں لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے دھکیلے گئے ہیں؟ کیوں بے روزگاری کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے؟ کیوں کاروباری طبقے میں اس قدر بے چینی پائی جاتی ہے کہ آرمی چیف کو بذات خود ملاقاتیں کر کے کاروباری طبقے کو یقین دہانیاں کروانا پڑتی ہیں؟ ان تمام مسائل پر بات ہو، اپنی غفلت اور کوتاہی کو تسلیم کیا جائے اور اتفاق رائے کیساتھ معاشی بد حالی سے نکلنے کے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔
کاش کبھی تعلیم پر بھی ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا جائے۔غور کیا جائے کہ ستر برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود، ہم کیوں ابھی تک بنیادی معاملات پر یکسو نہیں ہو سکے؟ دنیا چاند پر جا پہنچی ہے، ہم کیوں ابھی تک پرائمری تعلیم کا ہدف حاصل نہیں کر سکے؟ کم وبیش تین کروڑ بچے کیوں اسکولوں سے باہر ہیں؟۔ ڈراپ آوٹ کی شرح کیوں اتنی ذیادہ ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یکساں نظام تعلیم (یکساں نصاب تعلیم نہیں) کے بلند آہنگ نعرے بلند کرنے کے باوجو د، ا یک طرف ایچی سن کالج اور ایڈورڈ کالج پشاور جیسے بڑے ادارے ہیں، جبکہ دوسری طرف دیہاتوں کے وہ سکول ہیں جہاں کرسی، میز، پینے کا صاف پانی، چار دیواری اور لیٹرین جیسی بنیادی سہولتیں بھی مفقود ہیں؟ اس امر پر غور کریں کہ اعلیٰ تعلیم کے سینکڑوں اداروں کے باوجود، ہماری ڈگریاں کیوں کاغذ کا پرزہ سمجھی جاتی ہیں؟ کیوں معیار تعلیم گراوٹ کا شکار ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے حامل نوجوان ڈھنگ سے اردو اور انگریزی کے چند جملے لکھنے بولنے سے قا صر ہیں؟ کیوں ہم اٹھارویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جنم لینے والی اڑچنوں کا حل نہیں نکال سکے؟اس پر غور کریں کہ کیوں نامور جامعا ت کے فنڈز میں اس قدر کمی کر دی گئی ہے کہ وہ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں؟ کاش ان تمام تعلیمی مسائل پر بھی کوئی اے۔پی۔سی بلائی جائے۔ کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے۔
شعبہ صحت کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ تعلیم ہی کی طرح صحت کا شعبہ بھی بے سمتی کا شکار ہے۔ایک طرف بجٹ کی کمی درپیش ہے اور دوسری طرف نئی نئی پالیسیاں۔کاش اس حوالے سے بھی کوئی آل پارٹیز کانفرنس ہو۔ سیاسی قیادت مل بیٹھے اور سوچے کہ اگر ریاست اپنے غریب شہریوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کرئے گی تو کیا کسی غیر ملک کی حکومت ایسا کرئے گی؟غور کرنا چاہیے کہ کیوں پنجاب جیسے بڑے صوبے میں کینسر جیسے موذی مرض کے مریضوں کو ادویات کی عدم فراہمی پر سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑتا ہے؟ دنیابھر سے پولیو ختم ہو گیا ہے۔ افریقہ جیسا قحط کا گڑھ بھی پولیو فری ہو چکا ہے۔دنیا میں صرف دو ممالک میں پولیو موجود ہے۔ پہلا ملک ایٹمی قوت پاکستان ہے جبکہ دوسرا برسوں سے خانہ جنگی کا شکار افغانستان ہے۔ سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اس بیماری کی سرکوبی نہیں کر سکے؟ کیوں ہمارے ہاں نئے نئے پولیو کیسز سامنے آتے رہتے ہیں؟
کاش کوئی آل پارٹیز کانفرنس نظام قانون و انصاف کی اصلاح احوال کیلئے بھی کی جائے۔ یہ معاملہ زیر غور آئے کہ ہمارے ہاں سانحہ موٹروے جیسے جنسی ذیادتی کے اندوہناک سانحے کیوں ہوتے ہیں؟ کیوں معصوم بچے بچیوں کیساتھ ذیادتی کے واقعات معمول بن گئے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ ان جرائم میں ملوث مجرم قانون کی گرفت میں نہیں آتے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جنسی ذیادتی کے 97 فیصد ملزمان عدالتوں میں بری ہو جاتے ہیں اور صرف 3 فیصد سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں؟سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ کیوں شہری کورٹ کچہری کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں؟ کیوں محکمہ پولیس اپنا اعتبار اور ساکھ کھو چکا ہے؟کیوں ہمارے ہاں سانحہ ساہیوال اور سانحہ ماڈل ٹاون جیسے بدترین واقعات ہوتے ہیں؟ اس پر بھی غور ہونا چاہیے کہ کیوں عدالتوں میں مقدمات کا فیصلہ ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں؟ ملک بھر کی عدالتوں میں بیس لاکھ مقدمات زیر التوا ء ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
ہماری سیاسی جماعتیں ضرور سیاسی سرگرمیاں کریں۔ مخالفین کے لتے بھی لیں۔ اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے بھی متحرک ہوں۔ مگر عوام کی زندگیوں سے براہ راست جڑے ان معاملات پر بھی کوئی اکٹھ ہونا چاہیے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر دھرنے، جلسے، ریلیاں، احتجاج کیے جاتے ہیں، مگر تعلیم، صحت، معیشت،روزگار، مہنگائی جیسے موضوعات پر کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی جاتی۔جس دن یہ مسائل سیاستدانوں کی ترجیحات بن گئے، اس دن پاکستانی عوام کی مشکلات کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔