سوشل میڈیا پر مباحثہ: ’فوج کی سیاست میں دلچسپی نہیں تو یہ ملاقاتیں کیوں؟‘
اس وقت پاکستان کے سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو جو ٹرینڈز دکھائی دے رہے ہیں وہ ملک میں جاری سیاسی کشمکش کا حال بخوبی سنا رہے ہیں۔
منگل کی بدھ کی شام جب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپنی جماعت کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے حوالے سے دو ملاقاتیں کی تھیں تو اس کے بعد سے نیوز چینلز اور سوشل میڈیا طرح طرح کے سوالوں اور قیاس آرائیوں سے بھرا پڑا ہے۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلائے جانے کے بعد جو سخت موقف جماعتوں بالخصوص نواز شریف کی جانب سے اختیار کیا گیا یہ انہی صلح کی کوششوں میں ناکامی کا ردعمل ہے۔
ایک صارف علی رضا کا کہنا ہے ’وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف کی تقریر کو نشر ہونے دیا۔ نواز شریف نے فوج کو نشانہ بنایا، فوجی سربراہ کی پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کی خبر سامنے آئی۔ شیخ رشید نے پی ایم ایل این کے رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات کا انکشاف کیا۔ مریم صفدر نے تردید کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سچ بتا دیا۔‘
’عمران حان نے ماسٹر سٹروک کھیل دیا‘۔
اس وقت پاکستان میں جو ہیش ٹیگز بہت زیادہ ٹرینڈ کر رہے ہیں وہ بھی کچھ ایسے ہیں جس میں سر فہرستMaryamExposedAgain ہے،اس کے بعد ’جی ایچ کیو نہیں پارلیمنٹ، ڈی جی آئی ایس پی آر، زبیر، چیف آف آرمی سٹاف اور پی ایم ایل این سمیت وہ تمام ٹرینڈز گردش میں ہیں جو اسی معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
بیشتر صارف مریم نواز کی جانب سے فوج کے ساتھ رابطوں کی خبر کی تردید کیے جانے کے بعد اس صورتحال میں انہیں ’سند یافتہ جھوٹ بولنے والی‘ قرار دے رہے ہیں۔ صارفین کے خیال میں مریم نواز اوبر نواز شریف کا جی ایچ کیو کے خلاف پروپیگینڈا ناکام ہو گیا ہے۔
ایک صارف مطیع الولید نے ٹویٹ کیا کہ ’آئی ایس پی آر کے بیان سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ پی ایم ایل این کوئی این آر او چاہتی تھی لیکن ان کی درخواست رد کر دی گئی۔ اس واقعے نے تو اے پی سی اور پی ایم ایل این دونوں کو ختم کر دیا۔‘
ایک صارف ایس ایم عمر کا کہنا تھا پی ایم ایل این ریاستی اداروں کو گھسیٹ کر احتساب سے فرار چاہتی ہے۔ پاکستانی فوج سے صاف انداز میں سیاسی یا احتسابی عمل میں مداخلت سے انکار کر دیا۔ ‘
آئی ایس پی آر کے اس بیان پر کہ آرمی چیف نے سیاسی معاملات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ایک صارف عمیر چادھر نے لکھا’یہی ہمارے آئین اور مسلح افواج کے حلف میں شامل ہے کہ وہ سیاسی عمل میں مداخلت سے انکار کریں۔ آئین بالاتر ہے اور سیاسی معاملات کو آئین کے مطابق حل کیا جانا چاہے۔‘
وہیں صحافی غریدہ فاروقی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا مریم نواز اور نواز شریف ان ملاقاتوں سے آگاہ بھی تھے یا نہیں؟
دوسری طرف اسامہ صدیقی کا کہنا تھا ’فوج کی سیاست میں دلچسپی نہیں تو (1) یہ ملاقات کیوں؟ (2) نواز شریف اور مریم نواز کی بات کیوں ہوئی (3) اسے آئی ایس پی آر کے ذریعے عوام تک کیوں پہنچایا؟ ہم جانتے ہیں ایسا کیوں ہوا۔ کیا یہ سیاستدانوں کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں؟ اور ایک سیاسی چال نہیں۔ یہ کافی مضحکہ خیز ہے۔‘
اسی حوالے سے صحافی اسد طور کا کہنا تھا ’اگر آرمی چیف جنرل باجوہ قانونی معاملات کو عدالتوں میں اور سیاسی معاملات کو پارلیمان میں حل کروانا چاہتے تھے اور فوج اس سے دور رہنا چاہتی تھی تو یہ بات محمد زبیر کو پہلے ملاقات میں ہی کیوں نہ بتا دی گئی۔ دونوں کو دوسری ملاقات کی ضرورت کیوں پڑی‘۔
وہیں ایک صارف ماجد نواب نے شیخ رشید کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’مین آف دی میچ‘ جنھوں نے پی ایم ایل این اور نواز شریف کا بھانڈا پھوڑا۔ ‘
کچھ صارفین تو مولانا فضل الرحمن کو بھی نہیں بھولے اور طنز و مزاح پر مبنی تصاویر کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی کہ مولانا فضل الرحمن اس صورتحال میں کافی پچھتا رہے ہوں گے۔
بشکریہ بی بی سی اُردو