Site icon DUNYA PAKISTAN

اسرائیل اور عرب ممالک کے امن معاہدے: کیا یہ دنیا کے سب سے غیر مستحکم خطے میں ایک نئی شروعات ہے؟

Share

آج سے 72 برس قبل سنہ 1948 میں مشرق وسطیٰ میں وجود میں آنے والے ملک اسرائیل کی خطے میں حیثیت ایک ناپسندیدہ ہمسائے کی رہی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے ساتھ اُن کے حالیہ امن معاہدوں پر ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے اور اس کے بعد خطے میں نئی علاقائی صف بندی سامنے آنے کی توقعات بھی ظاہر کی جا رہی ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید، بحرین کے وزیر خارجہ عبدل لطیف الزینی اور اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو نے 15 ستمبر کو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں معمول کے تعلقات قائم کرنے کے معاہدوں پر دستخط کیے جن کو ’ابراہیم معاہدہے‘ کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔

ان معاہدوں پر کچھ ردعمل تو بالکل فطری اور متوقع تھا۔ فلسطینی علاقوں میں ان کی مذمت کی گئی اور ایران اور خطے میں اس کے اتحادیوں نے بھی ان کی مذمت کی، جبکہ مصر نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا گیا۔

لیکن دیگر ملکوں کا ردعمل غیر متوقع تھا۔ اردن، جو ماضی میں اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ کر چکا ہے، کا ردعمل محتاط تھا جبکہ شام، جس کے ایران سے قریبی تعلقات ہیں، کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی۔

البتہ سب سے دلچسپ ردعمل ان ملکوں کی طرف سے سامنے آیا جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ بھی اِن ہی ملکوں کی تقلید کریں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدوں کی تقریب میں خطاب کے دوران اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ کم از کم پانچ یا چھ عرب ملک بہت جلد اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کریں گے۔ بعدازاں انھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو کہا کہ سعودی عرب مناسب وقت پر سمجھوتہ کرنے کا اعلان کرے گا۔

سعودی عرب کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا وہ بہت مبہم یا غیر واضح تھا۔ لیکن سعودی ذرائع ابلاغ میں مختلف کہانی پیش کی گئی۔ ایک سوچ یہ سامنے آئی کے سعودی عرب کا اصل دشمن اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے۔

ذیل میں بی بی سی مانیٹرنگ نے عربوں کے ردِعمل پر قریب سے نظر ڈالی ہے جس کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان معاہدوں نے دنیا کے سب سے غیر مستحکم خطے میں ایک نئی شروعات کی ہیں۔

ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟

متحدہ عرب امارات

کئی دہائیوں سے اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان پس پردہ تعلقات کی خبروں کے بعد متحدہ عرب امارات پہلی خلیجی ریاست تھی جس نے 13 اگست کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کا سرکاری طور پر اعلان کیا۔ دونوں ملکوں کے قریب آنے کے اشارے دو سال سے مسلسل مل رہے تھے جس کے بعد یہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔

متحدہ عرب امارات ایک عرصے سے خطے میں بڑی جارحانہ اور سرگرم خارجہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔

یہ علاقائی تنازعات میں بڑھ چڑھ کر لیکن اکثر خفیہ طور پر کردار ادا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر لیبیا اور یمن میں یہ بہت سرگرم ہے تاکہ شدت پسندوں گروہوں اور ایران کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے سے روکا جا سکا۔

اسرائیل سے اپنے تعلقات معمول پر لانے کے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو خارجہ پالیسی کی ان ہی ترجیحات کے تناظر میں دیکھا جائے گا جن میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے مضبوط اتحادیوں کی تلاش ہے۔

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ ان معاہدوں کو خطے میں اپنا قد اونچا کرنے کے لیے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور اماراتی حکام اور ذرائع ابلاغ یہ دعوے کر رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدہ کرنے کی وجہ سے اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں میں مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے ارادے کو ترک کر دیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارہ عبداللہ بن زید نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطی کے قلب میں تبدیلی لانے کا باعث بنے گا۔

بحرین

ایک ماہ کے اندر ہی جب بحرین نے متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا تو بہت سے مبصرین نے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے بحرین کی چھوٹی سی ریاست کو ایسا کرنے کے لیے مالی امداد دی ہے۔

بحرین کی صورت حال مختلف ہے۔ بحرین میں اکثریتی آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے جبکہ حکمران سنی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک میں ایک عرصے سے بدامنی پائی جاتی ہے۔

ریاست کی سنی حکمرانوں کے لیے یہ صورت حال اسرائیل سے تعلق بنانے کے لیے ایک رکاوٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ بھی تھی کیونکہ ملک کی حزب اختلاف پر ایران کا اثر و رسوخ بحرین کے حکمرانوں کے لیے بڑا واضح اور حقیقی خطرہ تھا۔

ملک کی شیعہ آبادی اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی شدید مخالف ہے اور اس کا برملا اظہار بھی دیکھنے میں آیا۔ عرب دنیا میں بحرین میں عوامی سطح پر سب سے زیادہ احتجاج کیا گیا اور اس چھوٹے سے ملک میں کئی جگہوں پر مظاہرے کیے گئے۔

باقی خلیجی ملک کہاں کھڑے ہیں

قطر

اسرائیل کے ساتھ برسوں کے پس پردہ تعلقات اور اسرائیل حکام کے دوحہ کے دوروں کے باوجو قطر کے نائب وزیر خارجہ لولا الخطیر نے 14 ستمبر کو ‘بلوم برگ’ نیوز ایجنسی کو دیئے گئے ایک بیان میں کہا کہ قطر اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک مسئلہ فلسطین کو حل نہیں کر لیا جاتا۔

قطر کی الشرق نیوز ایجنسی کے مطابق نائب وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ وہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی تقلید کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کریں گے۔

ان سب باتوں کے باوجود قطر مسئلہ فلسطین میں ایک سرگرم کردار ادا کر رہا ہے اور فلسطینی شدت پسند گروہ حماس کو مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے تک تاکہ غزہ میں صورت حال کو بگڑنے سے روکے رکھا جائے۔

عمان

عمان نے اسرائیل کے ساتھ سرکاری طور پر اپنا تعلق قائم نہیں کیا ہے لیکن اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر اپنے آپ کو خلیجی اور عرب ملکوں سے الگ تھلگ رکھا ہے اور کئی برسوں سے اسرائیل کے ساتھ قریبی اور کھلے بندوں روابط برقرار رکھے ہیں۔

اس کی واضح اور بڑی مثال سنہ 2018 میں اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کا عمان کا دورہ ہے جس کے دوران انھوں نے اس وقت ریاست کے امیر سلطان قابوس سے ملاقات بھی کی، جن کا 2020 کے جنوری میں انتقال ہو گیا۔

عمان عرب اور خیلجی ملکوں کے معاملات میں ثالثی کا کردار بھی ادا کرتا رہا ہے اور یہ ان چند عرب ملکوں میں شامل ہے جس کے ایران سے بھی تعلقات ہیں۔

سلطنتِ عمان نے تاریخی طور پر آزادانہ اور خود مختارنہ خارجہ پالیسی اپنائے رکھی ہے جس کا مقصد خطے میں اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہے۔ اس کے اس موقف کا نتیجہ اسرائیل کے ساتھ کسی امن معاہدے پر نہیں نکلنے والا۔

کویت

کویت غالباً واحد خلیجی ریاست ہے جو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل ہونے تک اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہ کرنے کی پالیسی پر آخر تک سختی سے کار بند رہے۔

کویت میں بڑی تعداد میں فلسطینی تارکین وطن اور نسبتاً زیادہ مضبوط حزب اختلاف کی موجودگی کی وجہ سے اس نے خطے میں عرب اور خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل کے بارے میں بدلتی ہوئی سوچ کے برعکس اعلان کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنے موقف پر ڈٹا رہے گا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

کویت کی خارجہ پالیسی بھی عمان کی خارجہ پالیسی کی طرح ہے اور شاید اس کو یہ پالیسی جاری رکھنے کی اجازت حاصل رہے۔

لیکن اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ اس کے خلیجی ہمسائے اور اس کا سب سے بڑا اتحادی اور طاقت ور ترین ملک امریکہ اسے اسرائیل سے کسی نہ کسی صورت میں تعلقات قائم کرنے پر بلاآخر رضا مند کر لے۔

اب اگلا ملک کون سا ہو گا؟

سعودی عرب

متحدہ عرب امارات اور بحرین سعودی عرب کے قریب ترین اتحادی ہیں۔ خاص طور پر سنہ 2017 میں ان کے تعلقات اور بھی مضبوط ہو گئے جب ان تینوں ملکوں نے مشترکہ طور پر قطر کے خلاف پابندیاں لگانے کا اعلان کیا۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کرنے کے بعد یہ قیاس آرائیاں شدت اختیار کر گئیں تھیں کہ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا اگلا ملک ہو گا۔

یہ قیاس آرائیاں اس لیے بھی کی جا رہی تھیں کہ سعودی عرب کی طرف سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اشارے دیے جا رہے تھے لیکن سعودی عرب کی طرف سے تازہ ترین پیش رفت پر کوئی واضح رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا۔

سعودی عرب نے سرکاری سطح پر اگست میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات اور بحرین کے معاہدوں پر دستخط ہونے کے ایک ہفتے بعد پہلی مرتبہ رد عمل ظاہر کیا جن اس کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ وہ عرب امن منصوبہ پر قائم ہے اور اس بنیاد پر وہ خطے میں امن قائم کرنے کے موقف پر کاربند رہے گا۔

عرب امن منصوبہ جسے سعودی عرب امن منصوبہ بھی کہا جاتا ہے، سنہ 2002 میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں منظور کیا گیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت تمام عرب لیگ میں شامل ملکوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جب تک مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل نہیں کر لیا جاتا اسرائیل سے کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے۔

اس امن منصوبہ میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کو صرف اسی صورت میں تسلیم کیا جائے گا اگر وہ ان تمام مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے جن پر اس نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد قبضہ کیا تھا اور ان علاقوں پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس قائم کرنے پر تیار نہ ہو جائے۔

دریں اثناء سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عبدالجبیر نے سعودی مالی معاونت سے چلنے والے العربیہ ٹی وی چینل کو ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم ہونے سے پہلے فلسطین کے ساتھ امن ہونا چاہیے۔

اسی طرح کا مبہم ردعمل بن فرحان نے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر اپنے پہلے سرکاری بیان میں دہرایا۔

ستمبر کی 15 تاریخ کو کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیانات میں سعودی سلطنت نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھیں گے اور عرب امن منصوبے پر عمل درآمد کروانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے لیکن ان بیانات میں اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

قبل ازیں ستمبر کی دو تاریخ کو بن فرحان نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ فلسطین کے مسئلہ پر سعودی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

یہ بات سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان چلنے والی پروازوں کو سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بعد کی گئی تھی۔

محتاط سرکاری بیانات سے قطع نظر سعودی سلطنت کے لیے پٹڑیاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ محمد بن سلمان نے ملک کے انتہائی قدامت پسند اور مذہبی معاشرے میں تبدیلیاں لانے کی کوششیں کئیں جن میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا بھی شامل تھا۔

سعودی ذرائع ابلاغ کا رویہ بھی بڑا دلچسپ رہا ہے۔ ابتدا میں بحرین کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے اعلان پر بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا گیا لیکن بعد میں جب معاہدوں پر دستخط کرنے کی تقریب منعقد ہوئی تو انہوں کے ایک متوازن لہجہ اختیار کر لیا۔

العریبہ ٹی وی چینل کا لہجہ معاہدوں کے حق میں تھا اور وہ اس بات پر زور دیتے ہوئے نظر آیا کہ ان معاہدوں سے خطے میں استحکام آئے گا۔

معاہدے ہونے سے قبل کچھ دنوں میں سعودی ذرائع ابلاغ کا لہجہ مدہم پڑا گیا لیکن اخبارات میں ان پر مثبت تبصرے شائع کیے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔

ان میں دو باتوں پر توجہ مرکوز کیے رکھی گئی۔ سعودی عرب کے ماضی میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے رکھے گئے مضبوط موقف پر بات کرتے ہوئے مبصرین فلسطینیوں کی طرف سے اس موقف کا مناسب طور پر اعتراف نہ کرنے پر شکوہ کرتے بھی نظر آئے۔

انھوں نے اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ خطے میں اصل خطرے ایران سے نمٹا جا سکے۔

تجزیہ نگار اوسامہ یمنی نے ایک سعودی اخبار میں ایک مضمون میں اسرائیل کو ایک دانشمند دشمن قرار دیا اور کہا کہ ‘ہمارے اصل دشمن آج ترکی اور ایران ہے جو مسئلہ فلسطین کے نام پر عرب علاقوں پر قابض ہیں۔‘

مراکش

متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے اگست میں اعلان کے بعد سے اسرائیل ذرائع ابلاغ اس طرح کی خبریں تواتر سے شائع کر رہے ہیں کہ مراکش سے بھی اسی قسم کے اعلان کا امکان ہے۔

ان خبروں کی بازگشت مراکش کے ذرائع ابلاغ میں بھی سنائی دینے لگیں اور مراکش میں فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والے ایک اخبار میں کہا گیا کہ مراکش بھی اسرائیل سے معاہدہ کرنے کا امیدوار ہے۔

مراکش کے حکام کی طرف سے بھی ملے جلے اشارے موصول ہو رہے ہیں جن میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے بجائے حکومت نواز میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے حکومتی موقف بیان کیا جا رہا ہے۔

اگست میں مراکش کے وزیر اعظم سعد الدین العثمانی نے ایک حکومت نواز ویب سائٹ کو انٹرویو میں اپنے ماضی کے بیانات سے پھرتے ہوئے نظر ائے جن میں انھوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں جو بیانات اسرائیل کی مخالفت میں دیے تھے وہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ کی حیثیت میں دیے تھے اور وہ سرکاری موقف کی ترجمانی نہیں کرتے تھے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایک ویب سائٹ نے نامعلوم سفارتی ذرائع کے حوالے سے خبر میں ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ مراکش اسرائیل کے ساتھ براہ راست پروازویں شروع کرنے والا ہے۔

سوڈان

اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات نہ ہونے باوجود سوڈان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں لیا جا رہا تھا جن کے بارے میں امکان تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ہیں۔

اس کی بڑی وجہ سوڈان میں بدامنی کے بعد قائم ہونے والی حکومت نے ملک کی معاشی تنہائی ختم کرنے اور بین الاقوامی مالیاتی نظام تک رسائی حاصل کرنے قرضے اور سرمایہ کاری کے حصول کی خواہش بتائی جا رہی تھی۔

لہذا اس کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں تھی کہ متحدہ عرب میں قائم عرب سکائی نیوز عربیہ ٹی وی نے 18 اگست کو سوڈان کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان حیدر بداوی الصدیق کے حوالے سے خبر دی کہ سوڈان بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدے کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

اس وجہ سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی باوجود اس امر کے سوڈان نے وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے اس بیان سے اپنے آپ کو الگ کر لیا جس کا خیر مقدم اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بھی کیا تھا۔

اس کے علاوہ خرطوم نے دوسرے دن ہی اس ترجمان کو برطرف کر دیا۔

اس واقعے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سوڈان کا دورہ کیا جس کا مقصد اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے عرب ملکوں پر دباؤ ڈالنا تھا۔

اس دورے کے دوران مائیک پومپیو سوڈان کے وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک سے بھی ملک جس میں عبداللہ ہمدوک نے امریکی وزیر خارجہ پر واضح کر دیا کہ ان کی حکومت ایک عبوری مدت کے لیے قائم ہوئی ہے اور اس کو اس نوعیت کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

سوڈان کی طرف سے اس طرح کے مبہم اشارے ملنا ایک قدرتی امر تھا کیونکہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا معاملہ بہت نازک ہے۔ سوڈان کا عمر البشیر کی حکومت کے سابقہ دور میں اسرائیل کے خلاف بڑا سخت موقف تھا اور اسے مسلمانوں کو سب سے بڑا دشمن قرار دیا جاتا تھا۔

ماضی میں امن معاہدے کرنے والے

خیلجی ملکوں میں اسرائیل کے بارے میں موقف میں تبدیلی سے کئی دہائیوں قبل چند عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان جنگوں کا نتیجہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر نکلا۔

مصر

مصر کا 1979 میں تاریخی امن معاہدہ، جو کہ کسی بھی عرب ملک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ پہلا معاہدہ تھا، اس وقت عرب دنیا کی طرف سے متفقہ طور پر رد کر دیا گیا تھا اور اس کی شدید مذمت کی گئی تھی۔

مصر کے ہمسایہ ملکوں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور عرب لیگ سے مصر کی رکنیت 1979 سے 1981 تک معطل رہی۔

باوجود اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی بھاری قیمت ادا کرنے کے مصر اس معاہدے پر قائم رہا، خاص طور پر سرکاری سطح پر اور اس ہی وجہ سے اس نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے معاہدوں کا خیر مقدم کیا۔

مصر کے صدر عبدالفتح السیسی وہ پہلے رہنما تھے جنھوں نے بحرین اور متحدہ عرب امارات کو مبارک باد دی اور ان معاہدوں کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے یہ معاہدے راہ ہموار کریں گے۔

اردن

اردن بھی ان ملکوں میں شامل ہے جو اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدہ کر چکا ہے جسے سنہ 1994 میں وادی عربہ کا معاہدہ کہا جاتا ہے۔

اسی وجہ سے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر اردن کا ردعمل اتنا گرمجوش نہیں تھا۔

شاہ عبداللہ دوئم نے خاموشی ہی اختیار کیے رکھی جبکہ ان کی وزارت خارجہ کا بیان بہت محتاط رہا۔ اردن کے رد عمل میں اسرائیل پر زور دیا گیا کہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہے کہ دو ریاستی حل کو مشکل بنا دیں۔

اردن نے 1967 کی سرحدوں میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو کے مطالبہ پر بھی زور دیا۔

وزیر خارجہ ایمن الصدفی نے کہا کہ ان معاہدوں کا نتیجہ اسرائیل کے آئندہ کے اقدامات پر منحصر ہے اور کیا اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں کو جاری رکھتا ہے۔

اردن کے لیے اسرائیل کے ساتھ امن قائم رکھنا دفاعی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے بہت اہم ہے۔

شاہ عبداللہ دوئم بار بار امریکی صدر ٹرمپ کی ‘ڈیل آف سنچری’ کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ نیتن یاہو کی طرف سے غرب اردن اور وادئ اردن کے وسیع علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اعلانات سے شاہ عبداللہ انتہائی ناراض رہے ہیں۔

جو ملک اسرائیل سے تعلقات کے خلاف ہیں

فلسطینی علاقے

قدرتی طور پر فلسطینی رہنماؤں نے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کی مذمت کی ہے اور انھیں فلسطینی کی قربانیوں سے دھوکہ قرار دیا ہے۔

فلسطینی شدت پسندوں نے غزہ کی پٹی میں اس کے خلاف مظاہرے بھی کیے۔ جس وقت واشنگٹن میں ان معاہدوں پر ستخط ہو رہے تھے اس وقت غزہ سے اسرائیل پر دو راکٹ فائر کیے گئے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی بمباری بھی کی۔

غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے 15 ستمبر کو اس تاثر کو رد کر دیا کہ ان معاہدوں سے امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔

فلسطینی اتھارٹی نے مزید کہا کہ جب تک اسرائیل اور امریکہ الگ فلسطینی ریاست اور فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کر لیتے اس وقت امن قائم نہیں ہو سکتا۔

فلسطین کے صدر محمود عباس اور ان کے سیاسی مخالف تنظیم حماس کی قیادت نے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر متفقہ موقف اختیار کرنے پر اتفاق ہو گیا۔

حماس کے سربراہ اسماعیل حانیہ نے کہا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ مسئلہ فلسطین کو پل بنا کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے جائیں اور فلسطینی عوام کے حقوق، بیت المقدس اور مقبوضہ علاقوں میں ان کی واپسی کے حق کو نظر انداز کر دیا جائے۔

ایران اور اس کے اتحادی

خطے میں اسرائیل کے دیرینہ دشمن ہونے کے ناطے ایران اور اس کے اتحادیوں کا اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کی مذمت کرنا بالکل حیران کن بات نہیں تھی۔ جبکہ کئی حکومتیں اس بارے میں بالکل خاموش تھیں۔۔

لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ اور شام کی بعث پارٹی دونوں نے ان معاہدوں کی پرزور انداز میں مذمت کی اور انھیں ‘دھوکہ’ اور مسئلہ فلسطین سے انحراف قرار دیا گیا۔

حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے ان معاہدوں کو فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے قرار دیا۔ بعث پارٹی نے ان معاہدوں کو پوری عرب قوم کے حال اور مستقل پر ایک حملہ کہا۔

یہ سب کچھ یمن میں حوثی باغیوں کی خود ساختہ حکومت کے بیان میں نظر آیا جس میں خبردار کیا گیا کہ عرب حکومتیں جو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے جا رہی ہیں وہ عرب عوام کی ترجمانی نہیں کرتیں اور انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

لبنان کے حزب اللہ نواز اخبار ‘الخبار’ نے کہا کہ بحرین کا الخلیفہ شاہی خاندان سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے کہنے پر اسرائیل سے معاہدہ کرنے کے لیے آیا تھا۔

حوثی باغیوں کے رہنما عبداللہ مالک الحوثی نے بھی کہا کہ بحرین کی طرف سے یہ فیصلہ سعودی عرب اور محتدہ عرب امارات سے قریبی تعلقات کے پیش نظر کوئی حیران کن نہیں تھا۔

یہ دونوں ملک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سنہ 2015 سے جاری یمن کی جنگ میں شامل اتحاد کے دو اہم کردار ہیں۔

شام

اسرائیل کے شدید مخالف اور دشمن اور ایران کا قریبی اتحادی ہونے کے باوجود شام میں حزب اختلاف کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اخبارات میں اس بات کو خصوصی طور پر نوٹ کیا گیا کہ دمشق اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر خاموش رہا۔

سیاسی تجزیہ ناگا حسن النجفی نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شام کی طرف سے بحرین کی حکومت کے معاہدے پر خاموشی اس وجہ سے ہے کہ وہ بحرین اور متحدہ عرب امارات کے خلاف واضح قدم نہیں لے سکتا کیونکہ شام کی حکومت کے ان ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔

بحرین اور متحدہ عرب امارات نے سنہ 2018 میں شام میں اپنے سفارت خانے کھولے اور اسی بنا پر ایک مبصر نے کہا کہ شام کے صدر بشار الاسد ان دو ملکوں کی مخالفت نہیں کریں گے کیونکہ وہ ان کے اقتدار کو طول دینے میں مدد دیتے رہے ہیں۔

Exit mobile version