امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے نئی ٹیکنالوجی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی مدد سے کمپنی سستی اور زیادہ طاقتور بیٹریاں بنانے میں کامیاب ہو گی۔
ایلون مسک کی جانب سے ’بیٹری ڈے‘ قرار دی جانے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگلے تین برسوں میں پچیس ہزار ڈالر مالیت میں ایک مکمل خودکار ٹیسلا گاڑی کی تیاری ممکن ہو پائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمیشہ سے ہمارا خواب تھا کہ ایک سستی الیکٹرک کار تیار کی جائے۔‘
لیکن اس خبر نے سرمایہ کاروں کو متاثر نہیں کیا اور حالیہ دنوں میں 50 ارب ڈالرز ٹیسلا کی سٹاک مارکیٹ قدر سے نکل گئے ہیں۔
اس تقریب کا بنیادی مقصد ٹیکنالوجی کمپنی کی جانب سے اپنی بیٹریوں میں ڈالے جانے والے بڑے سلینڈریکل سیلز متعارف کروانا تھے۔
یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ نئی بیٹریاں گاڑیوں کو پانچ گنا زیادہ انرجی، چھ گنا زیادہ طاقت فراہم کریں گی اور اس سے ڈرائیونگ فاصلے میں 16 فیصد اضافہ ہو گا۔
تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو مکمل ہونے میں ابھی چند سال کا وقت لگے گا۔
امریکی کمپنی ٹیسلا کے اس منصوبے کے تحت بیٹریوں کو کار کے اندر ہی لگا دیا جائے تاکہ یہ اس کے ڈھانچے کا حصہ ہوں لہذا اس سے بیٹریوں کے اضافی وزن سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
ایلون مسک نے یہ تقریر کمپنی کے 240 شیئر ہولڈرز کے سامنے کی جو کہ ٹیسلا کمپنی کے ’ٹیسلا ماڈل 3‘ کار پلانٹ پر ہوئی تھی۔
سستی ٹیسلا گاڑیوں کی جدت کا بنیادی جُزو یہ ہے کہ کمپنی ایسی بیٹریاں بنائے جو ان کی کام صلاحیت کو واضح طور پر بڑھا دیں۔
پروفیسر سٹین لے وٹینگھام، جنھیں گذشتہ برس کیمیا کے شعبے میں لیتیھم ان بیٹریوں پر کام کرنے پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان تمام ممکنات پر کام کرنے میں بڑا رسک موجود ہیں لیکن اس کے معاشی فوائد بھی بہت زیادہ ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم میں سے بہت سوں نے ایسے ہی ضروری اقدامات تجویز کیے تھے لیکن ٹیسلا کے پاس سرمایہ اور ایسا ممکن کرنے کی نیت ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کسی اور کمپنی کا یہ کرنے کا ارادہ ہے۔‘
ایلون مسک نے یہ بھی اعلان کیا کہ پیناسونک اور ایل جی سے بیٹریاں خریدنے کے ساتھ ساتھ ٹیسلا اپنی بیٹریاں بنانا بھی شروع کرے گا۔
گذشتہ برس اپریل میں مسک نے خود انکشاف کیا تھا کہ ان کی الیکٹرک کار ماڈل 3 میں پیناسونک کی بیٹریاں استعمال کرنے کے باعث کچھ مسائل پیدا ہوئے تھے۔
ایک ٹیکنالوجی ماہر کا کہنا تھا کہ کمپنی کی جانب سے کام میں جدت پیدا کرنے ’مشکل ہو گا۔‘
بنچ مارک منرل انٹیلیجنس ادارے میں مارکیٹ میں قیمتوں کا تعین کرنے والے شعبے کے سربراہ کاسپر رالز کا کہنا تھا کہ ’تجربہ کار کار بنانے والی کپمنیوں کے تجربے کی بنا پر ہم نے دیکھا ہے کہ کاروں کی تیاری کے ابتدائی چند برسوں میں خام مال کی تیاری کی لاگت پر بہت خرچا آتا ہے۔‘
مسٹر رالز کا کہنا تھا کہ لیتھیم آن بیٹریوں میں استعمال ہونے والا بیشتر مواد بہت قیمتی ہوتا ہے، ’آپ ایک حد تک قیمت میں کمی کر سکتے ہیں۔‘
گذشتہ ایک برس میں ہونے والی ترقی کے باعث امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا کے حصص کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور اب یہ دنیا کی سب سے امیر کار ساز کمپنی بن چکی ہے۔
یہ ترقی اس تنقید کے باوجود ہے کہ ایلون مسک کے چند ٹیکنالوجی کے منصوبوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ صارفین کی ایک گروہ کنزیومر روپورٹ نے ٹیسلا کی خودکار کاروں کے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ‘فی الحال ایک مکمل آٹومیٹک کار اب تک ایک خام خیال ہی ہے۔’
جبکہ جولائی میں ایلون مسک کا کہنا تھا کہ ٹیسلا رواں ماہ کے آخر تک اپنی کاروں کو مکمل خودکار بنا دے گی۔تاہم کاروں کی صنعت سے وابستہ افراد نے اس بیان پر بڑے شکوک و شبہات ظاہر کیے تھے۔
ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے اعلان کیا تھا کہ ان کے آٹو پائلٹ سافٹ ویئر کا بیٹا ورژن ایک ڈیڑھ ماہ‘ میں دستیاب ہو گا۔
مسک عوامی سطح پر اپنی ٹیکنالوجی کی متعارف کردہ عجیب و غریب مصنوعات کی نمائش کرنے سے گھبراتے نہیں ہیں۔ رواں ماہ ہی انھوں نے ایک خنزیر کے دماغ میں ایک سکے جتنی کمپیوٹر چپ لگا کر اسے مشین کے ذریعے کنٹرول کرنے اور اس کی ارادوں کو جاننے کے تجربہ کا مظاہرہ کیا تھا۔