25 ستمبر (1903) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا یوم پیدائش تھا اور (1979 میں) انہی تاریخوں میں لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔ وہ امریکہ کے شہر بیفلو میں اپنے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق کے ہاں علاج کی غرض سے مقیم تھے کہ 22 ستمبر کو بلاوا آ گیا اور بندہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ 22 ستمبر کی شب، پاکستان میں عشا کا وقت تھا جب یہ خبر آئی۔ اگلے دن سبھی اخبارات میں‘ سیاہ حاشیے کے ساتھ یہ ہیڈ لائن تھی۔ ایک اخبار کی سرخی تھی: ”مشرق کا آفتابِ علم و عرفان مغرب میں غروب ہو گیا‘‘۔ مولانا کے صاحبزادے حسین فاروق راوی ہیں کہ امریکہ میں ایرانی سفیر نے ڈاکٹر احمد فاروق سے رابطہ کرکے بتایا کہ امام خمینی کی ہدایت پر حکومتِ ایران مولانا کی میت لانے کے لیے خصوصی طیارہ بھجوانا چاہتی ہے، اور یہ طیارہ تہران میں رکے گا کہ امام خمینی خود نماز جنازہ کی امامت کر سکیں لیکن حکومت پاکستان کی ایما پر امام کی ذاتی خواہش کا احترام نہ کیا جا سکا۔ جامع مسجد دہلی کے امام رشید بخاری بیفلو ہی میں تھے۔ وہ سب سے پہلے ڈاکٹر احمد فاروق کے گھر پہنچے، اور نماز جنازہ کی امامت کی۔ ادھر لاہور میں یہ خبر سنتے ہی جو لوگ سب سے پہلے مولانا کے گھر (ذیلدار پارک اچھرہ) پہنچے ان میں مولانا عبدالستار خان نیازی اور جناب مجید نظامی بھی تھے۔ وہ 25 ستمبر کو مولانا کی تدفین تک روزانہ آتے رہے۔ لندن ایئرپورٹ پر بھی مولانا کے جنازے کا اہتمام تھا، الطاف گوہر ان دنوں وہیں تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور سے ان کا کہنا تھاکہ وہ جلدی چلے‘ انہیں جنازے میں شریک ہونا ہے۔ اس موقع پر دونوں میں ہونے والا مکالمہ الطاف گوہر نے اپنے تعزیتی آرٹیکل میں لکھا: ”جوان تھا؟‘‘… ”جواں فکر تھا‘‘۔ ”آپ کا عزیز تھا؟‘‘… ”عزیزِ جہاں تھا‘‘… 24 ستمبر کی شام مولانا کا جسدِ خاکی لاہور پہنچا۔ ہزارہا لوگ جناب سید کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ اِدھر اچھرہ میں تاحد نظر جم غفیر تھا۔ جنرل ضیاالحق بھی پہنچے۔ ان کا کہنا تھا: کیا نورانی چہرہ ہے؟ اور واقعی ایسا ہی تھا۔ یہ تیسرا دن تھا‘ لیکن سید کا چہرہ تروتازہ تھا، دلوں کو چھو لینے والی مسکراہٹ۔
اگلی صبح لاہور کے قذافی سٹیڈیم کا دامن تنگ پڑ گیا تھا، جتنے لوگ سٹیڈیم کے اندر تھے اتنے ہی باہر تھے۔ عالم اسلام کے جید سکالر، علامہ یوسف القرضاوی قطر سے پہنچ گئے تھے۔ نماز جنازہ کی امامت کی سعادت انہی کے حصے میں آئی۔ ضیاالحق ایک بار پھر موجود تھے۔ حسین فاروق نے مولانا پر اپنی کتاب میں لکھا کہ 5 جولائی 1977 کے فوجی اقدام کے دوسرے ہی دن جنرل ضیاالحق 5 اے ذیلدار پارک آئے۔ یونیفارم کے بجائے وہ سفید شلوار قمیص میں تھے۔ ان کے ساتھ صرف فوجی پروٹوکول تھا۔ جولائی کی حبس آلود شام تھی اور علاقے میں بجلی بند؛ چنانچہ مولانا کے دفتر میں بیٹری سے پنکھے اور لائٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ ون ٹو ون ملاقات میں کیا ہوا، یہ ریکارڈ پر نہیں؛ البتہ بعض احباب کے استفسار پر مولانا نے اتنا بتایا کہ جنرل صاحب نے کہا کہ وہ مولانا کی علمی خدمات کے مداح ہیں، مولانا کا لٹریچر بھی ان کے زیر مطالعہ رہتا ہے۔ انہوں نے 5 جولائی کی کارروائی کے اسباب بیان کئے اور کہاکہ وہ مولانا سے آئندہ لائحہ عمل کیلئے رہنمائی حاصل کرنے آئے ہیں۔ مولانا نے جواباً کیا کہا ہو گااسے مولانا کی طویل جمہوری جدوجہد پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اسی رہنمائی کیلئے1977 میں پی این اے کی تحریک کے دوران، ایک شب ذوالفقار علی بھٹو بھی 5 اے ذیلدار پارک آئے تھے۔ یہ وہ دن تھا جب لاہور جل رہا تھا۔ لکشمی چوک میں ایک سینما اور کچھ فاصلے پر پیلی بلڈنگ (جہاں پیپلز پارٹی کا دفتر تھا) بھی شعلوں کی لپیٹ میں تھے۔ مولانا کا مشورہ تھا: ایک ہی صورت ہے، عوام کے مطالبے کو تسلیم کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیں۔ خدا کے بندوں پر اور خدا کی زمین پر خدا کے نظام کا نفاذ، وہ بنیادی مقصد تھا جس کیلئے سید نے 1941ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، لیکن اس کیلئے وہ زور اور جبر کے نہیں، جمہوری ذرائع کے قائل تھے اور اس سیاسی عقیدے پر ان کا یقین اتنا پختہ تھا کہ بدترین حالات میں بھی اس میں کوئی کمزوری نہ آئی۔
نوزائیدہ مملکت کیلئے آئین کے بنیادی نکات متعین کرنے والی 12مارچ 1949 کی قراردادِ مقاصد میں کائنات کا مقتدر اعلیٰ رب کائنات کو تسلیم کرتے ہوئے، غیر مبہم الفاظ میں یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ریاست پاکستان اپنی اتھارٹی اور اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لائے گی۔ مولانا تمام عمر یہی بات کہتے اور اسی کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ 1956 کے آئین کے تحت فروری 1959 میں ملک میں پہلے عام انتخابات ہونا تھے۔ بعض عناصر کیلئے یہ تصور ہی ناقابلِ قبول تھا۔ ایسے میں کسی ماورائے اقدام کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ لاہور موچی دروازے کے جلسۂ عام میں مولانا جمہور کی حکمرانی کے اسی سبق پر زور دے رہے تھے اور اس کے ساتھ یہ انتباہ بھی کہ کوئی ماورائے اقدام ایک ہزار میل درمیانی فاصلہ رکھنے والے ملک کے دونوں حصوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) میں مغائرت کے بیج بو دے گا۔ اسی شب مارشل لاء لگ گیا اور مولانا کی یہ تقریر اگلے روز کے اخبارات میں شائع نہ ہو سکی۔ 1956 کے آئین کی منسوخی کے بعد ایوب خان نے نئے آئین کی تیاری کیلئے چیف جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں آئین کمیشن قائم کیا‘ لیکن اس کی بعض سفارشات فیلڈ مارشل کیلئے ناگواری کا باعث تھیں؛ چنانچہ 1962 کے جس آئین کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ ہوتا تھاکہ میں فیلڈ مارشل ایوب خان ملک کو یہ آئین دے رہا ہوں‘‘ ، اس میں مملکت کے نام میں ”اسلامی‘‘ موجود نہ تھا، یہ صرف جمہوریہ پاکستان تھا۔ اس میں بنیادی حقوق کا باب بھی نہیں تھا۔ سید مودودی کی زیر قیادت جماعت اسلامی نے ان دونوں نکات کیلئے بھرپور مہم چلائی؛ چنانچہ فیلڈ مارشل کو اپنے بنائے گئے آئین میں ترمیم کرنا پڑی۔
جمہوریت اور بنیادی حقوق، وہ دو نکات تھے جس کے لیے سید مودودی کو اپنے نظریاتی مخالفین سے اتحاد اور تعاون میں بھی ذرا برابر تامل نہ ہوتا۔ 1965 کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے بعض دینی حلقوں کے اس فتوے کے باوجود کہ عورت سربراہِ ریاست نہیں ہو سکتی، ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی۔ انتخابی مہم میں مولانا کی تقریرجمہوریت کے فیوض و برکات کے بیان کے ساتھ، ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ایک سنگین چارج سٹیٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔ 1968 کے اواخر میں شروع ہونے والا ملک گیر سیاسی ایجی ٹیشن بے قابو ہوا تو ایوب خان کی طلب کردہ گول میز کانفرنس میں ایوب خان کے صدارتی نظام اور 80 ہزار ارکان پر مشتمل بالواسطہ طریق انتخاب کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی پارلیمانی نظام اور حق بالغ رائے دہی‘ مولانا کی تقریر کے بنیادی نکات تھے۔ 1970 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی صرف چار نشستیں (اور وہ بھی صرف مغربی پاکستان میں) جیت سکی۔ آغا شورش کاشمیری نے مولانا کے نام خط میں لکھا، ہم کب تک اندھیروں میں چراغ جلاتے رہیں گے؟ مولانا کا جواب تھا: جب تک اندھیرے ختم نہیں ہو جاتے۔
مولانا نماز عصر کے بعد، گھر کے لان میں بیٹھتے، یہ مجلسِ عام ہوتی جس میں سیاسی مسائل پر بھی سوال، جواب ہوتے۔ ان نشستوں کی روداد ”5 اے ذیلدار پارک‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ ان نشستوں میں مولانا ہمیشہ اسلام بذریعہ جمہوریت پر زور دیتے ایک نشست میں فرمایا: ملک کے تمام مسائل اسلامی آئین سے محرومی، آمریتوں کے تسلط اور انتخابات کے نہ ہونے سے پیدا ہوئے۔ ایک اور موقع پر فرمایا: اسلام میں بادشاہت یا ڈکٹیٹرشپ کی کوئی گنجائش نہیں، جو نظام اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا قائل ہو، وہ کسی انسان کی ڈکٹیٹرشپ کا قائل نہیں ہو سکتا۔ اسلام میں سارے کام شوریٰ کے مشورے سے ہوتے ہیں۔ جبکہ ملوکیت اور ڈکٹیٹرشپ میں ایک آدمی سارے فیصلے خود کرتا ہے۔