پاکستان

نواز شریف: جماعت کا کوئی رکن آئندہ انفرادی، جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری نمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا

Share

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا کہنا ہے ان کی جماعت کا کوئی رکن آئندہ انفرادی، جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا۔

جمعرات کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’حالیہ واقعات سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح بعض ملاقاتیں سات پردوں میں چھپی رہتی اور کس طرح بعض کی تشہیر کر کے مرضی کے معنی پہنائے جاتے ہیں۔ یہ کھیل اب بند ہو جانا چاہیے۔‘

یاد رہے کہ بدھ کی رات پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپنی جماعت کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے حوالے سے دو ملاقاتیں کی تھیں۔

بعدازاں محمد زبیر نے آرمی چیف کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقاتوں کی تصدیق کی تھی مگر یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان ملاقاتوں کا مقصد نواز شریف یا مریم نواز کے لیے کسی ریلیف کے بارے میں بات کرنا نہیں تھا اور نہ ہی وہ جنرل باجوہ سے نواز شریف کے نمائندے کے طور پر ملے تھے۔

اس حوالے سے اپنا ردعمل دیتے ہوئے نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’آج میں اپنی جماعت کو ہدایات جاری کر رہا ہوں کہ آئین پاکستان کے تقاضوں اور خود مسلح افواج کو اپنے حلف کی پاسداری یاد کرانے کے لیے آئندہ ہماری جماعت کا کوئی رکن، انفرادی، جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’قومی دفاع اور آئینی تقاضوں کے لیے ضروری ہوا تو جماعتی قیادت کی منظوری کے ساتھ ایسی ہر ملاقات اعلانیہ ہو گی اور اسے خفیہ نہیں رکھا جائے گا۔‘

ٹویٹ

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا بیان

بدھ کو نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سابق گورنر محمد زبیر اگست کے آخری ہفتے اور پھر رواں ماہ کی سات تاریخ کو جنرل باجوہ سے ملے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ملاقاتیں محمد زبیر کی درخواست پر ہی ہوئی تھیں اور ان میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض بھی موجود تھے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’دونوں ملاقاتوں میں انھوں نے میاں نواز شریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ کے حوالے سے ہی بات چیت کی۔ ان ملاقاتوں میں جو بھی بات چیت ہوئی، آرمی چیف نے ان پر واضح کر دیا کہ جو بھی ان کے قانونی مسائل ہیں وہ پاکستان کی عدالتوں میں حل ہوں گے اور جو سیاسی مسائل ہیں ان کا حل پارلیمنٹ میں ہو گا، ان معاملات سے فوج کو دور رکھا جائے۔‘

میجر جنرل بابر افتخار
،تصویر کا کیپشنمیجر جنرل بابر افتخار

تاہم محمد زبیر نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی فوج کے سربراہ سے ملاقاتوں کا مقصد اپنی جماعت کی قیادت کے لیے ریلیف کے بارے میں بات کرنا نہیں تھا۔

خیال رہے کہ نواز شریف کے نمائندے کی فوج کے سربراہ سے ملاقات کی خبریں منگل کی شام سے گردش میں تھیں تاہم مریم نواز نے بدھ کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے والد کے کسی نمائندے نے جنرل باجوہ سے ملاقات نہیں کی۔

آج ٹی وی پر صحافی عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ان کے جنرل قمر جاوید باجوہ سے 40 برس پرانے تعلقات ہیں۔

محمد زبیر
،تصویر کا کیپشنمحمد زبیر سندھ کے سابق گورنر اور تحریکِ انصاف کے وفاقی وزیر اسد عمر کے بھائی ہیں

محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ان کی آرمی چیف سے پہلی ملاقات چار گھنٹے طویل تھی تاہم انھوں نے میجر جنرل بابر افتخار کے اس مؤقف کی تردید کی کہ اس ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔

سابق گورنر نے کہا کہ انھوں نے ایک مرتبہ بھی عسکری قیادت سے اپنی قیادت کے لیے ریلیف نہیں مانگا نہ انھوں نے ان کو یہ کہا کہ انھیں نواز شریف، مریم نواز یا شہباز شریف نے بھیجا ہے۔

محمد زبیر نے کہا کہ ان کی آرمی چیف سے ملاقات کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ’نہ میں اپنے لیے ریلیف لینے آیا ہوں، نہ پارٹی کے لیے ریلیف لینے آیا ہوں، نہ میاں نواز شریف کے لیے نہ مریم نواز کے لیے۔‘

محمد زبیر نے مزید کہا کہ ان کی آرمی چیف سے ملاقات کے دوران ڈیڑھ گھنٹہ معیشت پر بات ہوئی۔

انھوں نے کہا تھا کہ ڈان لیکس، پانامہ پیپرز، نااہلیوں اور مریم نواز کے خلاف کیسز بننے کے دوران انھوں نے ایک مرتبہ بھی جنرل باجوہ سے ملاقات کی درخواست کی نہ انھیں نواز شریف یا مریم نواز کی جانب سے انھیں کہا گیا کہ وہ ان سے جا کر ملیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے آج کے بیان کے حوالے سے محمد زبیر نے کہا تھا کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیوں یہ بات کہی ہے۔

’یہ طے نہیں ہوا تھا کہ یہ خفیہ ہے لیکن یہ تشہیر کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ میری طرف سے اب تک کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ میں نے کب کس سے اور کیوں ملاقات کی ہے، اس لیے مجھے معلوم نہیں کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں پڑی۔‘