اُس نے کہا کہ اِس علاقے میں ’’موٹر سائیکل رکشہ‘‘ مافیا کا راج ہے، وہ مقامی سیاسی رہنما تھا اور مجھے مختلف امور پر لیکچر دے رہا تھا۔ نہر کے ساتھ پوری سڑک پر قبضہ رہتا ہے، ٹریفک بلاک رہتی ہے اور پولیس والے بھی اُنہیں قابو نہیں کر سکتے۔ مجھے اِس کے مافیا کہنے پر حیرت تھی کہ وہ موٹر سائیکل رکشے والے جو پولیس اہلکاروں کی گالیاں اور تھپڑ کھاتے رہتے تھے، شدید گرمی، سردی، حبس اور بارش کی پروا کئے بغیر دن کے چند سو روپے کماتے ہیں، وہ بھی مافیا ہیں۔ ہماری سوچ کیا ہو گئی ہے اور ہم کس کس کو مافیا سمجھ اور کہہ رہے ہیں۔ مجھے اپنے ایک دوست سیاسی رہنما کی بات اُس وقت یاد آئی جب میں نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی ایسوسی ایشن ’پامی‘ کے نو منتخب صدر چوہدری عبدالرحمٰن کی پریس کانفرنس اخبارات میں پڑھی، اِس سے پہلے پامی کی قیادت سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم اور ڈاکٹر جاوید اصغر کر رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کس طرح پاکستان میں بہترین معیار کا ڈاکٹر پروڈیوس کر رہے ہیں، جن کی امریکہ اور یورپ میں بھرپور ڈیمانڈ ہے، یہی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے بہت کم وسائل کے باجود کورونا کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا۔ ہم اپنے مختلف پرائیویٹ اداروں کو بھی مافیا کہتے ہیں، جیسے پرائیویٹ اسکول مافیا کہ وہاں فیسیں بہت زیادہ لی جاتی ہیں تو میرے ذہن میں خیال آتا ہے کہ ہم اِس مافیا کو بہت آسانی سے شکست دے سکتے ہیں، اگر ہم اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں سے اُٹھا لیں جو فیسیں تو بہت زیادہ لیتے ہیں مگر تعلیم اور سہولتیں نہیں دیتے، اِس سے یہ مافیا خود بخود ناکام ہو جائے گا اور وہی اسکول باقی رہ جائیں گے جو کم فیس میں بہترین تعلیم دیں گے۔ ویسے حق سچ بات تو یہ ہے کہ صحت اور تعلیم کی سہولتیں ریاست کو ہی دینی چاہئیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ ریاست اپنی ماں والی ذمے داری پوری نہیں کر رہی، جو آئین کے تحت اس پر لازم ہے۔ ایسے میں اگر پرائیویٹ تعلیمی ادارے نہ ہوں تو بائیس کروڑ عوام کے بہت سارے بچے کیسے تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ وہ بتا رہے تھے کہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایک اسٹوڈنٹ پر بیس سے تیس لاکھ روپے خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ ساڑھے نو لاکھ روپے میں اسی معیار کی تعلیم دیں۔ سرکاری میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں جن اسپتالوں کے ساتھ اٹیچ ہیں، اُن کو اربوں روپے سالانہ کا بجٹ دیا جاتا ہے، جو ٹیکس پیئرز کا پیسہ ہوتا ہے اور ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ وہ ہمارے بچوں کی اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہو رہا ہے مگر جب پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو حکومت کوئی فنڈ ہی نہیں دیتی تو پھر وہ اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔
یہ ایک لمبی بحث ہے اور میں پوری طرح متذکرہ بالا دلیل سے متفق نہیں ہوں، چنانچہ میرے نزدیک حکومت ضرور ریگولیٹر کے طور پر اپنا کردار ادا کرے مگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر اُنہیں اتنا ضرور کھانے کی اجازت دے کہ وہ اپنا ادارہ برقرار رکھ سکیں۔ میں ہرگز، ہرگز تعلیم اور صحت کے اِن پرائیویٹ اداروں کی حمایت نہیں کرتا جو لوٹ مار کرتے ہیں مگر میں اِن کی وجہ سے اُن اداروں کو بھی ختم نہیں ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا جو ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ دو سے تین برسوں میں پاکستان کے صحافتی اداروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب سے اُن کے سرکاری اشتہارات پر قدغن لگائی گئی ہے اُس کے نتیجے میں بہت سارے اداروں کو اپنے مختلف اسٹیشن بند کرنا اور وہاں سے صحافیوں کو بےروزگار کرنا پڑا ہے۔ جہاں صحافی بےروزگار نہیں ہوئے، وہاں تنخواہوں میں کمی کرنا پڑی ہے۔حکومت اگر ایک اچھے ریگولیٹر کا کردار ادا کرے تو پرائیویٹ ادارے بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں جیسے سابق دور میں پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے اداروں نے دکھائی یعنی حکومت جہاں اڑھائی ہزار روپے مہینے کے لگ بھگ خرچ کرکے سرکاری اسکولوں میں ایک بچے کو تعلیم دیتی رہی وہاں پرائیویٹ ادارے پیف کے پلیٹ فارم سے، اُن سے بھی بہتر معیار اور نتائج کی تعلیم دے رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ چوہدری پرویز الٰہی کا پراجیکٹ تھا جسے شہباز شریف نے کئی گنا آگے بڑھا دیا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کو بھی مافیا کہتے ہیں، اپنے ڈاکٹروں کو بھی۔ ہمیں ہر کسی کو مافیا کہنے کی عادت کو بدلنا ہوگا۔ باہر کے ملکوں میں مافیاز وہ ہوتے ہیں جو جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور حکومتیں تک بدلنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی مافیاز ہوں گے مگر وہ غریب رکشہ ڈرائیور نہیں ہوں گے، استاد اور ڈاکٹر نہیں ہوں گے۔
اس پریس کانفرنس کے حوالے سے مزید کہ حکومت نے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ختم کرکے پاکستان میڈیکل کونسل بنا لی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ جہاں پی ایم ڈی سی میں ہیلتھ پروفیشنلز کے نمائندے باقاعدہ طور پر منتخب ہوتے تھے وہاں اب پی ایم سی میں ایوانِ وزیراعظم سے نامزگیاں ہوں گی۔ متعلقہ تنظیمیں سوال اُٹھا رہی ہیں کہ ایک ایسے ادارے کو ایوانِ وزیراعظم کے تابع کیوں کیا جا رہا ہے جس نے پروفیشنل لائسنس جاری کرنے ہیں۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کیا حکومت وکلاء کے لائسنس جاری کرنے والی بار کونسلوں کی بھی نامزدگی کر سکتی ہے۔ حکومت نے اس سے پہلے میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ایکٹ بھی منظور کیا ہے جس کے خلاف وائے ڈی اے اور پی ایم اے سمیت شعبۂ صحت کی تمام تنظیمیں تھیں۔ میں مانتا ہوں کہ ہر شعبے میں کالی بھیڑیں ہو سکتی ہیں مگر مجھے اُس وقت بہت افسوس ہوتا ہے جب ہم بطور قوم نہیں سوچتے بلکہ اپنا بلڈ پریشر ہائی کرتے ہوئے ہر اس شخص کو مافیا قرار دیتے ہیں جس سے ہمیں شکایت یا اختلاف ہوتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو حقیقی مافیا ہوتے ہیں ہم ان کا نام تک نہیں لے سکتے۔ ان کی طرف انگلی تک نہیں اٹھا سکتے۔