جب میں مسقط کے مطرہ بازار کی پرپیچ گلیوں سے گزر رہا تھا تو پورا بازار لوبان کے خوشبودار دھویں سے اٹا ہوا تھا۔ یہ بھینی بھینی خوشبو عمان کے شہروں اور ثقافت میں پھیلی ہوئی ہے اور میں بھی ہوا میں تیرتی اس نمایاں مٹی کی مہک والی خوشبو سے دور نہیں رہ سکا۔
میں دکانوں کے باہر رکھے سونے اور چاندی کے ملمع شدہ عود دانوں سے اٹھنے والی دلفریب خوشبو کی جانب کھنچا چلا گیا۔ یہ چھوٹی چھوٹی دکانیں مصالحہ جات، گوند اور کھجوروں کے ڈھیروں سے سجی ہوئی تھیں۔
اس بازار میں خواتین سیاہ عبایا پہنے رنگ برنگے ریشمی حجاب اور شالیں اوڑھے جبکہ مرد ٹخنوں تک ثوب یا لمبے سفید چوغے اور خوبصورت کڑھائی والی کوما ٹوپیاں پہنے لوبان کے ٹکڑے خرید رہے تھے۔
یہ مسقط تھا جو بائبل (انجیل) کی مکمل جادوئی اور حیرت انگیز تصاویر جیسا تھا۔
یقیناً مطرہ بازار دنیا کی ان چند جگہوں میں سے ایک ہے جہاں سے میں ایک ہی جگہ سے سونا، خوشبودار گوند اور لوبان خرید سکتا تھا، وہ تین تحائف جو پیغمبر عیسیٰ کو بچپن میں مسیحی روایت کے مطابق پیش کیے گئے تھے۔ یہ دو ہزار سال قبل قیمتی تحائف تھے کیونکہ اس وقت لوبان کی قیمت سونے کے برابر لگائی جاتی تھی۔
خوشبو اور علاج کے طور پر چھ ہزار سال سے استعمال کیا جانے والا لوبان (قدیم فرانسیسی زبان ‘فرانک اینسینس’ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ‘خالص خوشبو’) جو ایک بوسویلیا جینس کے درختوں سے کاٹا ہوا خوشبو دار گوند ہے، جو خصوصی طور پر حبس زدہ آب و ہوا والے علاقے میں اگتا ہے جو ہارن آف افریقہ (مشرقی افریقائی علاقوں) سے انڈیا اور جنوبی چین تک واقع ہے۔
دنیا میں زیادہ تر یہ صومالیہ، اریٹیریا اور یمن جیسے ممالک سے حاصل کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں شورش نے ان ممالک میں لوبان کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن پرامن عمان دنیا کا بہترین اور انتہائی مہنگا لوبان پیدا کرتا ہے جسے قدیم مصری باشندے ‘خداؤں کا پسینہ’ کہتے تھے۔
بوسویلیا سیکرا کا درخت عمان کے جنوبی صوبے ظفار کے ناسازگار علاقے میں پایا جاتا ہے۔ لوبان کے گوند کی قیمت کا تعین اس کے رنگ، اس کے سائز اور اس میں موجود تیل کی مقدار سے ہوتا ہے۔
ان میں سے سب سے قیمتی قسم کو ہوجاری کہا جاتا ہے جو ظفار پہاڑوں کی خشک اور حبس زدہ آب و ہوا میں پایا جاتا ہے اور اس کی کاشت موسم گرما میں مون سون کی آمد سے پہلے کر لی جاتی ہیں کیونکہ اس کے بعد جزیرہ نما عرب پر کہرا چھا جاتا ہے۔
آج اس خطے میں پائے جانے والے لوبان کے درخت اور چوتھی صدی قبل مسیح کے قافلوں کے بہت سے راستے اور بندرگاہیں عمان میں عالمی ثقافتی ورثہ کا حصہ ہیں۔
اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کے مطابق ’کئی صدیوں سے اس خطے میں پروان چڑھنے والی عطر اور خوشبو کی تجارت قدیم اور قرون وسطی کی دنیا کی ایک سب سے اہم تجارتی سرگرمی تھی۔‘
یہاں سے ہزاروں اونٹوں اور غلاموں پر مشتمل قافلے لوبان لے کر صحرائے عرب کے پار دو ہزار کلومیٹر طویل سفر کے لیے نکلتے تھے جن کی منزل مصر، بابل، قدیم یونان اور سلطنت روم ہوتی تھی جبکہ خوشبودار گوند سے لدے بحری جہاز چین تک سفر کرتے تھے۔ قدیم روم کے ایک عالم پلینی دی ایلڈر (23-79 AD) نے لکھا تھا کہ اس تجارت نے جنوبی عرب کے باشندوں کو ’روئے زمین پر امیر ترین لوگ‘ بنا دیا تھا۔
لوبان اپنے دور کی ایسپرین، پینسیلین اور ویاگرا بھی تھا، اس کو بواسیر سے لے کر ماہواری کی تکلیف اور میلانوما یعنی رسولی تک ہر چیز کا موثر علاج سمجھا جاتا تھا۔
یونانی فوج کے معالج پیڈینیئس ڈیوسورسائڈس نے لوبان کو ایک عجیب و غریب دوا قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چپچپی گوند ‘السر کے کھوکھلے پن کو بھر سکتی ہے’ یا ‘خونی زخموں کو ایک ساتھ جوڑ سکتی ہے۔‘
طبی علم کے بارے میں قدیم مصر کی سب سے اہم دستاویز، ایبیرز پیپیرس میں لوبان کو دیگر بیماریوں مثلاً دمہ، خون بہنے، گلے میں انفیکشن اور الٹی کا علاج قرار دیا ہے۔
مصری اسے خوشبو، کیڑے مکوڑے بھگانے اور مردوں کو دفنانے، لاشوں کے گلنے سڑنے سے اٹھنے والے تعفن کو ختم کرنے میں استعمال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر درآمد کرتے تھے۔
یہاں تک کہ جب سنہ 1922 میں بادشاہ توت عن خآمون کی قبر کشائی کی گئی تھی تو اس میں بھی لوبان سے بنا مرہم پایا گیا تھا۔.
لوبان کو قدیم دور میں پاکیزگی کی علامت کے طور پر جلایا جاتا تھا اور تصور کیا جاتا تھا کہ اس عمل سے الوہیت حاصل ہوتی ہے۔ خیال کیا جاتا تھا کہ اس کا دھواں براہ راست جنت کو جاتا ہے۔ قدیم دنیا کے بہت سے مندروں میں اسے خاص اہمیت حاصل تھی۔
میرے مقامی گائیڈ امور بن حماد الحسنی نے مجھے بتایا کہ ’ہم سانپوں کو بھگانے کے لیے لوبان کو جلاتے ہیں‘۔ میرا گائیڈ مجھے شمالی عمان کے الداخلیہ کے علاقہ میں موجود سترہویں صدی کے نجوہ قلعہ بھی لے کر گیا۔
یہ قلعہ متعدد تجارتی راستوں کے سنگم پر واقعہ ہونے کے وجہ سے خاص سٹریٹجک حیثیت کا حامل رہا ہے اور اسے ایک دور میں ‘اسلام کا موتی’ بھی کہا جاتا تھا۔
اس قلعہ کی ایک دکان میں سیلز گرل میثا الزھرا نصر الحسنی نے بتایا کہ ہم اسے جنوں اور بدروحوں کو بھگانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس دکان پر لوبان سے بنے تیل، پرفیومز اور لوشن موجود تھے۔ حماد الحسنی کے سونے کے کام والے چوغے کو بھی لبان کے عطر میں بھگویا گیا تھا۔
عمان میں قیام کے دوران میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ کس طرح لوبان آج بھی عمانی ثقافت کا لازمی جز ہے۔
نزوا شہر میں میں نے عمانیوں کو کھانے والی لوبان کے گوند کو اپنی سانسوں کو تازہ کرنے کے لیے چباتے دیکھا تھا۔
ایک دکاندار نے مجھے بتایا کہ ’حاملہ خواتین بھی اس کو چباتی ہیں کیونکہ حاملہ مائيں یہ سمجھتی ہیں کہ ’اس کی خصوصیات ذہین بچے کی پیدائش کو یقینی بنائے گی۔‘
یہ صحت مند نظام ہاضمہ اور جلد کے لیے ادویات کے طور پر اور چائے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ عمانی اس کی خوشبو کا استعمال اپنے گھروں سے مچھروں کو بھگانے کے لیے کرتے ہیں اور کھانے کے بعد بخور جلانے والے کے قریب سے گزرنا مہمان نوازی کا علامت سمجھا جاتا ہے۔ لوبان کے استعمال کو عمانی معاشرے میں احترام اور امارت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔
تریگوے ہیرس کے جنوب مشرقی ساحلی علاقے ظفار میں عطر بنانے اور لوبان کی گوند کی صفائی کی ڈسٹلری کی مالکن ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’عمانی قسم کھاتے ہیں کہ جبل سمھان یا حاسک سے حاصل کیے جانے والے سفید لبان کے ’قطرے‘ ہترین ہوتے ہیں۔ یہ سب سے خالص اور مہک والے ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میرا پسندیدہ لوبان کالا لوبان ہے جو سلالہ کے مغرب میں الفضایہ کے پہاڑوں سے آتا ہے۔ انھوں نے مجھے تانبے سے بنے پرانے مشکوں سے بھرا ایک کمرہ دکھایا جس میں وہ بڑی احتیاط سے نازک گوند سے تیل نکالتی تھیں۔
مختلف علاقوں کی مٹی، آب و ہوا اور اس کی کٹائی کے اوقات مختلف رنگوں کی گوند پیدا کرتے ہیں اور عام طور پر گوند جتنی سفید ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ قیمتی بھی ہوتی ہے۔
گرمیوں میں ہیرس لوبان کا مربع بھی بناتی ہیں جسے وہ مسقط کے بازار میں کرائے پر لیے گیے ٹھیلے پر فروخت کرتی ہیں اور مقامی افراد یہ ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں۔
ہیرس پہلی بار سنہ 2006 میں عمان آئی تھیں تاکہ وہ نیویارک میں خوشبودار تیل کی دکان کھولنے کے لیے یہاں سے سامان لے جا سکیں۔ ’لیکن عمان میں بھی مجھے صرف صومالیہ کا تیل ملا تھا نہ کہ اعلی معیار کا عمانی تیل۔ کیونکہ اس وقت اسے کوئی کشید نہیں رہا تھا۔’
وہ عمان کی سب سے بڑی پرفیوم کمپنی کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ حتی کہ اماگیو بھی نہیں۔‘ یہ کمپنی مہنگے لوبان کے عطر اور پرفیومز بنانے کے لیے مشہور ہے۔
سنہ 2011 میں وہ ظفار کے دارالحکومت صلالہ منتقل ہو گئی تھی اور انھوں نے وہاں خشبوؤں کی ایک دکان بنا لی تھی۔ آج وہ مسقط میں مقیم ہیں اور بین الاقوامی پرفیومز بنانے والے چھوٹے اداروں اور تیل خریدنے والی کمپنیوں کو اپنی اشیا بیچتی ہیں۔
وہ روزانہ دو سے تین کلو تک بوسویلیا سیکرا کا جوہر تیار کرتی ہے جس کی قیمت 555 پاؤنڈ فی کلو ہے۔
بظاہر تمام عمانی لبان بوسیلیا سیکرا کے درختوں سے کاشت کیا جاتا ہے جو ظفار کے صحرا میں جنگلی جھاڑیوں کی طرح اگتے ہیں اور ان کی ملکیت مقامی قبائل کے پاس ہے۔ اس کی کاشت ہر برس اپریل میں شروع ہوتی ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے گوند کا بہاؤ زیادہ آسانی سے ہو جاتا ہے۔
مزدور پیڑ کے تنے میں جگہ جگہ کاٹ دیتے ہیں تاکہ اس جگہ سے دودھیا رس نکل کر نیچے آئے جس طرح موم بتی سے موم نیچے آتا ہے۔ اس رس کو دس دنوں تک گوند بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب پیڑ کے تنے سے پیڑ کے ‘آنسو’ پوچھ لیے جاتے ہیں تو پھر کسان اسی جگہ پھر سے کاٹ دیتے ہیں۔ اور وہ کئی بار ایسا ہی کرتے ہیں اور جاڑے سے قبل وہ آخری فصل نکالتے ہیں جو کہ سب سے زیادہ قیمتی گوند ہوتا ہے۔
پانچ سال تک کاٹتے رہنے کے بعد اس پیڑ کو پانچ سال تک پھر نہیں چھوا جاتا ہے یعنی وہاں سے پھر رس کشید نہیں کیا جاتا ہے۔
بہر حال دور حاضر میں عمان کے نادر بوسویلیا سیکرا درختوں کو عالمی سطح پر اس کی مانگ میں اضافے سے خطرہ لاحق ہے۔ ماہر نباتات اور ‘بوسویلیا: خوشبو کے مقدس درخت’ نامی کتاب کے مصنف جوشوا اسلامہ کا کہنا ہے کہ ‘ بین الاقوامی بازار میں خوشبودار تیلوں اور کلیت والی دواؤں میں خوشبودار لوبان میں لوگوں کی تازہ دلچسپیوں نے بوسویلیا کے قدرتی زخائر پر اثرات مرتب کیے ہیں۔’
بوسویلیا سیکرا کو بین الاقوامی سطح پر تقریبا معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار پودوں کی سرخ فہرست میں شامل کیاگیا ہے جبکہ نیچر میگزن میں شائع ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیڑ اس قدر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں کہ آنے والے 20 سالوں میں لوبان کی پیداوار 50 فیصد ہی رہ جائے گی۔
ایک دوسری رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ایک پیڑ سے دس کلو گرام اوسطا خوشبودار گوند حاصل کرنے میں کافی کمی آئی ہے اور اب یہ کم ہو کر 3۔3 کلوگرام فی پیڑ رہ گیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں ظفار کے سمہان پہاڑی کے قدرتی زخائر میں بوسویلیا سیکرا کے درخت کی آبادی 85 فیصد کم ہو گئی ہے،۔
سائنسدانوں نے قحط سالی، حد سے زیادہ چراگاہ کے طور پر استعمال، کیڑوں کے حملے اور مسلح صومالی سمگلروں کی غیر قانونی کشید کو رس کی کمی کا سبب بتایا ہے۔ اور اسی سب عمان کے سطان نے حالیہ برسوں کے دوران اس وادی کی حفاظت کے لیے مسلح گارڈز تعینات کیا ہے۔
تاہم عمان کی ماحولیاتی سوسائٹی کے پروجیکٹ منیجر ڈاکٹر محسن الامری کا کہنا ہے کہ ناقابل عمل کٹائی اس پودے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
انھوں نے کہا: ‘کم تجربہ کار جزوقتی مزدور رس نکالنے کے روایتی طریقے کو نظر انداز کرتے ہوئے درختوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔’
ان کے مطابق چھوٹے اور غیر تیار پیڑ سے بھی رس نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ عالمی بازار میں مانگ میں اضافے کو پورا کرنے کے لیے تیار پیڑ سے بھی ضرورت سے زیادہ رس نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ بوسویلیا کی قلمیں کم ہی تعداد میں نوخیز پودوں اور بڑے درختوں میں بدل پاتی ہیں۔
میں عمان کے لوگوں کو لوبان کی ڈلیوں کی جانچ کرتے اور رنگ اور مقام کی بنیاد پر اس کی قیمت طے کرتے دیکھ کر کبھی ان چیزوں کو نہیں جان سکتا تھا۔
اس بازار کی پرپیچ گلیوں نےمجھے مسقط کے بندرگاہ مطرہ کورنش پرومینیڈ تک پہنچایا تھا جو کہ بحیرہ عرب کے ساحل کے ساتھ تھا۔ یہان مطرہ کی جامع مسجد کے فیروزی گنبد و مینار نمایاں تھے۔ روایتی بادبانوں والی عربی کشتی جلی ہوئی حنا کے رنگ کے پہاڑوں کے درمیان خیلج میں ایک کے بعد ایک نظر آ رہی تھی۔ موذن نمازیوں کو بلا رہے تھے اور وہاں کی فضا عمان کی مخصوص خوشبو سے معطر تھی۔