میگن جین کریب کی عمر محض پانچ برس تھی جب انھوں نے اپنے جسم سے جنگ شروع کر دی۔ سکول کے پہلے دن دوست بنانے کے بجائے وہ اپنے کلاس میں موجود دوسرے بچوں سے اپنا موازنہ کر رہی تھیں اور خود کو تسلی دے رہی تھیں کہ وہ تھوڑی ’گول مٹول‘ ہیں۔
اب انسٹاگرام پر ان کے دس لاکھ سے زيادہ فالورز ہیں اور حال ہی میں انھوں نے برطانوی پارلیمان کو بتایا کہ ’فیٹ فوبیا‘ یعنی موٹاپے سے متعلق خوف کو ایک تعصب قرار دیا جائے۔
میگن کو اپنے جسم کو اس کے حال میں تسلیم کرنے میں دو دہائیوں کا وقت لگا۔ اس عرصے میں وہ ’یو یو ڈائٹنگ` (کھانے پینے کے نظام میں تبدیلی)، وزن کم کرنے کی جدوجہد اور نفسیاتی ہسپتال میں زیر علاج رہیں۔ 21 برس کی عمر میں پہلے کالج اور پھر یونیورسٹی سے تعلیم ادھوری چھوڑنے کے بعد وہ وزن کم کرنے کے اپنے ہدف کو پورا کرچکی تھیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے بارے میں ’ہر ایک چیز سے نفرت‘ کرتی تھیں۔
26 سالہ میگن کا کہنا ہے کہ ’مجھے معلوم تھا کہ میں کتنا بھی وزن کم کرلوں گی وہ ہمیشہ ناکافی ہوگا۔‘ ان کا مزید کہنا ہے ‘میں اس زندگی سے خوش نہیں تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ زندگی میں اس سے زیادہ کچھ ہو۔ میرے کھانے پینے کے نظام نے مجھ سے بہت کچھ چھین لیا تھا۔ میں اپنا بہت وقت ضائع کرچکی تھی اور میں نے کہا بس اب اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکوں گی۔’
میگن مزید بتاتی ہیں ‘اتفاق سے انسٹاگرام پر میری نظر ایک ایسی خاتون کی تصویر پر پڑی جس نے بکینی پہنی ہوئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اپنے جسم کو جیسا ہے ویسا قبول کرو۔ وہ ڈائٹنگ نہیں کررہی تھی اور اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن تھیں۔ مجھے اس سے پہلے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔’
میگن نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ ‘ Bodyposanda’ پر اپنے جسم کے بارے میں پراعتماد ہونے سے متعلق پیغامات اور تصاویر پوسٹ کرنی شروع کردیں جس کے بعد دسیوں ہزار افراد نے ان کو فولو کرنا شروع کردیا۔
اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر وہ خود کو ‘چبی’ یا گول مٹول کہتی ہیں اور لوگوں کو تاکید کرتی ہیں کہ وہ بھی اپنے جسم کے بارے میں اسی طرح کی زبان کا استمعال کریں۔
میگن کا کہنا ہے کہ ‘موٹی’ کے لفظ میں اس قدر طاقت تھی کی وہ انھیں ہلا کررکھ دیتا تھا۔ ‘میں نے اپنی پوری زندگی موٹی کہلائے جانے کے ڈر میں گزار دی۔ حد تو یہ ہے کہ میں اس لفظ کا سامنا نہیں کرسکتی تھی۔’
ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘جب مجھے باڈی پوزیٹو مہم کے بارے میں معلوم ہوا تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں موٹاپے کو بالکل نئے طریقے سے دیکھنے لگی۔ کسی بھی لفظ کی طرح یہ بھی ایک لفظ ہے جو آپ کے جسم کے بارے میں بات کرنے کے لیے استمعال ہوتا ہے اور ہمیں اسے اپنا بنانا ہوگا۔’
میگن نے 10 سال کی عمر میں ڈائٹنگ کرنی شروع کردی تھی اور اپنے والدین کو یہ بتایا کہ وہ صحت مند رہنا چاہتی ہیں لیکن ان کے والدین کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا میگن کی یہ عادت نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔
جب وہ 14 برس کی ہوئیں تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ انھیں ‘ایٹنگ ڈس آرڈر’ یعنی ان کی غذا بے ترتیب ہے۔ اور جب وہ 20 سال کی ہوئیں تو اپنے جسم سے متعلق نفرت نے ان کے ذہن کے بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔ انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور دماغ سے متعلق بیماری ‘سیریبل پالسی’ سے متاثرہ اپنی بہن کی مستقل کرئیر یا تیمار دار بن گئیں جس کے لیے برطانوی حکومت ان کو معاوضہ دیتی تھی۔
اب وہ اپنا تعارف ایک کارکن، ماڈل، لکھاری اور خطیب کے طور پر کراتی ہیں۔ انھوں نے ابھی برطانیہ میں اپنا ٹور مکمل کیا ہے جس میں انھوں نے گلوکاری کی، رقص کیا اور ڈائٹنگ کے کلچر پر بات کی۔ ان کے اس ٹور کے مختلف مراحل میں کل ملاکر تقریباً 2000 لوگوں نے شرکت کی۔
حال ہی میں فیئرنے کاٹن نے اپنے پوڈکاسٹ ‘ ہیپی پلیس’ کے لیے میگن سے بات کی۔
براڈکاسٹر فیئرنے کاٹن نے بتایا کہ میگن سے ان کی ملاقات نے ان کے نظریے کو تبدیل کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا ‘میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ اس بات چيت نے مجھے کتنا متاثر کیا۔ میں ان کے ہر لفظ کو دھیان سے سن رہی تھی۔ یہ میرے ضمیر کو تبدیل کرنے والی باتیں تھیں۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اپنے اوپر کتنا ظلم کررہی تھی۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس بات چيت کے بعد میں ایک ہفتے کے لیے چھٹیوں پر ایک ساحل سمندر گئی۔ ویسے مجھے بکینی پہننے سے نفرت ہوتی تھی لیکن اس بار میں نے پرواہ نہیں کی۔ مجھے ایسا کرکے بہت اچھا لگا۔’
میگن برطانیہ کے علاقے کولچیسٹر میں رہتی ہیں۔ حال ہی میں انھیں حکومت کے برابری کے دفتر یعنی ‘ایکوئلیٹی آفس’ نے ‘ باڈی ایمج’ کے موضوع پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا تھا جہاں میگن نے ‘موٹاپے سے متعلق خوف’ کے بارے میں سوال اٹھایا اور کہا کہ اسے ایک ‘تعصب’ قرار دیا جانا چاہیے۔
میگن کو بعض اوقعات وہ لوگ آن لائن پلیٹ فارمز پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ موٹاپے کی تصاویر ایک غیرصحت مند طرز زندگی کو فروغ دیتی ہیں۔
میگن کا خیال ہے کہ صحت سے متعلق بات چیت کا محور صرف وزن نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی ایم آئی یا ماس باڈی انڈیکس چارٹ اور بچوں کا سکولوں میں وزن کرنا بند کیا جانا چاہیے کیونکہ ‘یہ خوف ناک اور شرمندہ کرنے’ والی بات ہے۔
انھوں نے کہا: ‘میں یہ توقع نہیں کرتی کہ لوگ اپنے جسم سے محبت کریں گے لیکن میرا ہدف یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کا احترام کریں وہ اسے اس کے حال میں قبول کریں۔
‘میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے جس عمر میں بھی صحیح لیکن ‘باڈی پوزیٹو’ یا جسم کو مثبت تسلیم کرنے سے متعلق مہم کی آگاہی تو حاصل ہوئی۔ مجھے ایسی بہت سی عمردراز خواتین پیغامات بھیجتی ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی اپنے جسم سے نفرت کرنے میں نکال دی اور اب جاکر اپنے جسم کو اس کے حال میں قبول کرنا سیکھا ہے۔’
میگن کا خيال ہے کہ لوگ انھیں ‘انفلوئنسر’ یا بااثر قرار دیتے ہیں لیکن وہ اس تعارف سے خوش نہیں ہوتی کیونکہ ان کہ کہنا ہے ‘بعض لوگ اپنے فائدے کے لیے ایسا کرتے ہیں’۔ وہ ڈائٹنگ کے رواج کے بارے میں سوال اٹھانا چاہتی ہیں تاکہ لوگ گمراہ نہ ہوں اور چاہتی ہیں کہ لوگ ایسی زندگیاں بسر کریں جس میں صرف جسم کا اچھا نظر آنا سب سے اہم بات نہ ہو۔
میگن اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے لیے اپنے جسم کے بارے میں پراعتماد ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
پانچ برس کی عمر میں انھیں لگتا تھا کہ ‘میرے بارے میں سب سے خراب بات یہ ہے کہ میں موٹی ہوں۔ میں نے بہت کم عمر میں یہ بات اپنے ذہن میں بٹھالی تھی۔ اب میں اس سوچ سے بہت آگے نکل چکی ہوں ۔ میں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ خود سے نفرت کرنے میں گزار دیا، میں نہیں چاہتی کہ اور لوگ بھی میری طرح سوچیں۔’