بات پھر شہبازشریف کی مفاہمتی سیاست اور ” اداروں‘‘ سے رابطوں پر آگئی تھی۔ شہباز صاحب کا کہنا تھا‘ یہ رابطے دو‘ اڑھائی سال سے نہیں‘ بیس پچیس سال سے ہیں ‘ جب میں نے عملی سیاست میں قدم رکھا تھا۔ ہفتے کی سہ پہر یہ مسلم لیگ(ن) کے ہیڈ آفس (180-Hماڈل ٹائون ) میں سینئر میڈیا پرسنز سے ملاقات تھی‘ جس میں احسن اقبال‘ خواجہ آصف‘ رانا ثنا اللہ ‘ ایاز صادق ‘خواجہ سعد رفیق‘ خرم دستگیر‘ امیر مقام‘ رانا تنویر‘ مریم اورنگ زیب ‘ رانا مشہود اور عظمیٰ بخاری بھی موجود تھے۔
اداروں سے رابطوں کے حوالے سے شہباز صاحب کا رویہ کبھی معذرت خواہانہ نہیں رہا‘ اس حوالے سے ان کی اپنی منطق اور اپنا استدلال ہے۔چودہ پندرہ سال پہلے‘ میاں نوازشریف پرسہیل وڑائچ کی کتاب ”غدار کون؟‘‘میں شہباز صاحب کا طویل انٹرویو بھی تھا۔ ” رابطوں‘‘ کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا جواب تھا: ملکی سیاست میں”ان‘‘ کا ‘کبھی براہِ راست اور کبھی پسِ پردہ‘ کردار ایک ”اوپن سیکرٹ‘‘ ہے۔ میری سوچ تھی اور اب بھی ہے کہ اس ادارے کے ساتھ ایسی کوآرڈی نیشن ہونی چاہیے جو قومی مفاد کے لیے بہتر ہو۔ اس سلسلے میں‘ میں نے وزیر اعظم نوازشریف اور پرویز مشرف کے درمیان ایک ”پل‘‘ کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی‘‘۔ 12اکتوبر 1999ء کے ٹیک اوور کے حوالے سے شہباز صاحب کا کہنا تھا‘ کارگل کا واقعہ ہوچکا تھا ‘ ملک کی فضا خراب ہورہی تھی۔ ادھر اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کی کوشش تھی کہ فوج اور حکومت میں تصادم ہوجائے اور مارشل لاء آجائے۔ ایسے حالات میں ضروری تھا کہ باہم رابطہ ہو‘ تب بھی میں نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ پرویز مشرف کی برطرفی کا دفاع کرتے ہوئے شہباز شریف اسے وزیر اعظم کا آئینی حق قرار دیتے ہیں۔
ہفتے کی سہ پہر اس میٹنگ میں بھی شہباز شریف 20ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس میں نوازشریف کی تقریر کا دفاع کررہے تھے:اس میں تصادم کی بات کیا تھی؟ نوازشریف یہی تو کہہ رہے تھے کہ سب لوگ‘ سب ادارے اپنی اپنی آ ئینی حدود میں رہیں۔شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست اور رابطوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں وہ ایک اہم سوال بھی اٹھاتے ہیں‘ مفاہمت کی اس پالیسی میں میرا ذاتی فائدہ کیا تھا؟ سوال معقول تھا‘ مفاہمت کی اس پالیسی کے باوجود‘شریف فیملی پر آنے والی آزمائشوں میں‘ انہوں نے اپنے حصے کی ہرآزمائش کا بڑی ہمت سے سامنا کیا۔12اکتوبر کو پرویز مشرف کی برطرفی کا فیصلہ ‘ وزیر اعظم نوازشریف کا اپنا فیصلہ تھا۔وہ12اکتوبر کی سہ پہر شجاع آباد کا جلسہ مختصر کرکے واپس پرائم منسٹر ہائوس پہنچے‘ تو انہیں بتایا گیا کہ شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں ملاقات کے منتظر ہیں‘ جس پر وزیر اعظم کا جواب تھا‘ فی الحال وہ کسی سے نہیں ملیں گے۔ پرویز مشرف کی برطرفی ‘ باقی دنیا کی طرح شہباز شریف کے لیے بھی ایک ”خبر ‘‘تھی لیکن اس شام نوازشریف کے ساتھ شہباز شریف بھی گرفتار کرلئے گئے۔ پرائم منسٹر ہائوس سے دونوں کو ایک ہی گاڑی میں لے جایا گیا اور اس کے بعد الگ الگ نظر بند کردیا گیا۔ مری میں حراست کے دوران بھی وہ ایک دوسرے سے بے خبر تھے (اسی شام حسین نواز بھی گرفتار کرلئے گئے) ۔
کراچی میں طیارہ ہائی جیکنگ کیس کی خصوصی عدالت میں‘ ہفتوں بعد دونوں بھائیوں کی ملاقات ہوئی تو شہباز صاحب نے بڑے بھائی سے گلہ کیا‘ آپ نے اتنے بڑے فیصلے کا مجھے بتایا تک نہ تھا‘ جس پر میاں صاحب نے کہا‘ مجھے پتہ تھا کہ تم اس کی مخالفت کروگے۔ شہباز شریف اس سارے معاملے سے بے خبر تھے ‘اس کے باوجود اس مقدمے میں دھر لئے گئے(دیگر ملزمان میں شاہد خاقان عباسی‘ سیف الرحمن ‘ غوث علی شاہ‘ سعید مہدی اور رانا مقبول شامل تھے۔ خصوصی عدالت کے جج رحمت حسین جعفری نوازشریف کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے باقی سب کو بری کردیا۔ میاں صاحب اٹک قلعے منتقل کردیئے گئے‘ جہاں انہیں ایک اور مقدمے (ہیلی کاپٹر کیس )کا سامنا تھا۔ خصوصی عدالت قلعے میں ہی لگی تھی۔ طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں بری ہونے والے ملزمان‘ کراچی کی لانڈھی جیل ہی میں رہے۔ ان کے خلاف کچھ اور مقدمات قائم کردیے گئے تھے۔
جلا وطنی کے لیے جدہ روانگی کا فیصلہ ہوا تو شہباز شریف نے جانے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وطن ہی میں رہیں گے اور اپنے خلاف تمام مقدمات کا سامنا کریں گے‘ لیکن پرویز مشرف کا اصرار تھا کہ ساری فیملی جلا وطن ہوگی‘ صرف 26سالہ حمزہ کو یرغمال کے طور پر پاکستان میں رکھا گیا شہباز شریف ‘ بے نظیر صاحبہ کے( دوسرے) دور میں بھی اڈیالہ جیل میں تقریباً 6ماہ گزار آئے تھے۔ جلا وطنی کے دوران کینسر کے علاج کے لیے وہ جدہ سے امریکہ چلے گئے۔ وہاں سے لندن آئے اور لندن سے لاہور کا رخ کیا۔ تب مشرف اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ پنجاب میں چودھریوں کی حکومت تھی۔ شہبازشریف 11جون2004ء کو لاہورایئر پورٹ پر اترے اوریہیں سے خصوصی طیارے میں جدہ بھجوا دیے گئے۔ (10ستمبر2007ء کو یہی سلوک نوازشریف کے ساتھ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہوا) شہباز شریف تبدیلی کے موجودہ عہد میں نیب کے مقدمے میں 70دن جیل میں کاٹ آئے تھے۔ سوموار کی دوپہر جب یہ سطور قلم بند کی جارہی تھیں‘لاہور ہائی کورٹ میں ‘ منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں عبوری ضمانت (قبل از گرفتاری) میں توسیع نہ ہونے کے باعث وہ پھر زیرِ حراست تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان انہیں ہر قیمت پر جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جیل ان کے لیے نئی نہیں۔ وہ پوری ہمت اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کریں گے۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ سے باہر میڈیا سے گفتگو میں مریم نوازکا کہنا تھا: شہبازشریف بہت وفادار بھائی ہیں‘ نوازشریف اور شہبازشریف ایک تھے‘ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ انہیں توڑنے کے خواب دیکھنے والے خود ٹوٹ جائیں گے۔ شہبازشریف کی سالگرہ پر اپنے چچا کے لیے احترام اور محبت سے لبریز ٹویٹ میں مریم کا کہنا تھا: بدترین ذاتی اور سیاسی انتقام کے باوجود بھائی سے بے لچک وفاداری کی مثال قائم کرنے والے کو مبارک … شہباز صاحب کا جوابی ٹویٹ بھی محبت اور شفقت سے معمور تھا: گڑیا بیٹی اللہ آپ کو سلامت رکھے۔
ہفتے کی گفتگو میں شہباز شریف نے ایک اور پتے کی بات بھی کہی: ایک کیا ‘ ہزاروں آرٹیکل 6بھی کسی ”ماورائے آئین اقدام‘‘ کا راستہ نہیں روک سکتے۔ عوام کی خدمت کے ذریعے ہی اس کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے سیاستدانوں میں ”میثاق جمہوریت‘‘ کے جذبے کو فروغ دینے کی بات بھی کی۔لیکن قوم کے دیرینہ مرض کا یہ نصف نسخہ تھا‘ باقی آدھے نسخے میں سیاسی جماعتوں کی گراس روٹ لیول تک تنظیم بھی شامل ہے۔ 15جولائی 2016ء کو صدر اردوان کے خلاف بغاوت کی ناکامی میں ان کی عوامی مقبولیت کے ساتھ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی گلی اور محلے کی سطح تک تنظیم نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
سید مودودیؒ پر گزشتہ کالم کی ملک کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر پذیرائی ہوئی۔ بے شمار احباب نے اسے شیئر کیا۔قاری صاحب سے ہمارا تعارف برسوں پہلے جدہ میں ہوا تھا۔ قاری زاہد نے لکھا: میں ان دنوں جامعہ اشرفیہ لاہور میں طالب علم تھا۔مولانا کی میت گھر کے صحن میں رکھی تھی۔ آخری دیدار کے لیے میں بھی طویل قطار میں کھڑا ہوگیا۔ کوئی ایک گھنٹہ بعد باری آئی۔ تین روز گزر جانے کے باوجود جنابِ سید کاچہرہ کھلا ہوا تھا‘ جیسے سکون کی نیند سورہے ہوں۔ رخساروں پر بڑھاپے کی کوئی شکن نہ تھی۔ اگلے روز قذافی سٹیڈیم میں نماز جنازہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ جامعہ اشرفیہ نے جنازے میں اساتذہ اور طلبہ کی شرکت کے لیے تعطیل کا اعلان کردیا تھا۔