‘میں اسلام آباد میں اپنی الیکٹرک گاڑی چلا کر کافی مطمئن ہوں لیکن ایک مسئلہ ہے۔ میں اس میں لاہور نہیں جاسکتا۔’
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت سے تعلق رکھنے والے بزنس مین خرم اعجاز شاید پاکستان کے ان چند افراد میں سے ایک ہوں گے قریب ڈیڑھ کروڑ روپے کی آؤڈی ای ٹرول الیکٹرک کار خریدنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
وہ دو ماہ سے یہ جدید گاڑی روز گھر سے دفتر جانے اور واپس آنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بی بی سی نے ان سے جاننا چاہا ہے کہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑی چلانے کا ان کا اب تک کا تجربہ کیسا رہا ہے۔
خرم اپنی ’ماحول دوست‘ لگژی کار سے تو مطمئن ہیں اور اس کے فیچرز سے کافی متاثر بھی ہیں جن کا مقابلہ مقامی گاڑیوں سے ہرگز ممکن نہیں۔ ‘لیکن بات صرف گاڑی کی نہیں ہوتی۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ایک خاص انفراسٹرکچر بھی درکار ہوتا ہے۔’
پاکستان میں موٹر سائیکل اور رکشوں کی حد تک تو نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی منظور ہوچکی ہے اور اس پر عملدرآمد کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ تاہم جب بات چار پہیوں والی گاڑیوں کی ہوتی ہے تو معملات سست روی کا شکار ہیں۔
حکومتی حوصلہ افزائی کے بعد الیکٹرک کار خریدنے والے ابتدائی صارفین انھیں ملک میں درآمد کرنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرچکے ہیں۔ لیکن ان گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے اداروں میں واضح ہدایات موجود نہیں اور ملک میں چارجنگ سٹیشنز کی قلت موجود ہے۔
الیکٹرک کارساز کمپنیوں کی ایک ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کی موجودہ کمپنیاں (بِگ تھری) الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات کے خلاف دباؤ ڈال رہی ہیں۔ تاہم وزارت صنعت و پیداوار کے ترجمان نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پالیسی پر کام جاری ہے اور رواں سال اسے تمام سٹیک ہولڈرز کی تجاویز کے ساتھ تیار کیا جاسکتا ہے۔
الیکٹرک کار خریدنے کے لیے کیا یہ وقت ٹھیک ہے؟
ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کو روزمرہ استعمال کرنے والے چند ابتدائی افراد کو اس وقت کئی مشکلات کا سامنا ہے مگر بظاہر وہ اپنے تجربے کو مثبت قرار دیتے ہیں۔
ان میں سے ایک مسئلہ رجسٹریشن کا ہے۔ عام حالات میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے ایکسائز کے دفتر جانا ہوتا ہے۔ کار کے انجن کے مطابق سالانہ یا تاحیات ٹوکن اور نمبر پلیٹ سمیت مختلف ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہ گاڑی رجسٹر ہوجاتی ہے اور اسے باآسانی ملک بھر کی سڑکوں پر دوڑایا جاسکتا ہے۔
لیکن فی الحال الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان اس حوالے سے اضطراب کا شکار ہیں۔ اگر کوئی اپنی نئی الیکٹرک گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے ایکسائز کے دفتر جاتا ہے تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ گاڑی کتنے سی سی ہے، یعنی اس کا انجن کتنی قوت پیدا کرتا ہے۔ جبکہ الیکٹرک گاڑیوں میں انجن یا موونگ پارٹس نہیں ہوتے۔ ان کی قوت یا ہارس پاور کا تعین بیٹری کے سائز اور مختلف پہلوؤں کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔
ان مالکان کا دعویٰ ہے کہ ایکسائز کے پاس الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن سے متعلق واضح ہدایات موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہر فرد سے مختلف رقم وصول کی جا رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مراعات اور سہولیات ملنے کے بجائے ان سے زیادہ پیسے وصول کیے جا رہے ہیں جس سے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے اخراجات کسی عام گاڑی سے بھی زیادہ بن جاتے ہیں اور یہ عام آدمی کی پہنچ سے کافی دور ہوجاتی ہیں۔
عالمی سطح پر الیکٹرک گاڑی خریدنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ سمیت مختلف مراعات دی جاتی ہیں، جیسے ٹوکن ٹیکس، سیلز ٹیکس یا کسٹم ٹیوٹی میں کمی۔ اس کے علاوہ موٹر وے پر ان گاڑیوں سے کم پیسے لیے جاتے ہیں، اور پارکنگ میں چارجنگ کی سہولت دی جاتی ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز کی عدم موجودگی ہے۔ گذشتہ عرصے میں اسلام آباد کے ایف سیون پی ایس یو پٹرول پمپ پر چارجنگ سٹیشن لگایا گیا اور لاہور میں بھی چند مقامات پر چارجنگ سٹیشنز موجود ہیں۔
رجسٹریشن میں مشکلات اور چارجنگ پوائنٹس نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں پر طویل سفر خاصا مشکل ثابت ہوسکتا ہے اور انھیں شہر میں عام گاڑیوں کی طرح بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
الیکٹرک گاڑیوں کے ابتدائی صارفین کا تجربہ کیسا رہا؟
مجموعی طور پر خرم کا تجربہ اچھا رہا ہے۔ لیکن وہ ملک میں چارجنگ سٹیشنز کی کمی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ‘میں نے اگر اپنی الیکٹرک گاڑی پر شہر سے باہر یعنی اسلام آباد سے لاہور، پشاور یا ایبٹ آباد جانا ہے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ راستے میں چارجنگ پوائنٹس موجود نہیں ہیں۔’
اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ ‘جب ہم نے یہ گاڑی لی تھی تو حکومت نے ہم سے ٹیکس میں چھوٹ سمیت کئی وعدے کیے تھے۔ تاحال ڈیوٹی کم ہے لیکن سیلز ٹیکس اور رجسٹریشن پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے رجسٹریشن کے حوالے سے واضح ہدایات موجود نہیں ہیں اور خیال ہے کہ گاڑیوں کے لیے الیکٹرک وہیکل پالیسی آنے کے بعد ہی فریمورک تشکیل ہوسکے گا۔ یہ پالیسی اعلانات کے باوجود تاخیر کا شکار ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘جب میں پہلی بار یہ گاڑی خریدنے کے بعد اسے رجسٹریشن کے لیے ایکسائز کے دفتر لے کر گیا تو انھوں نے پوچھا یہ کتنے سی سی ہے۔ جبکہ اس کی ہارس پاور کے ڈبلیو میں دیکھی جاتی ہے۔
‘وہاں اس کے اوپر ٹیکس کا مسئلہ بنا۔ کچھ لوگوں نے دو فیصد ٹیکس اور تمام رجسٹریشن چارجز ادا کیے ہیں لیکن اب وہ چار فیصد مانگ رہے ہیں۔’
خرم نے یہ کار آٹھ لاکھ روپے میں رجسٹر کروائی ہے جو کہ یقیناً اس کام کے لیے ایک غیر معمولی رقم ہے۔ یاد رہے کہ وزارت موسمیات نے الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس معاف کرنے کی تجویز دی تھی کیونکہ انھیں ماحول دوست سمجھا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ’جب تک پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ایکوسسٹم (باقاعدہ نظام) قائم نہیں ہوگا اور انھیں خریدنے پر مراعات نہیں ملیں گے تب تک لوگ انھیں اپنانے سے ہچکچائیں گے۔‘
اس گاڑی کی خوبیوں سے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ اس میں انجن نہ ہونے کی وجہ سے شور یا ہوا کی آلودگی پیدا نہیں ہوتے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ ایسی نہیں جیسے آپ اپنا موبائل فون چارج کرتے ہیں۔ خرم کے پاس گھر پر چارجنگ کی سہولت موجود ہیں جس سے پانچ گھنٹے میں یا اوور نائٹ چارجنگ ہوجاتی ہے لیکن اس سے کافی بجلی خرچ ہوتی ہے۔
دوسری طرف اگر وہ اسے اسلام آباد میں ایف سیون میں موجود چارجنگ سٹیشن پر چارج کرتے ہیں تو اس میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے اور فی الحال یہ مفت ہے۔
ایک مرتبہ چارجنگ پر ان کی آؤڈی ای ٹرون قریب 250 کلو میٹر دور تک چل سکتی ہے۔ اس صنعت سے منسلک افراد کے مطابق ان گاڑیوں کے چارجر لاکھوں روپے کے ہیں۔ شاید کروڑوں روپے کی کار خریدنے والے اپنے لیے لاکھوں روپے کا چارجر بھی خرید سکتے ہیں لیکن چارجنگ انفراسٹرکچر کے بغیر ان گاڑیوں کو عام بنانا کافی مشکل ہوسکتا ہے۔
ای وی پالیسی کے خلاف لابی ہورہی ہے؟
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنوں کی ایک ایسوسی ایشن کے رکن شوکت قریشی کا دعویٰ ہے کہ بِگ تھری یعنی بڑی کار ساز کمپنیوں (جن میں ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی شامل ہیں) نے پاکستانی اداروں خصوصاً وزارت صنعت و پیداوار پر دباؤ ڈال کر الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی میں تاخیر پیدا کی ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بگ تھری پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ لیکن وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
وزارتِ صنعت و پیداوار کے ماتحت ادارے انجینیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز نے بھی اس تاثر کو رد کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس پالیسی میں وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ بھی کئی ادارے شامل ہیں جنھوں نے اپنے خدشات ظاہر کیے اور وہ یہ پالیسی تمام سٹیک ہولڈرز کی خواہشات کے احترام کے ساتھ تشکیل دینا چاہتے تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس پالیسی پر کام جاری ہے اور رواں سال اکتوبر میں مسودہ تیار کر لیا جائے گا۔ آٹو پالیسی کی میعاد 2021 میں ختم ہو رہی ہے، اس کے باوجود الیکٹرک وہیکل پالیسی اس سے الگ تشکیل دی جا رہی ہے۔
گذشتہ سال کے دوران وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے مجوزہ الیکٹرک وہیکل پالیسی میں رجسٹریشن فیس، ٹوکن ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں رعایت اور چارجنگ سٹیشنز کے انفراسٹرکچر کے قیام کے لیے تجاویز پیش کی گئی تھیں۔
کابینہ میں منظور یہ پالیسی، جسے مختلف وزارتوں کے اعتراضات کی بنا پر فنانس بِل کا حصہ نہ بنایا جاسکا، میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2030 تک ملک کی 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی۔
عاصم ایاز کہتے ہیں کہ اس پالیسی پر بعض سٹیک ہولڈرز نے اٹھائے تھے۔ ‘جیسے استعمال شدہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات ‘میک اِن پاکستان’ کے ویژن کے خلاف ہے۔ یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ ملک میں گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں کی موجودہ صنعت کو نہ چھیڑا جائے اور محض ای وی پارٹس (جیسے بیٹری، موٹر اور کنٹرولر) کی درآمد پر مراعات دی جائیں۔’
ان کے مطابق وزارت صنعت و پیداوار نے یہ تجویز دی تھی کہ کمپنیوں کے بیچ مقابلے کو فروغ دینے کے لیے گاڑیوں سے متعلق درآمدات پر حد مقرر نہ کی جائیں۔ پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کی محدود تعداد کو درآمد کرنے کی تجویز دی گئی تھی جو محض کچھ کمپنیوں کے مفاد میں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے ادارے نے تمام گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں کمی کی تجویز دی تھی تاکہ ملک میں کارساز صنعت کو فروغ دیا جائے اور موجودہ انفراسٹرکچر الیکٹرک گاڑیوں کے آنے سے منفی طور پر متاثر نہ ہو۔
‘الیکٹرک وہیکل پالیسی میں ہائبرڈ گاڑیوں کو بھی شامل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔’
تاخیر کا شکار پالیسی میں کیا زیرِ غور؟
الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق پالیسی پر اب تک اداروں میں کن باتوں پر اتفاق ہوا ہے، اس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ‘تمام ادارے متفق ہیں کہ یہ نئی گاڑیاں سستی ہوں اور ماحولیاتی تبدیلی روکنے میں مددگار ثابت ہونے کے ساتھ عام آدمی کی پہنچ میں ہوں۔
‘ہم چاہتے ہیں کہ گاڑیاں درآمد بھی ہوں لیکن مقامی سطح پر بھی تیار ہوسکیں۔’
وہ کہتے ہیں کہ ایک تجویز یہ بھی دی گئی تھی کہ پُرانی گاڑیوں کو مرحلہ وار نظام سے نکالا جائے کیونکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ‘پُرانی گاڑیوں کے مالکان کو مراعات ملنی چاہییں کیونکہ مارکیٹ میں سکریپ کی بھی قدر ہوتی ہے۔’
الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق پالیسی میں ‘سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں مراعات، مفت رجسٹریشن اور ٹول ٹیکس میں 50 فیصد چھوٹ’ زیر بحث ہیں جبکہ ان کے مطابق ای وی انفراسٹرکچر کے قیام کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چارجنگ سٹیشنز بنانے کے لیے درآمدات پر صفر سے ایک فیصد ڈیوٹی اور ٹیکس میں چھوٹ کی تجاویز دی گئی ہیں۔
پالیسی میں تاخیر پر ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان مراحل میں کئی وزارتیں اور محکمے شامل ہیں، اس لیے وہ اپنے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کو مراعات دینے کی کوششیں کر رہے ہیں جس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
‘یہ شعبہ ڈیمانڈ (طلب) پر چلتا ہے۔ اگر کاروباری اعتبار سے لوگ اس میں منافع دیکھیں گے تو نجی کمپنیاں اس میں سرمایہ کاری کریں گی۔’
جب ہم نے ان سے پوچھا کہ پاکستان نے باقی دنیا کے مقابلے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے کس نوعیت کے اقدامات پر غور کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ: ‘عالمی سطح پر الیکٹرک گاڑیاں خریدنے پر سبسڈی دی گئی ہے۔ لیکن پاکستان میں حکومتی وسائل کی کمی کی وجہ سے سبسڈی کی جگہ سہولیات اور کاروباری ماڈل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
‘لیکن حکومت نے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں لانے کے لیے سنجیدگی دکھائی ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں پر ٹیکس زیادہ ہے اس کے باوجود الیکٹرک گاڑیاں خریدنے پر ٹیکس میں چھوٹ اور کارساز کمپنیوں کے لیے مراعات زیر غور ہیں۔’