Site icon DUNYA PAKISTAN

پی آئی اے کی سعودی عرب کے لیے اضافی پروازیں: مسافروں کا الزام کہ پی آئی اے کے ٹکٹ بلیک ہو رہے ہیں

Share

صوبہ خیبرپختونخوا کے رہائشی ش خان پندرہ روز تک پشاور میں پاکستان ایئرلائن کے چکر لگانے کے بعد بالاخر کئی گنا مہنگا ٹکٹ خرید کر سعودی عرب کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔ ان کے ویزے کی معیاد 30 ستمبر کو ختم ہو رہی تھی اور مہنگا ٹکٹ خریدنا ان کی مجبوری تھی۔

کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے بعد سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی شہری اپنے وطن واپس آگئے تھے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا اندازہ ہے کہ صرف سعودی عرب سے 60 ہزار سے زیادہ پاکستانی اپنے ملک واپس آئے تھے۔

سعودی حکومت نے وبا کے باعث بیرون ملک سے آنے والی پروازیں معطل کت تھیں اور 15 ستمبر سے پاکستان سے آنے والی پروازوں پر سے پابندی ہٹا دی تھی۔

خیبرختونخوا کے رہائشی فیصل خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے تین بھائی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں، جنوری میں ایک بھائی پاکستان آگیا تھا اور جولائی میں اس کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی تھی جس کے بعد سعودی حکومت نے اس میں تین ماہ کی توسیع کی تھی جو اب 30 ستمبر کو ختم ہو رہی تھی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’میں 14 ستمبر سے پی آئی اے کے دفتر کا چکر لگاتا رہا، وہ نہ درست رویے سے بات کرتے ہیں نہ ٹکٹ دیتے ہیں، ہمارا رٹرن ٹکٹ تھا، 2000 ڈالرز لیے تھے کہ انہیں ایڈجسٹ کیا جائے گا لیکن انہیں بھی ایڈجسٹ نہیں کیا گیا، پچاس ہزار روپے اتحاد ایئر لائن کی بکنگ میں پھنس گئے، مجبوری میں ہم نے باہر ایجنٹ سے بلیک میں ایک لاکھ ستر ہزار کا ٹکٹ خرید لیا کیونکہ ہم ویزا ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے‘۔

فیصل خان سے جب ٹیلیفون پر بات ہوئی تو وہ پشاور اسلام آباد موٹر وے پر تھے اور ان کے بھائی کی فلائٹ تھی جس کے لیے وہ ائرپورٹ جا رہے تھے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ایجنٹوں اور پی آئی اے کی ملی بھگت‘ سے ٹکٹ مہنگے فروخت کیے جا رہے ہیں اور یہ کہ کورونا میں لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

پاکستان کی قومی ایئرلائن کی جانب سے کراچی لاہور، اسلام آباد ، پشاور اور سیالکوٹ ایئرپورٹس سے پروازیں چلائی جا رہی ہیں، مسافروں کی تعداد میں اضافے کے باعث 21 خصوصی پروازیں بھی چلائی گئی ہیں۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد واپس جانا چاہتی ہے جن کے اقامے 30 ستمبر کو ختم ہو رہے ہیں، ان کے علاوہ جن کی معیاد اکتوبر تک ہے وہ بھی واپس جانا چاہتے ہیں کہ آگے معلوم نہیں نشست ملے نہ ملے اسی وجہ سے افراتفری کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

’15 ستمبر سے اچانک پروازیں کھول دی گئیں، پی آئی اے کی جو معمول کی پروازیں تھیں ان کے ساتھ اضافی پروازیں شامل کی گئیں، لوگ بہت زیادہ ہیں، نشتسیں کم ہیں۔ ہم نے نشستوں کو پی آئی اے دفاتر اور ایجنٹوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا ہے، لیکن بعض ایجنٹوں نے کچھ زیادہ مہنگا ٹکٹ فروخت کرنا شروع کر دیا یعنی ایک لاکھ اکیس ہزار کا ٹکٹ ایک لاکھ ساٹھ کا فروخت ہو رہا ہے‘۔

پی آئی اے کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ زیادہ کرایہ لینے والے بعض ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اور اگر مسافروں سے کوئی اضافی کرایہ لے رہا ہے تو اس کی شکایت کی جائے جس پر ہر صورت کارروائی ہوگی اور جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

پی آئی اے کے ترجمان نے انکشاف کیا کہ ایجنٹ سسٹم میں ’فشنگ کر کے نشستیں اٹھا لیتے ہیں اور پرواز ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور اب اس سلسلے کو بھی ختم کر دیا ہے‘۔ ان کے مطابق جو کاؤنٹر پر پہنچتا ہے اس کو ٹکٹ ملتا ہے اس لیے لوگ باہر سے نہیں دفتر سے سستا ٹکٹ لینا چاہ رہے ہیں کیونکہ ایجنٹ مہنگا بیچ رہا ہے۔

ترجمان کے مطابق 15 دنوں میں تقریباً 51 پروازوں کے ذریعے 27 ہزار افراد سفر کر چکے ہیں۔

’پاکستان میں جو دیگر مقامی فضائی کمپنیاں ہیں انھوں نے سعودی عرب کے لیے پروازیں شروع نہیں کیں، اسی طرح سعودی عرب نے بھی خصوصی پروازوں کا آغاز نہیں کیا، صرف معمول کی پروازیں چلائیں۔ اس لیے ہم پر دباؤ زیادہ تھا، ہم نے کچھ لوڈ دبئی منتقل کیا تاکہ وہاں سے لوگ فلائی دبئی کے ذریعے چلے جائیں، ان تمام انتظامات کے تحت کل 40 ہزار کے قریب لوگ گئے ہیں‘۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ کا کہنا ہے کہ آج پیر کو مزید چار پروازیں جا رہی ہیں جن میں گیارہ بارہ سو کی گنجائش ہے۔ اس طرح 30 ستمبر تک وہ 30 ہزار لوگوں کو سعودی عرب پہنچا چکے ہوں گے۔

ان کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی اسی لیے وہ لوگوں کو افراتفری نہ پھیلانے کی تلقین کر رہے ہیں۔

Exit mobile version